شاطر ملازم اور گدھا مالک


 
 

میں اپنے ملازم سے سخت نالاں ہوں۔ ہر پہلی کو تنخواہ لینے موجود ہوتا ہے۔ پھر پورا مہینہ غائب۔ ایک بار اسے ڈھونڈتا ہوا اس کی رہائشی کالونی پہنچا۔ پہلے تو ملازم کے ملازمین اندر گھسنے نہیں دے رہے تھے۔ شناختی کارڈ اور عزت نفس گیٹ پر رکھوا کر بہت مشکل سے داخلہ ملا تو آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔

میرے خدا! سڑک نامی شے کے بارے میں صرف سنا تھا۔ بزرگ بتاتے ہیں کہ کبھی ہمارے محلے میں بھی سڑک تھی، لیکن اب صرف آثار قدیمہ رہ گئے ہیں۔ اور ملازم کی طرف ہموار سڑکوں کا جال۔ میری پھٹیچر موٹر سائیکل ایسے چل رہی تھی جیسے تیر رہی ہو۔ لیکن یہ تو تحیرات کا صرف آغاز تھا۔

پانی، میرے خدا، ٹھاٹھیں مارتا ہوا سوئمنگ پول کا نیلا پانی جس میں ملازم کے بچے اٹکھیلیاں کر رہے تھے۔ میں، جسے ہفتے میں ایک دن نہانے کے لیے ایک بالٹی مٹیالا پانی بھی مشکل سے نصیب ہو، اسے تو وہ سوئمنگ پول ٹھاٹھیں مارتا سمندر ہی لگنا تھا۔ احمد ندیم قاسمی صاحب سے معذرت کے ساتھ، میں اپنی پتھرائی ہوئی آنکھ کے پتھر سے یہ نیلا پانی دیکھ رہا تھا کہ میری نظر ایک سبز رنگ کی چیز پر پڑی۔ گھاس! گھاس جس کا ذکر صرف ایٹم بم کے عوض قوم کی خوراک کے طور پر سنا تھا۔ لیکن یہاں اصل میں گھاس تھی جسے دیکھ کر آنکھوں میں ٹھنڈ اتر جائے۔

ملازم اس گھاس پر ایک ہاکی نما چھڑی لیے ایک گیند کو زمین میں بنے سوراخ کی طرف لڑھکا رہا تھا۔ یا تو یہ کوئی کھیل تھا یا مجھ ناسمجھ کے لئے کوئی استعارہ، لیکن اس عمل میں کوئی ایسی انجانی ہیبت تھی کہ میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ میں پیچھے ہٹ رہا تھا اور میری آنکھوں میں صدیوں کے تحیر اور خوف کے ڈورے تھے (پھر قاسمی صاحب سے معذرت) ۔

اوسان تب بحال ہوئے جب اپنی پتھریلی پگڈنڈیوں پر ٹھاٹھیں مارتے گٹر کے پانی کا سامنا ہوا۔ خود پر لعنتیں بھیجتے اور اپنی دو روپیائی کرتے گھر پہنچا۔

کچھ عرصے بعد گھر والوں کو ملازم اور اس کے بچوں کے طرز زندگی کا پتا چلا۔ پہلے تو بہت ہنگامہ ہوا، لیکن اب تو گھر والے بھی مجھ پر ہنستے ہیں۔ اور ملازم تو پہلے ہی میری عزت کی فٹبال بنا کر ٹھوکروں میں رکھتا ہے۔

اگر کبھی میری غیرت جاگ اٹھے اور لہجہ تھوڑا سخت ہو جائے تو۔ اب آپ سے کیا چھپانا، مجھ پر ہاتھ بھی چھوڑ دیتا ہے۔ غیرت چشم زدن میں خاک ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد خاموشی سے ملازم کا بیان، جو ملازمین سے غداری کے نقصانات اور وفاداری کے فوائد پر ہوتا ہے، الف سے ے تک سن لیتا ہوں۔

ویسے ایک بار اس پر بہت پیار آیا۔ میرے گھر میں سیلاب آ گیا تھا۔ ہم گرتے پڑتے چھت پر پہنچے لیکن پانی چڑھتا ہی گیا۔ قریب تھا کہ ڈوب مرتے کہ ملازم نمودار ہوا، کشتی پر۔ ہماری خوشی کا ٹھکانہ نہ تھا۔ بار بار ملازم کا شکریہ ادا کر رہے تھے، اس کا احسان تھا ہم پر۔ لیکن پھر اس نے احسان جتانا شروع کر دیا۔ ”دیکھو میرا احسان، میرے بغیر تم، تمہارے بچے سب ڈوب چکے ہوتے، تم اور تمہاری نسلیں میرے احسان تلے دبی ہیں،“ وغیرہ۔

میں احسان فراموش نہیں ہوں، لیکن ایک حد ہوتی ہے۔ میں پھٹ پڑا۔ ”یہ بہترین کشتی، یہ تربیت یافتہ ملاح، ان کا انتظام آخر میرے پیسوں سے ہی ہوا ہے۔ کیا ہوا اگر اتنے سالوں میں ایک بار یہ تمہارے شکار اور پکنکوں کے بجائے میرے کام آ گئے؟“ غصے میں یہ بھی نہ سوچا کے کشتی پر ہوں، تیرنا آتا نہیں، بکتے جھکتے کلیم عاجز کا شعر بھی اس کے منہ پر مار دیا: ”واہ بھئی واہ، میرے ہی لہو پر گزر اوقات کرو ہو، مجھ سے ہی امیروں کی طرح بات کرو ہو۔“

ملازم آگ بگولہ ہو گیا۔ نمک حرام مالکوں کے بھیانک انجام پر مجھے زود اثر لیکچر دیا۔ اتنے غصے میں تھا کہ لگا مجھے سیلاب برد کردے گا۔ لیکن ہے بہت عقلمند۔ تنخواہ دینے والے کو ڈبو دیتا تو پکنکوں کے مزے کہاں سے آتے۔ دو چار ڈبکیوں کے بعد گردن سے پکڑ کر واپس کشتی میں گھسیٹ لیا۔ کیا بتاؤں اس لمحے ملازم پر کتنا پیار آیا۔

صاحبو، قیامت مجھ پر تب ٹوٹی جب میری نہایت قیمتی اراضی پر قبضہ ہو گیا۔ یوں سمجھیے میری زندگی کا دار و مدار اس زمین کے ٹکڑے پر تھا۔ مجھے یاد آیا نوکری کی درخواست کے ساتھ ملازم نے بائیو ڈیٹا میں لکھا تھا کہ اسے لاٹھی، گولی چلانے کا تجربہ بھی ہے۔ پھر اس نے ڈولے شولے بھی بنائے ہوئے ہیں جو عام طور سے تو مجھ پر ہی استعمال ہوتے ہیں، لیکن میں نے سوچا یہ لاٹھی، گولی کا تجربہ تو اب میرے کام آئے گا۔

خیر، ڈر تو رہا تھا کہیں وہ ساتھ چلنے سے انکار نہ کر دے۔ یہ دیکھ کر حوصلہ دوچند ہو گیا کہ وہ تو میرے ہی انتظار میں بیٹھا تھا۔ اس نے جیب سے ایک کاغذ نکال کر مجھے تھما دیا۔ واہ واہ، اس کاغذ پر غاصبانہ ہتھکنڈوں کے خلاف ایسی شاندار تقریر تھی جو کیا کسی نیلسن منڈیلا یا مارٹن لوتھر کنگ نے کبھی کی ہو گی۔ پھر بھی میں نے کہا، تقریر سے کیا ہو گا، کوئی عملی قدم اٹھانا ہو گا۔ ملازم بولا، آپ صرف اپنے پلاٹ کے سامنے کھڑے ہو کر گھن گرج کے ساتھ تقریر کر دیجئیے، باقی میرا کام۔

پلاٹ پر پہنچ کر میرے جیسے منحنی نے بھی ایسی ڈلیوری دی کہ آس پڑوس والے ششدر رہ گئے۔ اس تقریر میں مذہبی دھاڑ تھی، شیروں کی چنگھاڑ تھی، رزمیہ للکار تھی۔ دشمن بھی دیوار کے اوپر سے سر نکال کر انگشت بدنداں تھا۔ میں سمجھا اب بھاگا کہ تب بھاگا، لیکن پھر اس کے بچوں نے گندے انڈوں اور سڑے ٹماٹروں سے مجھ پر حملہ کر دیا۔ دراصل جن چیزوں کو میں للکار وغیرہ سمجھ رہا تھا وہ تو دشمن کے لئے صرف معصومانہ پچکار تھی۔

گھبرا کر پلٹا تو ملازم غائب۔ جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دے گئے تو میں بھی وہاں سے ریس ہو گیا۔

جناب، ایسے ہی ستم در ستم سہتے میں آخر کنگال ہو گیا۔ بچوں کو سکول سے اٹھا لیا، کریانہ والے سے منہ چھپانے لگا، سوچ لیا کہ پہلی کو ملازم آئے گا تو معذرت کر لوں گا، کہوں گا کوئی اور ملازمت ڈھونڈ لو بھائی۔

جب اس نے یہ الفاظ سنے تو میری آخری قمیض کے گریبان سے گھسیٹتا ہوا مجھے ایک مہاجن کے دروازے پر لے گیا۔ ”گھنٹی بجاؤ اور قرض لو۔“ آرڈر دے کر سائے میں بیٹھ کر پب جی کھیلنے لگا۔ میں تپ گیا۔ ”قرض میں لوں، مے تم پیو، فاقے ہمارے، اور مستی تمہاری۔“ یہ سن کر اس نے مجھے فٹبال بنایا اور مجھے گھنٹی بجاتے ہی بنی۔

مہاجن نے قرض کے معاہدے کی جو شقیں بتائیں ان کے مطابق میں اور میرے بچے ہی نہیں، میری سات نسلیں مہاجن کے پاس گروی ہو رہی تھیں۔ ایسی تذلیل آمیز شرائط تو معاہدہ ورسائی میں جرمنی پر بھی مسلط نہیں کی گئی تھیں۔

نہیں، میں اپنی نسلوں پر یہ ظلم نہیں کر سکتا۔ یہ سوچتے ہوئے میں پیچھے ہٹنے لگا کہ ملازم نے اپنا جوتا میری کمر پر رکھ کر مجھے دوبارہ آگے دھکیل دیا۔ میں نے لرزتے ہاتھوں سے دستخط کر دیے۔

مہاجن پیسے لینے اندر گیا تو میں نے سوچا، چلو کچھ خرچہ تو چلے گا، ملازم کی تنخواہ سے جو بچا اس سے گھر کے لئے آٹا لے لوں گا، کچھ علاج پر لگا دوں گا، بچوں کو دوبارہ سکول میں ڈال دوں گا۔

پیسے لے کر جیسے ہی مڑا، ملازم پیچھے کھڑا تھا۔ جھپٹا مار کر نوٹ چھینے، کچھ ریزگاری میرے منہ پر ماری، اور یہ جا اور وہ جا۔ میری ہمت جواب دے گئی۔ ایسا لگا جیسے ملازم میرے بچوں کے دہن سے دودھ، بدن سے کپڑے، ذہن سے تعلیم، سب چھین کر لے گیا ہو۔ تصور میں بچوں کو بھوک سے بلکتے، چیتھڑوں میں لپٹے، جہالت کے اندھیروں میں بھٹکتے دیکھا اور آنکھیں ڈبڈبا گئیں۔

صدمہ اتنا شدید تھا کہ میں مہاجن کی طرف پلٹا کہ شاید وہاں سے تسلی کے دو بول مل جائیں۔ لیکن اس کا سود کی چربی سے بنا جسم ہنسی کے مارے تھل تھل کر رہا تھا۔ بے بسی سے میں نے کہا، ”ایسے بے عزت کرنے سے تو بہتر تھا وہ خود ہی آ کر آپ سے رقم لے جاتا۔“

مہاجن کے نرخرے سے ایک کریہہ الصوت قہقہہ برآمد ہوا۔ وہ بولا: ”اگر خود رقم لیتا تو واپسی کے لئے ہم تمہاری نہیں، اس کی گردن پکڑتا۔ بیوقوف تھوڑی ہے۔“

بجا فرمایا، وہ کہاں بیوقوف۔ الو کا ڈیش تو میں ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments