چترال میں مادہ مارخور پر غیرقانونی گولی چلانے والے سیاح کا معما


گزشتہ ایک دن سے فیسبک میں ایک ویڈیو توجہ کا مرکز بن چکی ہے۔ ہفتے کے روز ایک غیر مقامی سیاح نے گاڑی میں چترال کے گرم چشمہ وادی سے واپسی پر ایک مارخور کو پانی پیتے وقت نشانہ بنا دیا تھا جس میں مارخور کو زخمی حالت میں دریا کے پار کنارے دیکھا جا سکتا ہے۔ ویڈ یو میں یہ واضح نظر آ رہی ہے کہ مارخور دریا کے کنارے پانی کے اندر موجود ہے اور باہر نکلنے کی کوشش کر رہی ہے۔ زخمی ہونے کی وجہ سے باہر جا نہیں سکتی۔

مقامی اخبار کے رپورٹس اور عین شاہدین کے مطابق ایک غیر مقامی سیاح نے مارخور کو دریا میں پانی پیتے وقت گولی مار دی اور وہ اپنی گاڑی میں سوار ہو کر چلا گیا۔ اس طرح ایک جنگلی جانور کا شکار غیر قانونی اور غیراخلاقی عمل ہے۔

[سیاح کے شکار کا شوق تو پوری ہو گیا لیکن گولی لگنے کے بعد ٹھنڈے پانی کے اندر اس جانور کو کتنی درد اور تکلیف سہنا پڑی فی الحال زیربحث نہیں]

ایک سیاح ایک خاص علاقے میں ماحول، فرد، پرندے، جانور اور تمدن کو زد پہنچائے جس طرح اس سیاح نے کیا ہے، قطعی ناقابل قبول ہے۔ دنیا اور پاکستان میں خطرے سے دوچار نایاب جانور، کشمیر مارخور، وہ بھی مادہ ہو، کو جو نقصان اس نے پہنچایا ہے اس وقت ناقابل تلافی ہے۔

جنگل میں اس نے نہ جنگل کے قانون کی قدر کی اور نہ محکمہ جنگلی حیات کے ضابطہ کا، اس نے بس اپنا قانون بنایا اور استعمال کیا اور اپنے شوق کی پیاس بجھا کر چلا گیا۔ یہ نامعلوم شکاری اگر مارخور کے شکار کا اتنی شوقین تھا تو وہ سیاحت پر خرچ کرنے کے بجائے ٹرافی ہنٹنگ سے اپنا شوق پورا کر سکتا تھا۔

محکمہ جنگلی حیات خیبر پختونخوا ایکٹ 1975 کے مطابق ٹرافی ہنٹنگ ایک قانونی عمل ہے۔ اس قانون کے مطابق صوبے کے مخصوص علاقے میں متعلقہ ادارے سے اجازت نامہ [پرمٹ] لینے کے بعد ایک شکاری ایک خاص عمر میں پہنچے ہوئے [میچیور] مارخور کا شکار کر سکتی ہے۔

سن 2002ء کو سنڈیاگو چیلی میں ایک کانفرنس کے بعد پاکستان کے لئے مارخور، گو کہ دنیا میں پروٹیکٹڈ جانور ہے، کے ایکسپورٹ کا کوٹہ 12 مقرر کی گئی۔ پاکستان کے وہ علاقے جہاں کشمیر مارخور موجود ہے اس حساب سے صوبہ خیبر پختونخوا کو 10 کا کوٹہ مل چکا ہے۔ صوبے میں ضلع سوات اور کوہستان کے علاوہ باقی چار مارخور کنزرونسی چترال میں موجود ہیں جہان ٹرافی ہنٹنگ کی قانونی اجازت موجود ہے۔

ٹرافی ہنٹنگ صوبے میں 1998 سے شروع ہے اور اب تک 78 مارخور شکار ہو چکے ہیں۔ گزشتہ سال ایک پرمٹ ایک لاکھ پچاس ہزار [یو۔ ایس ڈالر] میں فروخت ہو چکی تھی۔ چترال میں ٹرافی ہنٹنگ سے جو رقم موصول ہوتی ہے جس کا 20 فیصد حکومت کو اور 80 فیصد اس علاقے کے لوگوں یعنی کمیونٹی کو دی جاتی ہے۔

وہ غیر مقامی سیاح جس نے مادہ کشمیر مارخور کو فائر کر کے نقصان پہنچایا ہے، جو اب تک زخمی حالت میں زیر علاج ہے، وہ چترال میں توشی۔ شاشا کنزرونسی کے احاطے میں موجود تھا۔ اس کنزرونسی کے علاوہ زیریں چترال میں گہیریت۔ گولین کنزرونسی، تریچ میر کنزرونسی، جو کہ ارکاری اور گوبور کے علاقے پر محیط ہے، وہاں بھی مارخور کی ٹرافی ہنٹنگ ہو جاتی ہے۔

خیبر پختونخوا میں مارخور کی شکار کے لئے مقررہ وقت پندرہ دسمبر کو ہر سال شروع ہوجاتا ہے اور 31 مارچ کو ختم ہو جاتا ہے لیکن دسمبر اور جنوری کے مہینے کو شکار کے لئے نہایت موزوں قرار دیا جاتا ہے، اور شکار کے لئے مقررہ دن اس علاقے کے مطابق شکاری کو دیے جاتے ہیں۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ خیبر پختونخوا وائلڈ لائف اینڈ بایوڈائیورسٹی ایکٹ 2015 کے مطابق ”جنگلی حیات“ کا مطلب نہ صرف جنگلی جانور بلکہ وہ جگہ جہان وہ رہتی ہے یعنی وہ مٹی، درخت، پانی اور دوسرے وسائل شامل ہیں۔ اور جنگلی حیات حکومت یعنی ریاست کی پراپرٹی ہے۔ اس قانون کے مطابق محفوظ جانور [پروٹیکٹڈ انیملز] کی شکار اور اسے قبضے میں لینے کی گنجائش بالکل موجود نہیں۔ وہ تمام جانور جو چھوٹے [ایمیچیور] ہوں ؛ وہ مادہ جانور جو حمل میں ہو؛ ایسی حالت میں جس سے لگے کہ وہ شیرخوار ہوں یا دودھ پلاتے ہوں؛ اس جانور کے ساتھ چھوٹے بچے ہوں؛ جس میں مارخور کے تمام نسل [پرندے اور دوسرے جانور شامل ہیں] قانونی اعتبار سے ان کی شکار نہیں ہو سکتی یعنی وہ پروٹیکٹڈ ہیں۔

رپورٹس کے مطابق توشی۔ شاشا کنزرونسی میں جس مارخور کو غیر مقامی سیاح نے زخمی کیا ہے اس کے دو بچے ہیں۔

ایکٹ 2015 کے سیکشن 9 کے مطابق غیر قانونی شکار، اس ہتھیار سے جس پر پابندی ہو، اور ساتھ محفوظ جانور کا شکار ہوئی ہو تو نہ صرف جرمانہ اور قید بلکہ اس جانور کی قیمت، اور سب ایک ساتھ ہونے کا سزا بھی ہو سکتی ہے۔ گو کہ جرمانہ، قید اور پراپرٹی کی قیمت اور سزا کی نوعیت مختلف ہے جس میں کم ازکم جرمانہ پانچ ہزار روپیہ یا ایک ہفتہ قید، یا دونوں، بشمول اس نقصان کی قیمت؛ اور زیادہ سے زیادہ پینتالیس ہزار روپیہ جرمانہ یا دو سال قید، یا دونوں، بشمول اس نقصان کی قیمت بھی ادا کرنا پڑتی ہے۔

گو کہ غیر مقامی سیاح کا یہ شکار تو مقررہ وقت میں نہیں ہوا ہے تو غیر قانونی ہے اور پھر مادہ مارخور کی شکار پر مکمل قانونی پابندی ہے تو یہ بھی غیر قانونی ہے۔ شکاری کے پاس شکار کا پرمٹ نہیں وہ بھی غیر قانونی ہے۔ اس مارخور کے دو بچے بھی ہیں اس جرم کی نوعیت کو مزید سنگین کر دیتی ہے۔

سوال اب یہ بنتا ہے کہ کیا غیر مقامی شکاری سیاح کے ساتھ موجود اسلحہ، جس سے اس نے مارخور کو نشانہ بنا دیا تھا، قانونی اور لائسنس یافتہ ہتھیار تھا؟ اور اگر یہ ہتھیار غیر قانونی اور جس پر قانونی قدغن ہے تو کس طرح یہ شخص وہ ہتھیار اپنے ساتھ چترال لا سکا؟ اور اگر یہ ہتھیار قانونی تھا تو یہ کس قسم کا ہتھیار تھا، اور کیا ہتھیار کا لائسنس اس شخص کے پاس اس وقت موجود تھا؟

یہ سارا معمہ اس وقت حل ہو سکتا ہے جب یہ غیر مقامی شکاری قانون کی گرفت میں آ جاتا ہے۔

الحاج محمد خان
Latest posts by الحاج محمد خان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments