معاشرے میں غیر مہذب اور پر تشدد رویوں کے بڑھتے ہوئے رجحانات


آپ حضرات نے وہ مشہور کہانی تو ضرور سنی یا پڑھی ہوگی جس میں سونے کا انڈا دینے والی مرغی اور لالچ کے انجام کا تذکرہ تھا، کہ کس طرح لالچ ایک انسان کو اپنے شکنجے میں جکڑ کر نقصان پہنچاتی ہے۔ جب اس شخص نے اپنی روزانہ سونے کا انڈا دینے والی مرغی کو اس لالچ کی وجہ سے ذبح کر دیا تھا کہ روز روز کے ایک انڈے کی الجھن سے نجات حاصل کر کے سارے انڈے ایک دم ہی حاصل کرسکے، اور امیر کبیر بن جائے مگر نتیجہ ہمیشہ وہ نہیں نکلتا جو انسان سوچتا ہے اور لالچ کا انجام تو ہوتا ہی برا ہے۔ لہذا مرغی بھی گئی ہاتھ سے اور سونے کے انڈے بھی۔

بالکل یہی حال ہمارا معاشرتی طور پر ہے، ہم بہت تھوڑے سے فائدے کے لئے کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ اخلاق، بردباری، تحمل، صبر اور اپنی باری کا انتظار جیسے لفظ ہماری لغت میں شاید ہیں ہی نہیں ہیں، اور اپنے مقصد کے حصول کے لئے کچھ بھی کرنے کو تیار ہیں، اگر اپنے محسن کی گردن پر چھری پھیرنا پڑے تو بھی کوئی مضائقہ نہیں۔

بہت ہی حیران کن اور شرمندہ کردینے والا منظر تھا موجودہ لاک ڈاؤن کی صورتحال اور اس کی تکلیف کو محسوس کرتے ہوئے ایک رحم دل انسان روزانہ کی مزدوری کرنے والوں کی مدد کو آیا، اور لگا مجبور و مایوس بیٹھے مزدوروں میں رقم بانٹنے، مگر یہ کیا وہ تو ایک پرتشدد ہجوم کے درمیان بے بس و لاچار پھنس گیا تھا لوگ اسے ہر طرف سے کھینچ رہے تھے اس کے کپڑے پھاڑ رہے تھے، بال نوچ رہے تھے بس ایک جنون تھا لوگوں میں کہ یہ تمام پیسے میرے ہاتھ آجائیں۔

خدا کا شکر کہ کچھ راہ گیروں نے یہ منظر دیکھ لیا اور مدد کو آ پہنچے، مگر چھیننے والوں میں بچانے والوں سے زیادہ جوش و جذبہ تھا لہذا کچھ ہی دیر میں وہ دوبارہ اسی طاقت سے حملہ آور ہوئے اور پھر وہی گھمسان کا رن۔ آخر کار اس بیچارے نے سارے نوٹ ہوا میں اچھال کر بہ مشکل اپنی جان بچائی اور دوڑ لگانے میں عافیت جانی۔ یہ ایک واقعہ ہے ایسے ہزاروں واقعے ہمارے ارد گرد بکھرے بڑے ہیں۔ مگر یہ سب کیا ہے اور ایسا بار بار کیوں ہو رہا ہے، یقیناً بار بار ایسا ہونا کسی خاص سمت اشارہ کر رہا ہے۔ وہ یہ کہ ہم بنیادی اخلاقی تربیت اور لحاظ و مروت سے بالکل عاری ہو چکے ہیں۔

طبقاتی خلیج کی وجہ سے لوگ آپس کے میل جول سے کٹ کر رہ گئے ہیں ساتھ ساتھ مناسب رہنمائی نہ ہونے کے برابر ہے جس کی وجہ سے نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جو موقع پرست، ابن الوقت، غیر ذمہ دار اور عادی مجرم بن چکی ہے، اور آج کے پل میں جینے کی عادی ہو چکی ہے، وہ ذہنی طور پر کسی بھی طرح بس آج کے پل کو کمانے کے عادی بن چکی ہے، جرائم کو بطور پیشہ اور بلا کسی شرمندگی اپنا لیتے ہیں، میرا اندازہ یہ ہے کہ وہ بخوبی یہ جانتے ہیں کہ کسی بھی وقت وہ ایک دردناک موت کا شکار ہو سکتے ہیں، ان کی کوئی سماجی حیثیت نہیں ہوتی، کوئی گھریلو ذمہ داری نہیں ہوتی وہ ہر رشتے ہر ناتے سے فارغ بس اپنے لئے آج کے پل میں جی رہے ہوتے ہیں۔

اور ان تمام افعال قبیحہ پر کوئی ندامت، پریشانی یا افسوس نہیں ہوتا بلکہ اس کی جگہ وہ اسے باعث فخر و انبساط لیتے ہیں۔ عمومی ایسے لوگوں کے گھر والے شرمندہ و پریشان ہی رہتے ہیں، کیونکہ لاڈلا بار بار جیل جا رہا ہوتا ہے، مگر سسٹم کی خرابی اسے درست راہ پر ڈالنے کے یا اس کی اصلاح کے اسے بار بار رہا کر دیتا ہے۔ اور ہر بار ان کے اعتماد کو بڑھانے کا سبب بن جاتا ہے اور وہ مزید تندہی سے جرائم کی طرف مائل ہو جاتے ہیں۔ بلکہ یہ بھی مشہور ہے کہ جیل پلٹ مجرم تو سرٹیفائیڈ ہوجاتا ہے اور جو جتنی بار جیل گیا ہوتا ہے وہ اتنا بڑا گرو مانا جاتا ہے۔

ہم ایسے کیوں ہوتے جا رہے ہیں کبھی غور کیا؟ یہ اخلاقی گراوٹ کہاں جا کر رکے گی، اور معاشرے پر اس کے پڑنے والے اثرات کیا گل کھلا سکتے ہیں، جو اپنا نہیں ہوتا وہ کسی کا نہیں ہوتا، تو پھر کیا شہر جنگل بن جائیں گے ہمارا حال بھی ڈیٹرائیٹ جیسا ہو جائے گا؟ تو جواب ہے جی ہاں بالکل ایسا بھی ممکنات میں سے ہے۔ ہم ان وجوہات اور رویوں پر غور اور ان کے تدارک پر عمل کیوں نہیں کرتے، صرف اس لئے کہ ابھی چنگاری میرے دامن تک نہیں پہنچی ہے۔

ٓان رویوں کے پروان چڑھنے اور پنپنے کی بنیادی وجہ غربت اور معاشرتی ناہمواری ہے، لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، دوسری وجہ تعلیم سے محرومی ہے۔ غریب عوام اول تو اپنے بچوں کو تعلیم دلانے کے قابل نہیں ہوتے اور اگر کوشش کر بھی لیں تو معاشرے میں رائج طبقاتی نظام یا فیوڈل سسٹم ان کی راہ کی دیوار بن کر سامنے آ جاتا ہے۔ جو زبردست احساس محرومی کو جنم دیتا ہے جو بڑھتے بڑھتے معاشرے سے نفرت اور پھر بغاوت کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔

اگر ہم غور کریں تو فوراً ہی اندازہ ہو جائے کا کہ ہمارے طبقاتی نظام کے بگاڑ نے بہت ہی خطرناک کردار ادا کیا ہے، اب سے چند دہائی پہلے ہمارے ہاں تین طرح کے طبقے ہوتے تھے، امیر (ایلیٹ کلاس) درمیانہ طبقہ یا سفید پوش (مڈل کلاس) اور نچلا طبقہ (لوئر کلاس) وقت اور سماج کے ظالم ہاتھوں نے سفید پوشوں کو تو بالکل ختم ہی کر دیا اور اب صرف امیر طبقہ ہے یا غریب جس کی وجہ سے زبردست طبقاتی فرق ابھر کر سامنے آیا ہے اور معاشرے میں محرومی ابتری اور انارکی کا سبب بنا ہوا ہے۔

یہ جو جرائم کی دنیا کے لوگ ہیں ان میں بیشتر معاشرے کے ٹھکرائے ہوئے، نا آسودہ حالات کا شکار نچلے طبقے کے افراد ہیں جو معاشرے سے اپنی نا آسودگی اور نا انصافی کا انتقام لے رہے ہوتے ہیں، وہ معاشرے کے باغی، سماج کے باغی، گو کہ ہر رشتے کے باغی ہوتے ہیں یہاں تک کے وہ اپنی ذات تک کے باغی ہوتے ہیں، تب ہی تو وہ اپنی جان اور اپنے اہل و ایال کی جان و عزت کی پرواہ نہیں کرتے۔ وہ معاشرے کے لئے سوہان روح بنے ہوتے ہیں۔

اگر ان تمام برائیوں کو درست کرنا ہے تو معاشرے کو فلاحی اصلاحی معاشرہ بنانا ہوگا، یہ تو فی الحال ممکن نہیں کہ امیر غریب کا فرق مٹا دیا جائے مگر کم از کم غریب اور نادار لوگوں کی فلاح و بہبود کے پروگرام بھی حکومت کی ترجیحات میں شامل ہونا چاہیں، مثلاً، ہر بچہ کے لئے تعلیم و صحت کا مناسب انتظام لازمی ہونا چاہیے، وہ بھی مفت، اس کی کتابوں اور تعلیم کے تمام اخراجات حکومت وقت کی ذمہ داری ہونا چاہیے۔ غریب کے بچوں کو تعلیم کے تمام مواقع فراہم کیے جانے چاہیں۔

فنی تعلیم کا بھی مناسب بندوبست ہونا چاہیے۔ ایک مکمل لائحہ عمل ہونا چاہیے، ساتھ ساتھ غیر نصابی سرگرمیوں کا بھی مناسب انتظام ہونا چائے تاکہ ذہنی و جسمانی نشو نما بھی پروان چڑھ سکے۔ ان کا سماجی طور پر مستحکم اور منظم ہونا وقت کی ضرورت ہے۔ اس کا فائدہ من حیث القوم سب کو پہنچے گا۔ گو کہ اس تجویز سے وڈیروں، خانوں، سرداروں اور چوہدریوں کے مفاد اور انا کو شدید ٹھیس پہنچے گی مگر آج اگر یہ کڑوی گولی نہ نگلی تو کل پھر بندوق کی گولی کا سامنا کرنا پڑے گا، اور جب دبا ہوا، پسا ہوا طبقہ ہتھیار اٹھاتا ہے تو سب سے پہلے ان کا نشانہ وہ اونچے درجے کے لوگ ہوتے ہیں جن کی وجہ سے وہ ایک ناآسودہ زندگی گزارنے پر مجبور ہوئے ہوتے ہیں۔ جس کی مثالیں سلطانہ ڈاکو سے لے کر پرو چانڈیو اور علی گوہر چانڈیو تک بھری پڑی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments