بھارتی نیوز و سوشل میڈیا کی بنیادی سوچ اور پاکستان


اگر آپ کو انڈین نیوز چینلز پر پاکستان فوبیا دیکھنے کا اتفاق ہوا ہو تو آپ بھارتی نیوز کاسٹرز کی پست ذہنیت سے بخوبی واقف ہوں گے ۔ صرف پاکستان کی ہرزہ سرائی کو کامیابی کا دار و مدار بناتا بھارتی میڈیا اپنے وزیر اعظم نریندر مودی کی نمک حلالی میں مصروف اور اپنے اہم مسائل سے نظریں چرا کر چوبیس گھنٹے اپنی جنتا کا دھیان پاکستان کی جانب مبذول کرا کر ان کے ذہنوں میں وہ زہر گھولتا ہے کہ حیرت ہوتی ہے۔ اپنی حکومت کے ہاتھوں بکاؤ یا دباؤ میں آئے صحافت جیسے پیشے کو داغدار کرتے بھارتی اینکرز کی اصلیت جب ہی واضح ہوجاتی ہے جب کوئی بھارتی اپنی حکومت کو آئینہ دکھانے کی کوشش کردے تو جواب میں سارا گودی میڈیا آپے سے باہر ہوجاتا ہے۔ اس گورکھ دھندے میں بھارتی اینکرز کے ساتھ اپنی سروس میں ناکام کچھ انڈین آرمی کے ریٹائرڈ افسر ان بھی پاکستان کے خلاف اپنی خنس نکالتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

لیکن افسوس تب ہوتا ہے جب آزادی کے بعد سے اب تک بھارتی مسلمانوں کو خود کو محب وطن ثابت کرنے کے لیے حقائق سے چشم پوشی اختیار کر کے پاکستان کے خلاف بولنا پڑے۔ بصورت دیگر حق و سچ بیان کرنے پر آپ غدار کہلاؤ گے جیسے بھارتی سپر اسٹار نصیر الدین شاہ یا پھر اوم پوری جس نے پاکستان کے حق میں بیان دے کر اپنی جان ہی گنوا دی۔

بھارتی چینلز پر کچھ ٹاک شوز میں پاک بھارت سیاسی و سماجی تعلقات اور دہشتگردی جیسے ایشوز پر بحث بھی ہوتی ہے۔ جس میں پاکستانی جرنلسٹ، ڈیفنس ایکسپرٹس اور کبھی حکومتی نمائندے بھی شریک ہوتے ہیں۔ ان میں قمر چیمہ، مونا عالم، فخر یوسفزئی، ملیحہ ہاشمی، اطہر کاظمی، راجہ فیصل اور آرزو کاظمی وغیرہ پاکستان کی نمائندگی کر کے پاکستان کا موقف پیش کرتے ہوئے بھارتی پروپیگنڈے کا بھر پور جواب دے کر حقائق واضح کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن بھارتی اینکرز کی جانب سے انہیں بولنے کا مناسب موقع ہی فراہم نہیں کیا جاتا۔

خیر ان سب میں آرزو کاظمی تھوڑی ناتجربہ کار ہیں اسی سبب کئی پروگرامز میں یوں لگتا ہے جیسے یہ پاکستان کی نہیں بھارت کی نمائندگی کر رہی ہوں۔ اکثر اخلاق سے گرے بھارتی اینکرز کی جانب سے پاکستانی مہمانوں پر پھبتیاں اور الٹے سیدھے فقرے کسنے پر سب سے زیادہ خوشی اور ہنسی انہی محترمہ کو آتی ہے۔

چلو مذاق کی بات جانے دیں لیکن اپنی باری پر بھی کئی دفعہ یہ بھارت کو آئینہ دکھانے کے بجائے حکومت پاکستان اور اس کے اداروں کو ہی برا بھلا کہنا شروع ہوجاتی ہیں مگر اس کے باوجود بھی بھارتی پینلسٹ ان کی بھی کھنچائی کرنے سے نہیں چوکتے۔

بھارتی چینلز کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ کوئی بھی پاکستان کے خلاف بولتا ہوا ملے تو وہ اس کو بھی اپنے چینلز پر بٹھا لیں۔ ایسی ہی خصلت کے مالک افراد میں سے ایک طارق فتح بھی ہیں جن کے ماضی سے سب واقف ہیں۔ بھارتی چینلز پر پاکستان اور اس کی افواج کے خلاف زہر اگلتے ان حضرت کے گھٹیا پن کا اندازہ یوں لگایا جاسکتا ہے کہ یہ کئی پروگرامز میں نہ صرف بشریٰ بی بی بلکہ قائد اعظم کی ازدواجی زندگی کو لے کر بھی نازیبا کلمات بک چکے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ دنیا میں اسے کوئی پوچھے نہ پوچھے بھارتی چینلز پر ان کی بڑی آؤ بھگت کی جاتی ہے۔

پاکستان کے خاتمے کے شدید متمنی طارق فتح، ایک بھارتی ریٹائر میجر گورو آریا جو اپنے چینل پر ہر وقت پاکستان کو مغلظات بک کر زندگی گزار رہا ہے اور کئی بھارتی اینکرز، پاکستان میں تفرقہ پھیلانے کے لیے کبھی سندھ اور بلوچستان کے لوگوں کے جھوٹے ہمدرد بن جاتے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے اپنے لوگ ان جیسوں کی، بغل میں چھری منہ میں رام رام والی اصلیت سے ناواقفیت کی بناء پر انہیں اپنا ہمدرد جان کر ان کے ویڈیوز شیئر کرتے ہیں۔

بھارت میں یوٹیوب چینل کو بھی کامیاب کروانے کے لیے پاکستان کو برا بھلا بولنے کا فارمولہ ہٹ ہے۔ ویوز بھی ملتے ہیں آمدنی بھی ہوجاتی ہے۔ اس کی ایک مثال ایک ذہنی مریض ٹائپ افغانی کی بھی ہے جو اپنے چینل پر پاکستان اور ہماری افواج کو خوب برا بھلا بکتا ہے اسی سبب بھارت میں خاصہ مقبول ہے۔

اسی طرح ہمارے کچھ پاکستانی جرنلسٹ اپنے یوٹیوب چینلز پر پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے والوں کو خصوصی طور پر بلا کر ان کے نظریات سنتے ہیں۔ پھر خود بھی پاکستان اور فوج کے خلاف تنقید برائے تنقید کر کے بھارتی جنتا میں خاصے مقبول ہو جاتے ہیں۔

ان تمام بے ضمیر لوگوں سے بس اتنی ہی گزارش ہے کہ اگر آپ او ر آپ کے مہمان واقعی انسانی حقوق کے اتنے بڑے علمبردار ہیں تو ذرا اسی لہجے میں اپنے یوٹیوب چینل پر مودی کی بھارت میں مسلمانوں اور کشمیریوں پر ہونے والی انتہا پسندی پر انہیں بھی لتاڑیں یا کم سے کم فلسطینیوں پر اسرائیل کی بربریت پر سپورٹ کرنے پر ہی بھارتیوں کو شرم دلا دیں۔ اس طرح کی صحافت کرنے والوں کو کچھ حدود کا خیال رکھنا چاہیے کہ کہیں آپ انجانے میں کسی غلط راہ کی جانب تو گامزن نہیں ہو گئے۔ ویسے بھارت کے چینلز پر بیٹھ کر پاکستان میں آزادی صحافت کا رونا رونے والوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ اگر ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس 2021 میں پاکستان کا رینک 145 ہے تو دنیا کی سب سے بڑی نام نہاد جمہوریت کے دعوے دار ملک بھارت بھی 142 نمبر پر ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments