دس چیزیں جو عمران خان صاحب کو ضرور گوگل کرنی چاہئیں



گوگل دور جدید کی ان انقلابی ایجادات میں سے ہے جنہوں نے دنیا کو یکسر بدل کر رکھ دیا اور اب ہر چیز کی معلومات ایک سرچ انجن کی دوری پر ہوتی ہے۔ اگرچہ یہ با ضابطہ طور پر 1998 میں لانچ کیا گیا جب کہ اس کی ابتدا 1996 میں بیک رب کے نام سے ہو چکی تھی۔ اور یہ اب سب سے زیادہ سرچ پر مبنی ویب انجن بن چکا ہے۔ آج ہم بھی کچھ ایسی چیزوں کا ذکر کریں گے جو عمران خان صاحب کو ضرور گوگل پر روز یا ہفتے میں ایک بار، یا پھر کم از کم مہینے میں ایک بار تو ضرور سرچ کرنی ہی چاہئیں۔ کیونکہ وہ ہمارے ملک پاکستان کے وزیر اعظم بھی ہیں تو انہیں تو اس سرچ انجن سے ضرور مستفید ہونا چاہیے۔

پہلی چیز کو انہیں سرچ کرنی چاہیے وہ یہ ہے کہ ملک کا وزیر اعظم اس وقت کون ہے؟ وہ اس بات کا برملا اظہار بھی 2018 ء میں ایک بار کر چکے ہیں کہ وہ ٹی وی پر کبھی ظلم ہوتا دیکھتے ہیں تو غصہ آ تا ہے کہ یہ ظلم کیوں ہو رہا ہے اور پھر بشری بی بی یاد دلاتی ہیں کہ وہی وزیر اعظم پاکستان ہیں۔ اب شاید ان کو بھی یاد دلانا یاد نہیں رہتا تو خان صاحب کو خود بھی گا ہے بگا ہے سرچ کرتے رہنا چاہیے۔ کیوں کہ ملک میں یہ ظلم اب بھی ہو رہا ہے اور انہوں نے ہی اسے بہرحال روکنا ہے۔

دوسری چیز ان کو یہ سرچ کرنی چاہیے کہ وزیر اعظم کے اختیارات کیا ہیں۔ کیونکہ وہ خود بھی اکثر مافیا کا ذکر کرتے ہیں اور اس کے آگے وہ خود ہی بے بس بھی نظر آتے ہیں جب کہ اس مافیا کو انہوں نے ہی کنٹرول کرنا تھا۔

تیسری چیز کو ان کو سرچ کرنے کی اشد ضرورت ہے کہ اس وقت حکومت میں کون ہے اور اپوزیشن میں کون۔ کیونکہ وہ اکثر تقاریر میں بتاتے ہیں کہ ایسے ہونا چاہیے ویسے ہونا چاہیے، یا ملک میں اتنے فیصد بچوں میں خوراک کی کمی ہے جس سے ان کے قد نہیں بڑھ رہے وغیرہ وغیرہ، یا ان کی قوم سے خطاب میں اکثر دھر نے کے کنٹینر والا تاثر ملتا ہے جب کہ وہ تو کب سے حکومت میں بھی آ چکے اور اب تو ”ایسے اور ویسے“ ہو جانا چاہیے تھا! جب کے موجودہ حکومت میں مہنگائی سے تو ان بچوں کو دو وقت کا کھانا بھی بمشکل مل رہا ہے۔

چوتھی چیز خان صاحب کو جو سرچ کرنی چاہیے وہ ان کی اپنی پرانی ٹویٹس ہیں جو وہ جب اپوزیشن میں تھے تو عوام کے حقوق کے لیے یا مختلف مواقع جیسے ٹرین حادثات، بجٹ میں مہنگائی، پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے وغیرہ پر کیا کرتے تھے۔ یہ ٹویٹس تو ان کے اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ پر ہی دستیاب ہوں گی ۔

کیونکہ خان صاحب امت مسلمہ اور اسلامو فوبیا کے لیے بھی آواز اٹھاتے رہتے ہیں اور کشمیر اور فلسطین کے لیے آواز بلند کرتے ہیں تو ان کو چائنہ کے ایغور مسلمانوں کے لیے بھی آواز ضرور اٹھانی چاہیے اور وہ حالیہ انٹرویو میں اس سے لا علم بھی نظر آئے تو ان کو پانچویں چیز ایغور مسلمانوں کی حالت زار پر انٹرنیشنل میڈیا کی رپورٹس ضرور ملاحظہ اور سرچ کرنی چاہئیں اور ان سے بھی سگے مسلمانوں والے جذبات ہی رکھنے چاہئیں۔ وہ بھی ہمارے پڑوس میں ہی رہتے ہیں جہاں ان کی نسل کشی جاری ہے۔

چھٹی چیز جو ان کو سرچ کرنی چاہیے وہ یہ کہ ان کے لیے گئے نوٹسوں کا کیا بنا جو انہوں نے مختلف چیزوں پر لیے تھے، مثلاً چینی مہنگی ہونے پر، آٹے کی قلت پر، پیٹرول کی قیمتوں پر وغیرہ وغیرہ، کیونکہ یہاں وہ نوٹس لیتے ہیں اور وہاں وہ چیز مزید مہنگی یا مارکیٹ سے گم ہی ہو جاتی ہے، ان کو نوٹس لینے کے بعد میں ایکشن بھی لینا چاہیے یا پھر سرے سے کسی چیز پر نوٹس ہی نہیں لینا چاہیے۔

ساتویں چیز ان کو ملک میں ریپ کے واقعات کے اعداد و شمار اور ان کی ”اصل“ وجوہات ضرور سرچ کرنی چاہئیں۔ کیونکہ وہ تو ہر بار خواتین کے لباس کو مورد الزام ٹھہرا دیتے ہیں جب کہ حالیہ دنوں میں تو مدارس سے بھی ویڈیو لیکس کا سلسلہ زور و شور سے جاری ہے، اور چھوٹے بچوں اور مردہ خواتین کے ساتھ بھی یہ واقعات بڑھ رہے ہیں۔ یہ سب کچھ گوگل کرنے کے بعد ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے کوئی عملی اقدام بھی ضرور اٹھائیں صرف نوٹس نہ لیں۔

آٹھویں چیز ان کو یہ سرچ کرنی چاہیے کہ حکومت میں آنے کے بعد کتنے چور ڈاکووں کو سزا دلا کے ملک کی لوٹی ہوئی دولت خزانے میں جمع کرا چکے ہیں کیونکہ بظاہر تو اس کی کوئی امید ان کے دور حکومت میں نظر نہیں آ رہی۔

نویں چیز عمران خان کو اپنے انتخابی وعدے اور 100 دن کا ایجنڈا بھی سرچ کر لینے چاہئیں کیونکہ ان کا آدھا دور حکومت ختم بھی ہو گیا ہے اور کوئی وعدہ پورا نہیں ہوا، ہو سکتا ہے وہ یہ سب بھول گئے ہوں جب کہ مہنگائی کا بم باقاعدگی سے غریب عوام ( جس کا درد وہ سینے میں لے کر آئے تھے ) پر چند دن بعد ضرور گراتے ہیں۔

دسویں چیز وہ اقلیتوں پر ہونے والے امتیازی سلوک کے واقعات کے اعداد و شمار بھی سرچ کر لیں کیونکہ وہ ہر پاکستانی کے وزیراعظم ہیں، اور روز محشر ان کے لیے بھی جواب دہ ہوں گے۔ ریاست مدینہ میں تو سب کو برابر حقوق ملے ہوئے تھے۔

ہو سکتا ہے یہ چیزیں سرچ کر کے اور ان پر عمل کر کے خان صاحب کے باقی دور حکومت میں کوئی واضح تبدیلی اور بہتری نظر آ جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments