اقبال کا پیغام امید اور کرونا بحران


covid 19 نے پوری دنیا میں تباہی مچا رکھی ہے اور زندگی کے ہر شعبے کو بری طرح سے متاثر کیا۔ خواہ وہ تعلیم ہو یا کھیل کا میدان، کاروبار ہو یا محنت مزدوری، شادی بیاہ کا اجتماع ہو یا محفل میلاد، مسجدیں ہوں یا مندر غرض ہر جگہ ویرانی کا سماں پیش کر رہی ہے۔

کرونا وائرس پر قابو پانے کے لیے ملک بھر میں لاک ڈاوٴن نافذ کیا گیا۔ 13 مارچ 2020 کو یہ خبر سامنے آئی کہ پنجاب کے تعلیمی ادارے بشمول جامعات دو ہفتے کے لیے بند کر دیے گئے ہیں، اس حوالے سے وقتاً فوقتاً خبریں چلتی رہیں اور جبری تعطیلات میں اضافہ ہوتا گیا۔ پہلے پہل تو طلبا و طالبات میں فطری طور پر خوشی کی لہر دوڑی کہ تعطیلات کی بدولت کچھ دن پڑھائی سے جان چھوٹے گی، مگر آہستہ آہستہ یہ تعطیلات بڑھتی گئیں اور جبری تعطیلات میں تبدیل ہو گئیں۔

آئے دن تعطیلات میں اضافہ یہ ایک آفت ہی تو ہے جس نے پورے کرہ ارض کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور خوف و دہشت نے دن کو سیاہ کر دیا۔ گلی کوچوں میں سناٹا اور ویرانی رقص کرتے پھرنے لگے۔ مسجد سی امام صاحب کی آواز آتی ہے کہ تمہارا رب تم سے ناراض ہے۔ تب ہمیں امید کا دامن ہمارے ہاتھ سے سرکتا ہوا محسوس ہوا، یوں لگا ہے کہ ہماری آنکھیں چندھیا گئیں کلیجا منہ کو آنے لگا ہے۔ ہم کبھی گھر میں ٹک کر نہیں بیٹھے تھے، گھر والے ہمارے قرب کو ترستے تھے مگر پھر ہم گھر میں اس طرح قید ہوئے کہ فرار کی کوئی راہ نہ بچی۔

ہر وعظ میں امام صاحب کا کہنا کہ ”تمہارا رب تم سے ناراض ہے“ سراسر ہمیں نا امیدی کی طرف لے جانے لگا، کیا امام صاحب ہمیں یہ نہیں کہہ سکتے کہ تمہارا رب رحیم و کریم ہے جو تم اپنے گھر میں محفوظ ہو، کھانے پینے کو مل رہا ہے چولہا جل رہا ہے تمہارا، تمہیں اپنوں کا قرب نصیب ہے کیا تمہارا رب تم پر رحیم و کریم نہیں ہے۔ ؟ یہ تمہارے رب کا رحم و کرم نہیں ہے تو اور کیا ہے۔ ؟ اگر آپ گھر میں قید ہیں تو اس قید کا فائدہ اٹھائیں نا کہ نا امید ہو کر بیٹھ جائیں کیوں کہ اقبال کہتے ہیں :

صفت برق چمکتا ہے میرا فکر بلند
کہ بھٹکتے نہ پھریں ظلمت شب میں راہی

قرآن پاک ہمیں حرکت و عمل کی تعلیم دیتا ہے۔ نماز کیا ہے؟ حرکت ہی تو ہے اور زکٰوة حج یہ سب حرکت ہی سے تو ممکن ہیں۔ گھر میں قید رہ کر یہ حرکت عمل میں لائی جا سکتی ہے جو کہ ہمیں مایوسی کی طرف جانے سے روکتی ہیں۔ اقبال ایک اور جگہ رقم طراز ہیں :

” اسلام نے خوب سمجھ لیا تھا کہ انسان ہمیشہ سہاروں پر زندگی بسر نہیں کر سکتا اس کے شعور ذات کی تکمیل یوں ہوگی کہ وہ خود اپنے وسائل سے کام لینا سیکھے“

اقبال مسلمانوں میں حرکت و عمل کا جذبہ پیدا کرنا چاہتے تھے وہ اپنی قوم کو مایوس نہیں دیکھنا چاہتے تھے اور انھیں اپنی قوم پر پورا یقین تھا کہ وہ ان کی امیدوں پر پورا اتریں گے۔ اقبال کا ایک شعر ہے :

نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی

اب دیکھا جائے تو اس وائرس نے پوری دنیا میں مایوسی کی لہر دوڑا کے رکھ دی، لاک ڈاوٴن کے باعث ایک مزدور طبقہ ایسا بھی ہے جسے کھانے کو روٹی نہیں مل رہی کیوں کہ اس کے پاس مزدوری نہیں، پیسے نہیں کمائے گا تو اپنے بچوں کو روٹی کیسے کھلائے گا۔ بہت سارے لوگ ایسے ہیں جو اس وائرس سے مایوس ہو کر امید سے کنارہ کشی کر بیٹھے ہیں۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ جب لاک ڈاوٴن عروج پر تھا تو آئے دن کوئی نہ کوئی ایسی خبر سننے کو ملتی تھی کہ فلاں نے مزدوری نہ ملنے پر بھوکے پیٹ بچوں سمیت خود کو موت کی گھاٹ میں اتار لیا۔ یہ مایوسی اور نا امیدی ہی تھی افسوس کہ ہمارا معاشرہ مایوسی کا شکار ہو کر امید سے پہروں دور ہو گیا۔

اقبال اپنے ایک خط میں لکھتے ہیں کہ ”جب قوم میں طاقت اور توانائی مفقود ہو جاتی ہے جیسا کہ تارتاری یورش کے بعد مسلمانوں میں مفقود ہو گئی تھی، پھر اس قوم کا نقطہ نگاہ بدل جاتا ہے، اس کے نزدیک ناتوانی حسین و جمیل شے ہو جاتی ہے اور ترک دنیا موجب تسکین۔“

امید کو عام طور پر لوگ صرف ایک لفظ سمجھتے ہیں حالاں کہ ہمارا سب سے بڑا سرمایہ ہی امید ہے، امید ہمارا سہارا ہے، ایک انقلابی تصور ہے امید۔ اسی نسبت سے نا امیدی سب سے بڑی غربت اور معذوری ہے۔

کرونا وبا اور لاک ڈاؤن کی بدولت جتنے بھی ایسے کیس سامنے آئے جنہوں نے نا امید ہو کر خود کو اور اپنے گھر والوں کو، اپنے بچوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا وہ سب نا امیدی کا باعث تھے حالانکہ اسلام نے مسلمانوں کو اس بات کی تعلیم دی ہے کہ حالات کا جبر کتنا ہی سخت کیوں نہ ہو اس کے خلاف جہاد کرو ایسا نہیں کرو گے تو کروڑوں انسان نا امید ہو جائیں گے۔ پہلے وہ حالات سے نا امید ہوں گے پھر اپنے آپ سے۔ یاد رہے کہ دنیا کو صرف پرامید لوگ بدلتے ہیں۔ دنیا کو بدلنا صرف انقلابیوں اور پرامید لوگوں کا کام ہے۔ بلاشبہ اقبال فرماتے ہیں :

ہر نئی تعمیر کو لازم ہے تخریب تمام

خدارا امید کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیے، ایک لمحے کے لیے سوچیے آپ کے پاس سب کچھ ہے، ہر نعمت ہے کھانے پینے کو سب کچھ مل رہا ہے، اگر گھروں میں بیٹھے ہیں تو آپ کو اپنے پیاروں کا قرب بھی نصیب ہے خدا کا شکر ادا کیجیئے۔ کرونا وائرس نے اگر آپ کی نیندیں حرام کی ہے تو یہ مت بھولیے کہ 80 فیصد لوگ صحت یاب بھی ہو رہے ہیں۔ اس خوف و وحشت اور لاک ڈاؤن کے باعث بھی ہماری مساجد میں پانچ وقت کامیابی فلاح اور رب کی کبریائی کے ترانے بلند ہو رہے ہیں۔ پھر آپ لوگ کیوں سوچتے ہیں کہ اللہ ہم سے ناراض ہے۔ وہ رب کہتا ہے :

” ولا تکلف نفساً الا وسعھا“
ترجمہ : ہم تو کسی کو اس کی برداشت سے بڑھ کر تکلیف میں مبتلا نہیں کرتے (القرآن)

مایوسی کفر ہے اور مایوسی کے جال سے نکلیے اور امید کی طرف دیکھئے جو صبح کا پیغام ہے۔ شعاع امید میں اقبال کہتے ہیں :

سورج نے دیا اپنی شعاعوں کو یہ پیغام
دنیا ہے عجب چیز کبھی صبح کبھی شام

موخرالذکر ہم اللہ سے اچھے کی دعا اور امید کرتے ہیں کہ اللہ اس وائرس کو جڑ سے کاٹ نکالے اور زندگی اپنی ڈگر پر واپس آ جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments