پارلیمان میں حملوں کی کہانی؟


قومی اسمبلی کے بجٹ سیشن میں اور بھی بہت کچھ ہو چکا ہے لیکن اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کی تقریر کے دوران نواز لیگی اور تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی کی ایک دوسرے پر کتابوں کے بنڈلوں سمیت حملہ آور ہونے تک کی جو بدترین مثال قائم ہوئی ہے، اس کی نظیر ماضی میں نہیں ملتی ہے، ایوان میدان جنگ کا منظر پیش کر رہا تھا، گالی گلوچ میں ساری حدیں پار کرلی گئیں، مار دھاڑ ایسی کی گئی کہ لگ رہا تھا کہ اگلے لمحہ کوئی بڑا حادثہ ہو جائے گا، حادثہ ہوا بھی سہی خواتین ارکان اسمبلی سمیت بزرگ پارلیمنٹرین کتابوں کے بنڈلوں کا بری طرح نشانہ بنے۔

ادھر ایوان میں اسپیکر کے حکم پر طلب کی گئی سیکورٹی ارکان اسمبلی کے کتابوں کے بنڈلوں کی فائرنگ میں سینڈ وچ بنے ہوئے تھے۔ اسپیکر قومی اسمبلی جو کہ کسٹودین آف دی ہاؤس تھے، وہ اس تلخ اور مار دھاڑ والی صورتحال میں ایوان میں موجود ہونے کی بجائے اجلاس چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ شاید ان کے ایوان سے چلے جانے کے پیچھے جہاں اور وجوہات ہوں گی ، لیکن وہاں ایک بڑی وجہ نوازلیگی لیڈر و سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی اسی ایوان میں جوتا ما روں گا کی دھمکی بھی تھی۔

اسپیکر اسمبلی ایوان سے کیا گئے۔ صورتحال اور بگڑ گئی۔ ایسا ہنگامہ کبھی نہیں ہوا تھا کہ ارکان اسمبلی ایک دوسرے کی جان لینے کے در پئے ہوجائیں اور تمام اخلاقی حد پار کر جائیں۔ وزیروں تک اس صورتحال سے محفوظ نہیں تھے۔ ادھر اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کو کتابوں کے بنڈلوں کے وار سے بچنے کے لئے ایوان سے بھاگ رہے تھے۔ ایوان میں اے سی کی بے تحاشا ٹھنڈک ہونے کے باوجود ارکان کے چہرے ایک طرف پسینہ سے شرابور تھے تو دوسری طرف دونوں اطراف کے بعض ارکان کی آنکھوں میں خون کی جھلک دیکھنے کو مل رہی تھی۔

مطلب وہ سب کچھ کرنے پر تل چکے تھے؟ یہاں اس بات سے بھی انکار ممکن نہیں ہے پارلیمنٹ میں تلخی کی مثالیں موجود ہیں لیکن اکا دکا واقعات کی صورت میں ہیں۔ ایسا کبھی نہیں ہوا تھا، حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے پر حملوں میں اس نہج پر چلے جائیں کہ بزرگ اور خواتین ارکان اسمبلی کو کتابوں کے بنڈلوں کے وار کر کے نشانہ بنایا جائے۔ فی الحال تو دونوں اطراف کے ارکان پر ایوان میں داخلے پر پابندی لگی اور چند دنوں کے بعد اندرخانے کی بات یا پھر سمجھداروں کی مداخلت اور سمجھانے پر ایک طرف ارکان پر پابندی کا خاتمہ ہوا تو دوسری طرف اچھے بچوں کی طرح ایوان کو چلانے پر اتفاق ہوا۔

وہی جو ایک دوسرے کو خونی نظروں سے دیکھ رہے تھے، وہی اچھے بنے گئے، کارروائی کا آغاز ہو گیا۔ ڈپٹی اسپیکر کے خلاف جمع کرائی عدم اعتماد کی تحریک بھی واپس لے گئی، اسپیکر کے ساتھ بھی سب اچھا ہو گیا اور پھر بجٹ پر دھواں دھار تقریروں کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے لیکن ابھی الجھی صورتحال مکمل طور پر سلجھی نہیں ہے، ہو سکتا ہے، وزیراعظم عمران خان کی ہاؤس میں آمد پر ایک بار پھر چنگاری شعلے کا روپ دھار لے؟ نوازلیگی جس طرح اسمبلی میں حکومت کے سامنے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اور تلخی کی آخری حد تک جانے کا پروگرام لے کر آئے ہیں اور اس کا عملی مظاہرہ بھی کیا ہے، وہ اس بات کی چغلی کر رہا ہے کہ وہ ابھی پیچھے ہٹے ہیں لیکن جوابی وار اور تلخی سے دستبردار نہیں ہوئے ہیں۔

اس بار بجٹ سیشن کے دوران جہاں قومی اسمبلی میں نوازلیگی اور تحریک انصاف کے ارکان ٹکرا گئے ہیں، وہاں بلوچستان اسمبلی کے باہر تشدد کی بدترین مثال دیکھنے کو ملی ہے، بلوچستان اسمبلی میں تو وزیراعلی جام کمال نے تلخ ترین صورتحال کا سامنا ہے۔ ادھر اپوزیشن کے ارکان کے ساتھ پولیس نے کوئی کمی نہیں رکھی ہے۔ وہاں بھی اسلام آباد کی طرح تلخی او ر تناؤ کی کیفیت میں کچھ دیر کا وقفہ آیا ہے لیکن حالات اسی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ پارٹی تو ابھی شروع ہوئی ہے۔

پاکستان کی سیاست میں بڑھتا ہوا تشدد کسی مثبت صورتحال کی طرف اشارہ نہیں دے رہا ہے۔ خطرے کی گھنٹی یوں بج رہی ہے کہ پہلے تو اپوزیشن ایسے تلخی سے بھرپور ماحول تیار کرنے میں جلتی پر تیل کا کام کرتی تھی لیکن اب تو حکومت تیلی لگانے کے کام میں برابر کی چوٹ مار رہی ہے۔ ایوان کے اندر اور باہر کی صورتحال کا ایک حل تو یہ ہے کہ آنکھیں بند کرلی جائیں اور جو ہوتا رہا ہے اس کو چلنے دیا جائے لیکن پاکستان کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ ایسی صورتحال میں حملہ بچاری جمہوریت پر ہوتا ہے اور پھر یہی سیاسی جماعتیں جو حکومت میں ہیں یا پھر اپوزیشن میں ہیں، ایک دوسرے معافیاں بھی مانگ رہی ہوتی ہیں اور اپنی غلطیوں کا اعتراف بھی کر رہی ہوتی ہیں لیکن اس وقت گزر چکا ہوتا ہے۔

اس وقت صرف اپنے منہ پر ہی مکا مارا جاسکتا ہے۔ اس صورتحال میں عوام میں بھی خاصی مایوسی یوں دیکھنے کو ملی ہے کہ ان کے منتخب ارکان اسمبلی چاہے وہ حکومت کے تھے یا پھر اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کی قیادت میں تھے، وہ عوام کے ایوان کا تقدس پامال کرنے میں پیش پیش تھے۔ اب جب ایوان میں بجٹ پر بحث کا آغاز ہو چکا ہے، اس وقت مولانا فضل الرحمان کے فرزند اسعد محمود نے بجٹ پر اظہار خیال کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان کو یوں آڑے ہاتھوں لیا کہ وزیراعظم نے یہ دعوی کیا کہ میں نے گزشتہ حکومتوں سے زیادہ روڈز بنائے ہیں۔

آپ۔ امجد خان نیازی۔ کا تعلق میانوالی سے ہے، وزیراعظم صاحب کا تعلق میانوالی سے ہے لیکن بلکسر سے میانوالی تک روڈ تین سال میں بنا نہیں سکے؟ اور دعوی کر رہے ہیں کہ ہم نے پچھلی حکومتوں سے زیادہ روڈز بنائے ہیں۔ ادھر ایک سوات موٹروے جو کہ پرویز خٹک نے بنایا، ایک بار خٹک صاحب نے خود افتتاح کیا، دوسری مرتبہ موجودہ وزیراعلی محمود خان نے افتتاح کیا اور دوبار مرتبہ وزیراعظم عمران خان نے اس کا افتتاح کیا۔ اب اس موٹروے کو چار مرتبہ بار بار گنا جائے تو آپ کا دعوی صحیح ہے؟

ہمارے خیال میں تھل کے ارکان اسمبلی بالخصوص وزیراعظم عمران خان نے ایم ایم روڈ مطلب قاتل روڈ کے معاملے حکومت کے تین سال مکمل ہونے کے باوجود عوام کو اس کو موٹروے میں تبدیل کرنے کے حوالے ٹھوس یقین دہانی تک نہیں کروائی ہے؟ یوں تھل کی عوام کو اس بات کا یقین ہو چلا ہے کہ ان کی نمائندگی کا حق ادا نہیں کیا جا رہا ہے۔ ادھر قاتل روڈ بڑی تعداد میں انسانی زندگیوں کو نگل چکا ہے، اس بات کا اظہار پاکستان تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی بھکر ثنا االلہ مستی خیل بھی آبدیدہ ہو کر چکے ہیں۔ لیکن دلی دور است۔ اب تو اپوزیشن اسعد محمود کی شکل میں فلور آف دی ہاؤس اس بات کا طعنہ وزیراعظم عمران خان بھی دے رہی ہے کہ آپ تو تین سال میں بلکسر میانوالی روڈ نہیں بنا سکے، مطلب قاتل روڈ کو موٹروے میں تبدیل نہیں کرسکے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments