ڈپریشن اور طلبا



ڈپریشن اک خطرناک بیماری ہے۔ اور یہ مرض اب بڑھتا جا رہا ہے۔ ڈپریشن کسی بھی عمر کے شخص کو ہو سکتا ہے۔ اس کی وجوہات میں کسی عزیز کا بچھڑ جانا، تنہائی، مالی مسائل، کسی کے ساتھ دشمنی یا پھر بیماری کا شکار ہونا شامل ہیں۔ مثلاً جب کسی کو کینسر ہو جائے تو وہ اس جان لیوا بیماری کا شکار ہونے پر بھی ڈپریشن میں مبتلا ہو سکتا ہے۔ اکثر بچے پڑھائی کی وجہ سے بھی ڈپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں نمبر کم آنا ہارنے کا ڈر، والدین اور معاشرے کا دباؤ تنہائی طلباء میں ڈپریشن کی وجہ بنتے ہیں۔ اسی ڈپریشن کی وجہ سے لوگ خودکشی کرنے پر بھی مجبور ہو سکتے ہیں۔

پاکستان میں پندرہ بیس لوگ ہر روز خود اپنی جان کے لیتے ہیں۔ جب تکلیف بے حد ہو جائے تو لوگوں کو خودکشی کے علاوہ کوئی چار نظر نہیں آتا۔ اور وہ اس میں ہی نجات اور سکون دیکھتے ہیں۔ اور ایسے موڑ پر انسان کا اس بات سے بھروسا اٹھ جاتا ہے کہ زندگی میں کوئی خوشی بھی آ سکتی ہے۔ کیونکہ ایسے وقت میں امید کی کرن دیکھنا اک شخص کے لیے مشکل ترین کام ہوتا ہے۔

اکثر لوگ کسی کو اپنی اس حالت کے بارے میں بتاتے بھی نہیں ہیں کیونکہ ان کو لگتا کہ کوئی ان کو نہیں سمجھے گا۔ یہ سچ ہے کہ ہمارے ہاں لوگ اس معاملے کی سنگینی کو نہیں سمجھتے۔ اگر کوئی آپ کے پاس یہ کہنے آئے کہ میں ڈپریشن کا شکار ہوں اور خودکشی کا سوچ رہا ہوں تو سب سے پہلے تو اس کی بات غور سے سنیں اور اس کو بتائیں کہ آپ اس کے لیے ہر دم حاضر ہیں تاکہ وہ خود کو اکیلا نہ سمجھے۔

اور پھر اس کو بتائیں کے وہ خودکشی کا ہرگز بھی نہ سوچے اور جب بھی اس کے دماغ میں ایسا خیال آئے تو وہ آپ سے بات کرے۔ اور کبھی بھی ایسے شخص کی حالت کا مذاق نہ اڑائیں اور اسے یہ ہرگز مت کہیں کہ تم تو اچھے خاصے لگتے ہو۔ یا پھر تمہارے پاس تو ساری سہولتیں ہیں۔ خدا را سہولتوں سے آگے بھی زندگی ہے۔ اور صرف سہولتیں خوشی نہیں دیتیں۔

ہمارے ہاں اگر کوئی اداس ہو یا ڈپریشن کا شکار ہو تو اسے فوراً کہا جاتا ہے جاؤ جا کے نماز پڑھو۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ اللہ کی یاد میں سکون ہے پر جب کوئی آپ کو اپنی ایسی حالت کے بارے بتائے اسی وقت اس پر نصیحتوں اور حلوں کی بوچھاڑ مت کر دیں۔ کیونکہ ایسے وقت میں انسان کوئی حل نہیں سننا چاہتا وہ بس چاہتا ہے کہ کوئی اس کی بھی سن لے۔

طلبا پر بھی اتنا دباؤ مت ڈالیں کہ وہ چھوٹی سی عمر میں یہ قدم اٹھا لیں ؛بلکہ ہر سکول، کالج اور یونیورسٹی میں اساتذہ کا ایک ایسا گروپ بھی ہونا چاہے جو کہ صرف بچوں کے مسائل سننے کے لیے ہو۔

افسوس کہ پاکستان میں خودکشی کا ریٹ بڑھ رہا ہے پر ابھی بھی ہماری حکومت اور ذہنی صحت کے ماہرین اس سنگین معاملے پر چپ سادھے بیٹھے ہیں۔ شاید اس لیے کہ ہمارے لیے ذہنی صحت کبھی اہم تھی ہی نہیں۔ ہم انسان کو بھی مشین ہی سمجھتے ہیں۔ پر خدا کرے کہ اب ہمارے اندر بھی اس مسئلے کے بارے میں کوئی فکرمندی پیدا ہو اور ہماری حکومت بھی کوئی ایکشن لے۔

مثال ادریس

مشال ادریس
Latest posts by مشال ادریس (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مشال ادریس

مشال ادریس کی عمر بارہ برس ہے اور وہ لاہور کے ایک انگلش میڈیم سکول کی طالبہ ہیں

mishal-idrees has 6 posts and counting.See all posts by mishal-idrees

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments