عوام دوست بجٹ اور بیچارہ کتا


ایک اور کامیاب بجٹ پیش ہوا ہے۔ حکومتی بجٹ ہمیشہ سے کامیاب اور عوام دوست ہوتا ہے۔ جبکہ اپوزیشن ہر ممکن طریقے سے اسے خسارہ بجٹ ثابت کرنے کی کوشش کرتی ہے، لیکن ناکام رہتی ہے۔ کیونکہ اسی کی سنی جاتی ہے جس کی لاٹھی میرا مطلب حکومت ہو۔ دنیا میں آئے روز آنے والی تبدیلیوں کے باوجود یہ تبدیلی کبھی نہیں آئی کہ کبھی یہ ترتیب الٹ جائے۔ اور کوئی بجٹ پیش کرنے والا خسارہ بجٹ پیش کرے۔ یا پھر یہ معجزہ ہی ہو جائے کہ حکومت مخالف گروہ اس کو عوام دوست بجٹ کہہ دیں۔ بجٹ اعداد و شمار کا گورکھ دھندا ہوتا ہے اس لیے عام آدمی کو کبھی نہیں پتہ چل سکا کہ اس میں خسارہ کیا اور کامیابی کون سی ہے۔ ہر سال چونکہ حکومت نے ہی بجٹ پیش کرنا ہوتا ہے اس لیے حکومت کی زبانی پتہ چل جاتا ہے کہ بجٹ عوام دوست ہے۔

سنا ہے حکومت کتوں سے غیر مساوی سلوک کر رہی ہے۔ ہر سال حکومت عوام دوست بجٹ تو بناتی ہے لیکن آج تک کتا دوست بجٹ سننے میں نہیں آیا۔ جسے دیکھ کر یوں لگتا ہے حکومت کو کتوں سے خاصا بیر ہے۔ تبھی تو سندھ میں اکثر کتا مار مہم جاری رہتی ہے۔ یہاں تک حکم ہے کہ جہاں کتا نظر آئے مار دو۔ شاید اسی لیے متمول گھرانے اپنے چشم و چراغ کو تو کھلا چھوڑ دیتے ہیں لیکن اپنے کتوں کی حفاظت خوب کرتے ہیں۔

سرکار نے کتوں کے لیے کبھی نہیں سوچا۔ خاص کر پالتو، بدیسی کتوں کے لیے ۔ سڑکوں پہ رہنے والے آوارہ کتوں کا تو مت پوچھیں۔ یہ ہر حال میں خوش رہتے ہیں، البتہ پالتو، بدیسی کتوں کے لیے بڑی مصیبت ہے۔ بیچارے دیسی کتے اپنے دیسی لوگوں کی طرح ہوتے ہیں۔ یہ ٹام ہوتے ہیں، نہ ٹومی، یہ بس کتے ہوتے ہیں۔ عام کتے چونکہ عام لوگوں کے قریب رہتے ہیں اس لیے ان کی گزر بسر بھی علاقہ مکینوں کی طرح جیسے تیسے ہو ہی جاتی ہے۔ یہ خاصے قناعت پسند ہوتے ہیں، راضی برضا رہتے ہیں۔

شیمپو نہ کنگھی، نہ کوئی اور ٹشن جہاں سے جو ملا، جیسا ملا کھا لیا۔ روکھی سوکھی کھا کر گزارہ کر لیتے ہیں۔ لیکن مسئلہ تو خاص، بدیسی کتوں کا ہے۔ متمول گھرانوں کا پالتو کتا عام کتا تھوڑی ہوتا ہے جس کو کوئی بھی ہڈی ڈال دے، اور وہ صابر شاکر بن جائے۔ یہ چونکہ نسلی ہوتے ہیں۔ اس لیے ہڈی کی طرف دیکھتے بھی نہیں۔ ٹام، ٹومی جیسے خاص کتے تو اپنی من پسند خوراک ہی کھاتے ہیں۔ یہ خاصے خوش خوراک ہوتے ہیں۔ لیکن ان کے کھانے پینے کا سامان خاصا مہنگا ہوتا جا رہا ہے۔

اور ستم دیکھیے کہ خوراک سے لے کر ان کے استعمال کی تمام اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔ مہنگائی اس قدر بڑھ گئی ہے کہ اس پر کتے بھی پریشان دکھائی دیتے ہیں۔ بجٹ پسند نہ آئے تو ایوان میں نمائندے ایک دوسرے سے دست و گریبان ہو جاتے ہیں اور باہر کتے انسانوں پر پل پڑتے ہیں۔ کتوں کو بھی اگر انسانوں کی طرح غصہ آ جائے تو وہ بھی پھر ادھر ادھر نہیں دیکھتے جو سامنے آ جائے بس اسی کو دبوچ لیتے ہیں۔ کتے بھی جذباتی ہو سکتے ہیں اور شاید اپنا احتجاج ریکارڈ کرونے کا یہی واحد حل انھیں نظر آتا ہے۔

اکیلے کتے کا ماہانہ خرچ چالیس پچاس ہزار تک جا پہنچا ہے اور اگر مہنگائی کے اس دور میں اس کو فیملی بنانی ہو تو لگ پتہ جائے۔ جبکہ کتے بیچارے کی تو اپنی خوراک ہی پوری نہیں ہوتی، وہ فیملی کا کیسے سوچے۔ عالم یہ ہے کہ جتنے میں چار خاندان اچھی طرح گزارہ کرتے ہیں اتنے پیسوں میں ایک کتے کا بمشکل گزارہ ہوتا ہے۔ اس حقیقت کو دیکھیں تو پتہ چلتا ہے بجٹ تو عوام دوست ہی ہے۔ آپ ہی بتائیے بیچارہ کون ہوا، پندرہ ہزار میں پورا مہینہ نکالنے والا ایک پورا کنبہ یا پھر پچاس ہزار میں کھینچ تان کے گزارا کرنے کرنے والا اکیلا کتا۔ شکر ہے مہنگائی اور بیروزگاری کے اس دور میں ٹام ٹومی جیسے کتوں کو کمانے کے لیے خود نہیں جانا نہیں پڑتا ورنہ وہ بیچارے کہاں غریب کی طرح خجل خوار ہوتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments