لیڈر شِپ کا عاجزانہ ماڈل



ہمارے اداروں کے اندر لیڈر شپ کا جو ماڈل رائج ہے اس میں لیڈر اختیارات کا مرکز ہے اور دانائی کا سرچشمہ ہے۔ لیڈر ایک دیوتا کا روپ اختیار کر لیتا ہے اور بس اسی کا فرمایا ہوا مستند ہے اور حرف آخر ہے۔ یہ لیڈر جب کوئی فیصلہ کر لیتا ہے تو پھر اپنی بھی نہیں سنتا ہے۔ یہ لیڈر تو بس کر گزرتا ہے۔ اس کے فیصلوں کے اثرات اس کے مقتدی بھگتتے ہیں اور اس کے سٹاف ممبرز چکی سے آٹا پیستے رہتے ہیں۔ لیڈروں کی مروجہ یہ ٹائپ رعونت اور عقل کل کی جیتی جاگتی مثال ہوتی ہے۔ ان کے سامنے سب سر تسلیم خم کرتے ہیں۔ ان کی موجودگی میں صرف جی حضوری کا سکہ چلتا ہے۔

آج کی جدید دنیا میں کاموں کے اندر پیچیدگی در آئی ہے۔ مختلف پیشے تکنیکی مہارت کا تقاضا کرتے ہیں۔ فن کا احوال فنکار کے ذریعے ہی معلوم ہوتا ہے۔ ایسی صورتحال میں ادارے کے سربراہ کو اگر اپنے ادارے کی بہتری مطلوب ہے تو اسے اپنے خوشنما دفتر سے باہر نکلنا ہو گا اور اپنے لوگوں کی طرف بڑھنا ہوگا۔ اداروں کی تمام سینئر مینجمنٹ کو اپنے سٹاف کے ساتھ ایسا تعلق قائم کرنا ہوگا کہ وہ ان مسائل کا کھل کر اظہار کر سکیں جن کا سامنا انہیں اپنے فرائض کی انجام دہی میں کرنا پڑتا ہے۔ اقتدار کی کرسیوں پر بیٹھنے والے اگر اپنے اداروں میں خوف کا ماحول پیدا کریں گے تو پھر ان کے لوگ چار و نا چار صرف ان کی تابعداری کریں گے لیکن کبھی بھی دیوار کے اندر دروازہ بنانے کی تدبیر نہیں کریں گے۔ وہ رسماً تو اپنا کام کریں گے لیکن ان کے کام میں ان کا دل شامل نہیں ہوگا۔

منکسر المزاج لیڈر ہی ہمارے اداروں کو وہ قیادت فراہم کر سکتے ہیں جس کے سبب ہمارے ادارے جنت ارضی کی صورت اختیار کر سکتے ہیں۔ عاجز و حلیم لیڈر اپنے دائرہ اختیار کے اندر ایسے رشتے قائم کرتے ہیں کہ جس میں ان کے ماتحت کام کرنے والوں کے ہونٹ جنبش کرتے وقت اندیشہ ہائے دور دراز میں مبتلا نہیں ہوتے ہیں۔ وہ جان کی امان پائے بغیر بھی اپنا مدعا اپنی زبان پر لے آتے ہیں کیونکہ انہیں یقین ہوتا ہے کہ ان کے لیڈر ان کے لیے ہمیشہ اچھا ہی چاہیں گے اور کبھی بھی اجتماعی فلاح کو ذاتی مفادات کے لئے قربان نہیں کریں گے۔

جھکے ہوئے لیڈر جانتے ہیں کہ وہی درخت حالت رکوع میں جاتا ہے جس پر پھل لگے ہوتے ہیں اور ان کا سایہ سب کو دھوپ سے بچاتا ہے۔ اس کے برعکس ہمارے ہاں عام پائے جانے والے لیڈروں کی گردن میں تو سٹیل کا راڈ فٹ ہوتا ہے اور انہیں اپنے ماتحت کیڑے مکوڑوں کی شکل میں دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے ماتحتوں کے جینے کا اکلوتا مقصد ”صاحب“ کے آستانے پر چاروں شانے چت ہو کر حاضری دینا ہوتا ہے۔ تکبر کے مارے ہوئے یہ لیڈر اپنے اداروں میں اعتماد کا بحران پیدا کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔

ان کے لوگ ان سے دور رہنے میں ہی اپنی عافیت محسوس کرتے ہیں۔ گھمنڈی اور خود پسند لیڈروں کی موجودگی میں ان کی ٹیم کی وہی حالت ہوتی ہے جو قربانی کے جانور کی قربان گاہ جاتے وقت ہوتی ہے۔ ہمارے پبلک اور پرائیویٹ اداوں میں کام کرنے والے سٹاف جبر کے سایہ میں کام کرتے کرتے اذیت پسندی کے عادی ہو جاتے ہیں اور ”عادتیں بھی کتنی عجیب ہوتی ہیں“ آئیے گلزار سے پوچھتے ہیں۔

سانس لینا بھی کیسی عادت ہے
جیئے جانا بھی کیا روایت ہے
کوئی آہٹ نہیں بدن میں کہیں
کوئی سایہ نہیں ہے آنکھوں میں
پاؤں بے حس ہیں چلتے جاتے ہیں
اک سفر ہے جو بہتا رہتا ہے
کتنے برسوں سے کتنی صدیوں سے
جیئے جاتے ہیں جیئے جاتے ہیں
عادتیں بھی عجیب ہوتی ہیں
تجھ سے ناراض نہیں زندگی حیران ہوں میں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments