بخشی کو سمجھنا مشکل ہی نہیں، ناممکن ہے


امیتابھ بچن کی مشہور فلم ڈان کا ایک ڈائیلاگ تو اب اردو زبان کا حصہ بن چکا ہے۔ ’ڈان کا انتظار تو گیارہ ملکوں کی پولیس کر رہی ہے۔ لیکن ایک بات سمجھ لو۔ ڈان کو پکڑنا مشکل ہی نہیں، ناممکن ہے۔ ‘ ہم سب کے ڈان عاصم بخشی ہیں۔ ان پر تنقید کرنے کے شدید خواہش مند حضرات بھی اپنی بے بسی کا اظہار کر دیتے ہیں کہ ’بخشی کو پڑھ تو گیارہ ملکوں کے ناقدین رہے ہیں۔ لیکن ایک بات سمجھ لو۔ بخشی کو سمجھنا مشکل ہی نہیں، ناممکن ہے۔ ‘

ان کی وضع قطع کی بات کی جائے تو قد اوسط درجے کا ہے، داڑھی ایسی پلی ہوئی کہ خالصے بھی ان سے محبت کا سلوک کرتے ہیں اور اپنا برادر جانتے ہیں۔ لبوں پر ہر دم مسکراہٹ کھیلتی ہے مگر کوئی تصویر اتارنے لگے تو بہت کوشش کر کے سنجیدہ دکھائی دیتے ہیں اور بقیہ چار تصاویر ڈیلیٹ کروا دیتے ہیں جس میں چہرے پر مسکراہٹ دکھائی دے رہی ہو۔ بخشی صاحب ایک سنجیدہ عالم ہونے کا تاثر برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔

ہم نہایت سنجیدگی سے طنز لکھنے کے شوقین ہیں اور کوئی پوچھ بیٹھے کہ یہ طنز لکھا ہے یا سنجیدگی سے وہی بات کر رہے ہیں جو سامنے دکھائی دے رہی ہے، تو ہم نہایت متانت اور جوش سے اس پوچھنے والے کو یقین دلانے لگتے ہیں کہ طنز کاہے کا، یہ تو بہت سیدھی بات کی ہے۔ ہمیں بارہا شبہ ہوا ہے کہ بخشی صاحب بھی اسی کلیے کو استعمال کرتے ہیں اور گنجلک تحریر صرف وہ ناقدین کا مذاق اڑانے کے لئے لکھتے ہیں اور چہرے پر سنجیدگی کا تاثر اسی وجہ سے قائم رکھنا چاہتے ہیں کہ کسی کو علم نہ ہو کہ وہ ایک بڑی شرارت کر گذرے ہیں۔

اگر یہ جینز اور جیکٹ کی بجائے پائجامہ کرتا پہن لیں تو اپنے انتخاب آواز کی وجہ سے انہیں جامعہ طبیہ دہلی کا فارغ التحصیل سمجھنے والے بہت ہوں گے۔ یہی الفاظ جب ضبط تحریر میں لائے جائیں تو یہ تاثر مزید گہرا ہو جاتا ہے۔ جیسے کسی ڈاکٹر کے انگریزی خط کو اس کی چاہنے والی ایم اے انگلش کی طالبہ کے میڈیکل سٹور پر لے جا کر پڑھوانے کا قصہ عام ہے، ایسے ہی بخشی صاحب کا نامہ موصول ہو تو جی اسی بات پر مائل ہوتا ہے کہ پنساری کی دکان پر لے جا کر نسخہ پڑھوا لیا جائے۔

ہم وجاہت مسعود صاحب سے شکوہ کیا کرتے تھے کہ اے مشکل پسند، فسانۂ عجائب کا دور تمام ہوا، اب خطوط غالب کا چلن ہے کہ ہر شخص اس زبان کو سمجھ سکتا ہے، آپ بھی کچھ عام فہم لکھا کریں۔ تس پہ وہ مسکرائے اور عاصم بخشی صاحب سے ہمارا تعارف کروا دیا۔ بخدا اب تو وجاہت مسعود کی زبان ایسی سادہ اور سلیس معلوم ہونے لگی ہے کہ کچھ نہ پوچھیے۔

عاصم صاحب ایک فلسفی ہیں۔ مترجم ہیں۔ مفکر ہیں۔ مصنف بھی ہیں۔ اور شاعر بھی۔ ان پانچ عناصر نے مل کر وہ قیامت ڈھائی ہے جس نے سب کو حیران و پریشان کیا ہے۔ شروع شروع میں ان پر بہت اعتراض اٹھائے تھے کہ صاحب کچھ آسان زبان لکھا کریں کہ کسی کے پلے تو پڑے کہ کیا کہہ دیا ہے۔ وجاہت صاحب ان کی تحریر پڑھ کر فرماتے ہیں کہ کیا بات کی ہے! ہم جیسے جہلا بھی بخشی صاحب کی تحریر پڑھ کر یہی کہتے ہیں کہ کیا بات کی ہے؟

\"\"کمال کا وقت ہوتا ہے جب وہ کسی تحریر پر اعتراض اٹھا کر اس کا رد لکھتے ہیں۔ فریق مخالف ہکا بکا رہ جاتا ہے۔ بخشی صاحب کی تحریر بار بار پڑھتا ہے۔ جواب دینے کی ہمت نہیں کر پاتا ہے۔ یہ بات تسلیم کرنے کی ہمت بھی نہیں ہوتی کہ اسے بخشی صاحب کی تحریر کی سمجھ نہیں آئی ہے کیونکہ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ وہ علم میں بخشی صاحب سے ہیٹا ہے۔ آخر یہی کہہ کر گذر جاتا ہے کہ ’بخشی صاحب، آپ کے دلائل نہایت عمدہ ہیں، مگر آپ سے کئی جگہوں پر اختلاف کرتا ہوں‘۔ یہ ماجرا ہم نے اکثر دیکھا ہے۔

وسی بابا ان کو امام بخشی کہتے ہیں۔ ہماری رائے میں اس کی وجہ وسی بابا کا تصوف سے شغف نہ ہونا ہے۔ امام کہلانے والے تو سیدھی اور سلیس زبان میں بات کرتے ہیں۔ یہ تو پیر فقیر اور باطنی علوم میں درک رکھنے والے ہوتے ہیں جو ایسی الجھی ہوئی بات کرتے ہیں جو ہر حال میں سچ نکل آتی ہے۔ بس اتنا زیادہ غور کرنے اور الفاظ کا باطنی مطلب سمجھنے کی ضرورت ہوتی ہے کہ بات سچ لگنے لگے۔ ان کو پیر بخشی یا مرشد بخشی کہا جائے تو برحق ہو گا۔

اب ہم ان سے مشکل پسندی کا شکوہ نہیں کرتے ہیں اور ان کے دعوے کو سند جانتے ہیں کہ وہ آسان زبان لکھنے لگے ہیں۔ گو ان کی تحریر تو ابھی بھی سمجھ نہیں آتی ہے، مگر دعوی سمجھ آنے لگا ہے تو یہی بڑی کامیابی گنی جائے گی۔

لیکن ہمارے پیہم اصرار سے عاجز آ کر انہوں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ سلیس زبان میں لکھا کریں گے۔ آج ہی انہوں نے یہ اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’راقم پر مشکل پسندی اور ادق زبان میں لفاظی کا الزام ہے لہذا کم از کم سالگرہ کے موقع پر طویل نظر خراشی کا ارتکاب نہیں کروں گا‘۔

آخر میں سو باتوں کی بس ایک ہی بات۔ ’بخشی کو پڑھ  تو گیارہ ملکوں کے ناقدین رہے ہیں۔ لیکن ایک بات سمجھ لو۔ بخشی کو سمجھنا مشکل ہی نہیں، ناممکن ہے۔ ‘

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments