این آر او نہیں دوں گا


عجیب این آر او ہے جن کو ضرورت ہے وہ لینے کا تردد تک نہیں کرتے جبکہ اپوزیشن والے کہتے ہیں کہ اپنی این آر او اپنے پاس ہی رکھو لیکن شعور سے محروم قبیلے میں پھر بھی این آر او بیچنے کی آواز لگ رہی اور ”سودا“ بھی کسی حد تک بک رہا ہے۔

دو ہزار اٹھارہ کے فتنہ انگیز انتخابات کے بعد عمران خان اقتدار کی چوکھٹ پر کھڑے ہوئے تو “دو نہیں بلکہ ایک پاکستان” کے ساتھ ہی “این آر او نہیں دوں گا” کا نعرہ مستانہ بھی بلند کیا جس کی بے معنی اور بے مراد گردان ابھی تک جاری و ساری ہے حالانکہ زمینی حقائق یہ ہیں کہ این آر او کی بارش ”حلیف قریوں“ میں چھما چھم اور مسلسل برس رہی ہے جس سے ”ان“ کی کھیتیاں ہریالی و شادابی کی ایک مثال بن چکی ہیں۔

ابھی کل ہی کی بات ہے کہ ہماری تاریخ کے دلیر ترین منصف جسٹس وقار احمد سیٹھ مرحوم کی عدالت سے تاریخ کو درست سمت میں موڑ دینے اور آئین و قانون کی سربلندی اور یکساں عملداری والا وہ فیصلہ برآمد ہوتا ہے جو ازل سے بد بختی کی تمازت میں سلگتے اس قوم کے لئے خوش رنگ موسموں اور تازہ ہواؤں کا یہ سندیسہ لئے ہوتا ہے کہ اب اس ملک پر کوئی آمر مسلط نہیں ہو گا۔ عوام کا منتخب وزیراعظم نہ پھانسی چڑھے گا نہ قید و بند اور جلا وطنی کاٹے گا۔ پارلیمان کی توقیر بڑھے گی۔ تمام ادارے اپنے اپنے آئینی دائرہ کار میں رہ کر کام کریں گے اور عدالتیں جسٹس وقار احمد سیٹھ کی یکساں انصاف اور دلیری کی اس توانا فیصلے کو ایک تابندہ روایت بناتے ہوئے آگے بڑھیں گے۔

لیکن ہوا کیا؟ دو نہیں ایک پاکستان کا علمبردار عمران خان این آر او کا بد رنگ پھریرا لہراتے ہوئے ”دوسرے پاکستان“ کی خاطر پرویز مشرف کے دفاع میں نکل آیا اور قوم کو اپنی اوقات یاد دلاتے ہوئے نہ صرف ایک مجرم کو بچا کر لے گیا بلکہ فیصلے اور عدالت تک کو اڑانے میں وہ کردار ادا کیا جو شیخ رشید اور فردوس اعوان جیسے لوگ بھی ادا کرتے ہوئے شرما جائیں۔
اور پھر جہاں نگاہ پڑے وہاں وزیراعظم عمران خان کے حلیف منطقوں میں این آر او کی ایک فصل لہلہا رہی ہے۔
چینی اور آٹے کی بحران سے قطاروں میں کھڑے عوام کی چیخوں اور بددعاؤں نے ایک قیامت برپا کر دی اور بالآخر ”مجرموں“ کا تعین بھی ہو گیا لیکن خان صاحب نے حسب معمول عوام کو چند جذباتی لولی پاپ دینے کے بعد جہانگیر ترین سے خسرو بختیار تک سب مہربان دوستوں پر این آر او کی ایسی بارش برسا دی کہ نہ دامن پہ کوئی چھینٹ دکھائی دیا نہ خنجر پر کوئی داغ۔

عمران کابینہ کے ایک اہم رکن رزاق داؤد کا نام مہمند ڈیم سکینڈل کے حوالے سے سامنے آیا تو سب کچھ اس بد بخت این آر او کی غلاف میں لپیٹ دیا گیا جس کے بظاہر سب سے بڑے مخالف تو عمران خان ہیں لیکن درحقیقت اسی این آر او نہیں دوں گا کی تکرار کو وہ اپنا سب سے بڑا سیاسی ہتھیار بھی بنائے ہوئے ہیں

یہ خان صاحب کے اسی فتنہ انگیز این آر او کی جادوگری ہی ہے کہ قرضوں میں جکڑے اس غریب ملک کے عوام کے لئے دوائیں راتوں رات پانچ سو فیصد مہنگی ہو جاتی ہیں تو انگلیاں عمران کابینہ کے وزیر صحت عامر کیانی کی طرف اٹھنے لگتی ہیں لیکن این آر او کا سب سے بڑا مخالف اور عامر کیانی طبقے کا ”ڈٹا ہوا“ لیڈر عمران خان انہیں فوراً ایک سائیڈ پر لے جا کر این آر او کی پناہ گاہ فراہم کر دیتا ہے۔ تقریباً یہی صورتحال اگلے وزیر صحت ڈاکٹر ظفر مرزا کے حوالے سے بھی ہے۔

خان صاحب کی مشہور زمانہ این آر او سیریز کا یہ ڈرامائی باب بھی ملاحظہ ہو کہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کو سزا سنانے والا جج ارشد ملک خود یہ اعتراف کرتا ہے کہ میں نے سزا جرم پر نہیں بلکہ دباؤ کے تحت سنائی تھی لیکن عمران خان پھر بھی قائل نہیں ہوتے اور دن رات چور چور کی گردان جاری رکھتے ہیں لیکن جب ایک صحافی تمام تر شہادتوں اور ٹھوس ثبوتوں کے ساتھ اربوں روپے کا پا پا جونز پیزا سکینڈل سامنے لے آتا ہے اور پورے ملک میں اس خوفناک کرپشن کے خلاف کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتا تو این آر او کے سب سے بڑے ”دشمن“ عمران خان نہ صرف کاغذ کا ایک سادہ سا رقعہ دیکھ کر فوراً ملزم کی بے گناہی پر قائل ہو جاتے ہیں بلکہ کمال شفقت کے ساتھ این آر او کا سائبان فراہم کرتے ہوئے کام جاری رکھنے کا حکم بھی جاری کرتے ہیں۔

کئی پارٹیاں بدل کر اشارہ ابرو پر تحریک انصاف کے خیمے میں پڑاؤ ڈالنے اور وزارت اعلی کے بعد وفاقی وزارت حاصل کرنے والے پرویز خٹک مالم جبہ بی آر ٹی اور سونامی بلین ٹری جیسے میگا کرپشن سکینڈلز سامنے آنے کے بعد بھی عمران خان کی طرف سے فراہم کردہ اس این آر او کے رتھ پر سوار ہیں جو کرپشن کی دلدل میں لتھڑے عمران خان کے ہر سہولت کار اور ساتھی کو میسر ہے۔

اور تو اور این آر او کی اس مسلسل برستی بارش سے عمران خان کا گھر بھی سیرابی اور شادابی کی نعمت سے محروم نہیں رہا۔ سلائی مشینوں سے فارن فنڈنگ کیس تک این آر او کا ایک طویل سلسلہ لطف و کرم ہے۔

نہیں معلوم کہ این آر او کے حوالے سے سب سے سخی اور کشادہ دست عمران خان بار بار یہ ذکر کیوں کرتے ہیں کہ این آر او نہیں دوں گا۔

غالباً یہ خان صاحب کا ان ہی دنوں تکیہ کلام بن گیا تھا جب ایک فتنہ انگیز کنٹینر کسی اناڑی ڈرائیور کے سبب ہماری تہذیب سیاست اور جمہوریت پر چڑھ دوڑا تھا اور پھر ایک احساس جرم نے اس بدبخت لمحے کی یاد اور ادا کیے گئے الفاظ ذہن اور زبان پر چھوڑ دیے تھے۔

ایسی یادوں یا الفاظ سے عام طور پر چھٹکارا پانا اتنا آسان بھی نہیں ہوتا اور پھر خان صاحب تو ویسے بھی اپنے ذہن اور حافظے پر قابو پانے میں بہت حد تک کمزور ہیں کیونکہ اس حوالے سے جرمنی اور جاپان کے بارڈر سے رحونیت تک ایک طویل سلسلہ ہے۔

حماد حسن
Latest posts by حماد حسن (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments