سیاسی وابستگی یا بت پرستی کے شاخسانے


ہمارے علاقے کی تاریخ گواہ ہے کہ کئی ہزار سال سے بت پرستی ہمارا محبوب مذہب رہی ہے۔ یہ گمان کہ مسلمان ہونے کے بعد ہم نے بت پرستی ترک کر دی ہے اب خام خیالی کے شائبہ کی زد میں ہے۔ شاید بت پرستی کی جڑیں ہمارے ڈی این اے میں اتنی گہری پیوست ہو چکی ہیں کہ بتوں کی پوجا کسی نہ کسی صورت ضرور جاری رہتی ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو ہم بے چینی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اگر پہلے والے بت میں فرسودگی در آتی ہے تو فوراً ایک نیا بت تراش لیتے ہیں۔ ایک دوسرے پر بہتان تراشی بھی اکثر و بیشتر ایک دوسرے کے بتوں کے حوالے سے ہی ہوتی ہے۔

چند روز پہلے میں نے فیس بک پر مملکت خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیراعظم عمران خان صاحب کی جوانی کے زمانے کی کچھ تصاویر پوسٹ کی تھیں۔ وفور محبت میں کچھ بے تکلفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کے نام کے ساتھ کوئی سابقہ لاحقہ استعمال نہیں کیا البتہ لفظ ”مولانا“ کا اضافہ کر بیٹھا۔ تصاویر نہایت خوبصورت تھیں اور ان کی یورپ میں موجودگی کے زمانے کی یادگار تھیں۔ ”یورپ کے بارے میں ان سے زیادہ کوئی نہیں جانتا“ صبح و شام، دن رات یہ اعلان وہ خود فرماتے رہتے ہیں۔ ان تصاویر کے ساتھ میں نے کوئی کمنٹ بھی نہیں لکھا تھا۔ نہ ان کی حمایت میں نہ ان کے خلاف۔ مگر پھر بھی کچھ احباب نے خواہ مخواہ کی چمچمہ گیری ضروری سمجھی۔ شاید اس خیال کے پیش نظر کہ ان کے محبوب کی ذات پر کوئی حملہ کیا گیا ہے۔

سچ پوچھئیے تو مجھے ان کی یہ تصاویر بہت پسند تھیں۔ ان کے اپنے کپڑے تو بہت معقول تھے ہی، ان کی ساتھی خواتین نے بھی جو لباس زیب تن کیے ہوئے تھے، یورپ میں پارٹیوں کے دوران اسی نوعیت کے لباس استعمال ہوتے ہیں۔ پھر بھی نجانے کیوں بت پرستوں کو محسوس ہوا کہ ان کے دیوتا کے ذات پر حملہ ہو گیا ہے۔ یا پھر شاید پروہتوں کی نظر میں نمبر ٹانکنے کے لئے انہوں نے اسے موقع کے طور پر استعمال کیا۔ نتیجے کے طور پر مجھ سمیت کئی احباب پر لعن طعن کے تیر برسائے گئے۔ بت پرستی کے ایسے بہت سے موسموں کا تماشائی ہونے کی وجہ سے کچھ اچنبھا نہ ہوا اگرچہ بت پرستوں کی نئی فصل کی زبان وفور جذبات میں کچھ زیادہ ہی بے قابو ہو جاتی ہے۔

دیگر مغلظات کے علاوہ ایک دوست نے مجھے دھمکی دینے کی کوشش بھی کی۔ وہ صاحب بھول گئے کہ میں ڈرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔ جنرل ضیاء کے مارشل لائی جبر کے خلاف جن صحافیوں نے ڈٹ کر لکھا اور پاکستان میں رہتے ہوئے لکھا، میں ان میں سے ایک ہوں۔ چمڑی بچا کر پاکستان سے دوڑنے کی کوشش بھی مارشل لا کے تحت قائم کیے گئے وہ مقدمات تھے جن میں سخت ترین سزائیں دی جا سکتی تھیں۔ اس فقیر کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ خود نمائی سے ہمیشہ پرہیز کیا ہے مگر یہاں اتنی سی وضاحت ضرورت کے تحت کیے دیتا ہوں کہ پیپلز پارٹی کے دور میں مجھ پر جو مقدمات قائم کیے گئے تھے ان کی بنیاد پاکستان پریس اینڈ پبلی کیشنز آرڈی نینس مجریہ 1963 ء تھا۔ پھر جلد بعد ہی مارشل لاء کا نفاذ ہو گیا اور وہ مقدمات فائلوں میں دب گئے۔ مگر 1978 ء میں جب ہفت روزہ ”صدائے وطن“ میں میری تحاریر طبع نازک پر گراں گزریں تو وہ مقدمات سمری ملٹری کورٹ میں پہنچے اور تمام تقریبات سے گزر کر میری جیل یاترا پر منتج ہوئے۔ سزا بھگتنے کے بعد کوئی مقدمہ کیسے باقی رہ سکتا ہے؟ وہ صاحب موصوف مجھے خود سمجھا دیں۔ البتہ ان کی حکومت ہے تو نئے سرے سے مقدمات درج کرا لیں، ان کو بھی بھگت لوں گا۔ لکھنا تو سرشت کا حصہ ہے اس سے تو باز نہیں رہ سکتا۔

نئے بتوں اور نئے بت پرستوں پر مزید کچھ بات کرنے سے پہلے آئیے ذرا ماضی کی طرف چلتے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ گاؤں کا چودھری ہو، شہر کا حاکم ہو، ملک کا حکمران ہو یا بہت سے ممالک کا شہنشاہ، تاج اگر وہی بھی رہے تو بھی اس تاج کے پہننے والے سر بدلتے رہتے ہیں۔ طاقت بھی ایک بے چین روح ہے ایک ٹھکانے پر نہیں رکتی۔ تو حضور اس بلند مسند پر آپ کا براجمان ہونا دلیل ہے اس امر کی کہ پہلے یہ تاج کسی اور سر کی زینت تھا اور جلد یا بدیر یہ اپنے لئے سر بدل لے گا۔ معبدوں کے پروہت اور پجاری بھی اس معاملے میں ناقابل اعتبار ہیں۔ چونکہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ پتھر کے یہ دیوتا وہ خود اپنے ہاتھوں سے تراشتے ہیں، تو پھر جب بھی ان کا جی بھر جاتا ہے یا وہ ان کے لئے کارآمد نہیں رہتے تو وہ نئے پتھروں سے نئے دیوتا تراش لیتے ہیں۔

میرے سکول کے آخری دنوں کے دور تک کسی کو گمان بھی نہیں تھا کہ مملکت خداداد پاکستان کے سربراہ فیلڈ مارشل ایوب خان کے سنگھاسن کو کبھی کوئی چیلنج بھی کر سکے گا۔ مگر یہ تماشا بھی میری نسل کی قسمت میں لکھا تھا۔ ابھی کالج کے پہلے سال میں ہی تھا کہ جس تخت و تاج کی طرف انگلی اٹھانے والا بھی دور دور تک نظر نہیں آتا تھا اس پر خود اسی کے ایک سابق وزیر نے اعتراض اٹھا دیا۔ ایک مختصر سے عرصہ میں ہی محلات طوائف الملوکی کا شکار ہو گئے۔ بے بسی میں بادشاہ سلامت نے تخت و تاج جنرل یحییٰ کے سپرد کیا اور خود آرام فرمانے اپنے گھر کی راہ لی۔ سکول کے سلیبس میں ایک باب خاص طور پر پڑھایا جاتا تھا کہ فیلڈ مارشل ایوب خان نے ملک کی باگ ڈور اس لئے سنبھالی تھی کہ سیاستدانوں نے ملک کے حالات انتہائی دگرگوں کر دیے تھے۔ ایسے میں اگر ایوب خان یہ بہادرانہ اور دانشمندانہ قدم نہ اٹھاتے تو خاکم بدہن ملک کے ساتھ کچھ بہت برا ہو جاتا۔ شومئی قسمت کہ ”بہت برا“ ہو کر ہی رہا۔ ایوب خان نے اپنے سنہری دور میں جو فصل بوئی تھی وہ یحییٰ دور میں کاٹ لی گئی۔ مملکت خداداد پاکستان کے وجود میں آنے کے صرف چوبیس سال بعد اس کا جغرافیہ ہی بدل گیا۔ اس سے پہلے صرف سنا تھا کہ ملکوں کے جغرافیے بھی کوئی پہاڑوں کی طرح ٹھوس اور جامد نہیں ہوتے مگر تب اپنی ہی آنکھوں سے دیکھنا بھی پڑا۔

پھر بھٹو صاحب بادشاہ بن گئے۔ عوام کا جم غفیر ان کا مداح تھا مگر تخت پر براجمان ہوتے ہی درباریوں پر زیادہ اعتبار کرنے لگے۔ بت پرست تو اس وقت بھی بے شمار تھے مگر پھر بت ہی بدل گیا اور بت پرست بھی نئے آ گئے۔ یہ سلسلہ چلتا آ رہا ہے اور یونہی چلتا رہے گا۔

سکون سے حکومت کی پہلی شرط ”امن“ ہے اور امن انصاف سے قائم ہوتا ہے۔ جغرافیائی سرحدوں کو قائم رکھنے کا بھی آسان فارمولہ ”انصاف“ ہی ہے۔ لیکن شاید ”انصاف“ طاقتور کی طبع نازک پر گراں گزرتا ہے اور اسے یہ بدگمانی گھیر لیتی ہے کہ اگر اس کی طاقت کو کوئی چیلنج نہیں تو مبادا اب وہ طاقتور نہ رہا ہو۔ حالانکہ وقت نے ثابت کیا ہے کہ انصاف حکمرانوں کو طاقتور بناتا ہے۔ آج کے حکمرانوں نے تو حکومت ہی ”انصاف“ کے وعدے پر حاصل کی تھی۔ مگر اب یوں لگتا ہے کہ ”انصاف“ ان کے نزدیک ایک وعدے سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ وہ آج بھی بت پرستوں میں گھرے ہوئے ہیں۔ پروہت تو مطمئن ہیں کہ وہ جب چاہیں گے ایک نیا بت تراش لیں گے۔ پوجنے والوں نے تو پوجا ہی کرنی ہے، بت کوئی بھی ہو۔ مسئلہ صرف ان کے لئے ہے جو بت پرست نہیں ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments