شمالی علاقوں میں آنے والے ماڈرن جوڑے


گلگت میں دوران قیام ایک ٹورسٹ پوائنٹ پہ میرے ساتھ پاک فوج کے دو جوان تھے۔ ان سے کچھ ایسا پتا چلا جو میرے لیے حیران کن اور بہت افسوس ناک تھا۔ وہ چائنہ بارڈر پہ کسی لڑکی کے ریسکیو کی بات کر رہے تھے جب میں نے پوچھا کہ وہ اکیلی کیسے وہاں پہنچ گئی۔ پہلے وہ تھوڑا ہچکچائے پھر انہوں نے بتایا۔ کہ یہ عام روٹین ہے۔ اس پہ میں چونکی کہ یہ روٹین کیسے ہوئی؟ افسر نے کہا میڈیم یہاں couples آتے ہیں، ان کی لڑائی ہوتی ہے پھر لڑکے اکثر لڑکی کو اکیلا چھوڑ جاتے ہیں۔ میں نے پوچھا یہ کیا بات ہوئی؟ کوئی ایسے اپنی بیوی کو چھوڑ کہ کیوں جائے گا۔ تب وہ کہنے لگا کہ میڈیم وہ بیوی نہیں ہوتی۔ میں آگے کچھ پوچھ نہیں سکی مگر اس نے جو تفصیل سنائی وہ ہمارے معاشرے کے بگاڑ کی برہنہ سچائی تھی۔

کہنے لگا کہ یہاں عموماً یونیورسٹی کے couples آتے ہیں۔ لڑکیاں زیادہ تر ہاسٹل کی ہوتی ہیں اس لیے ان کے ہاسٹل سے کچھ دن کے لیے غائب ہونا کوئی مسئلہ ٔ نہیں ہوتا۔ وہ لوکل ہوٹلوں میں رہتے ہیں۔ ہوٹل میں کوئی چیکنگ نہیں ہوتی کہ میاں بیوی ہیں کہ نہی۔ ویسے بھی سب کو پتا ہوتا ہے ہوائی کام ہے، کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا۔ وہ یہاں گھومتے پھرتے ہیں، عیاشی کرتے ہیں اور جب لڑکے کے پاس پیسے ختم ہو جاتے ہیں تو دونوں کی لڑائی ہوتی ہے۔ وہ لڑکی کو کہتا ہے کہ پیسوں کا انتظام کرے۔

لڑکی پیسوں کا انتظام کر لے تو ٹھیک ورنہ کبھی ہوٹل کے بل سے بچنے کے لیے لڑکا اس کو ہوٹل کے کمرے میں سویا ہوا یا کسی بھی دور افتاد مقام پہ چھوڑ کر فرار ہو جاتا ہے۔ ایسی لڑکیوں کو پاک فوج ریسکیو کرتی ہے۔ اکثر تو فریاد کرتی ہیں کہ انہیں گھر نہیں یونیورسٹی والے شہر بھجوا دیا جائے۔ اور اس طرح کے واقعے اب اتنے عام ہیں کہ سیاحت کے موسم میں ہمیں ہفتے میں ایک دو لڑکیاں تو ریسکیو کرنی ہی پڑتی ہیں۔

میرے لیے یہ سارے روداد رونگٹے کھڑی کر دینے والی تھی۔ آپ اندازہ لگائیں کہ خنجراب پاس چائنہ بارڈر جیسی انتہائی دور افتاد جگہ، جہاں پہنچنا ایک چیلنج ہے، مقامی لوگ بھی وہاں مخصوص موسم میں خاص سہولیات کے انتظام کے بغیر نہیں جاتے، جہاں کوئی باہر کا بندہ اکیلے جانے کا سوچ نہیں سکتا، ادھر ایک لڑکی اپنے آشنا کے ہمراہ گئی اور تن تنہا کسی بھی سامان کے بغیر چھوڑ دی گئی۔ یہ خیال روح کو جھنجوڑ دیتا ہے کہ موسم کی خرابی اور کسی مددگار کی پہنچ کے بغیر اس کا وہاں کیا حال ہوتا؟ وہ کسی طوفان کی نذر ہوجاتی، کسی برف کے تودے کے نیچے آ جاتی، یا بھوک اور جاڑے سے ٹھٹھر کے مر جاتی۔ اس کے گھر والے ساری زندگی اس کو ڈھونڈتے ہی رہ جاتے کیوں کہ کسی کو معلوم ہی نہیں کہ وہ کہاں ہے!

واپسی کے فلائیٹ کے لیے جب مجھے ڈرائیور ائر پورٹ چھوڑنے آیا تو اس نے وہاں مجھے دو لڑکا لڑکی دکھائے۔ وہ دونوں کچھ اسی قسم کی بات پہ جھگڑ رہے تھے کہ ٹکٹ کے پیسے بھی میں نے دیے ہیں۔ لڑکی رو رہی تھی۔ ڈرائیور کہنے لگا کہ میں نے آپ سے کہا تھا کہ یہ سب یہاں عام ہے۔ میں واقعی حیران ہوئی اور بس منہ کھولے اس روداد کو سچائی کے روپ میں دیکھتی رہی۔

واپس آ کر بھی یہ سب میرے ذہن سے محو نہیں ہو رہا تھا۔ میں نے اس موضوع پہ اپنی چھوٹی بہن سے بات کی۔ وہ ابھی یونیورسٹی جاتی ہے۔ اس نے مجھے کہا کہ زونی آپا آپ کو نہیں پتا اس طرح couples کا جانا ہمارے سامنے بھی ہوا ہے۔ ایک لڑکی گئی تھی میں نے اس سے پوچھا کہ تمہارے گھر والوں کو پتا نہیں چلا تو وہ کہتی کہ میں نے تین دن اپنی سم بند رکھی اور واپس آ کہ آن کی۔ ان کو کہا کہ موبائل ٹھیک نہیں تھا، اب کروایا ہے۔ اس سے بھی بڑھ کہ ہماری ایک کلاس فیلو دوسرے ڈیپارٹمنٹ کے لڑکے کے ساتھ تین سال فلیٹ پہ رہتی ہے۔ لڑکا سکھیکی سے ہے اور لڑکی صادق آباد سے۔ گھر والوں کو یہی پتا ہے کہ ہاسٹل میں رہتے ہیں۔ اتنے سالوں میں دونوں میں سے کسی کے گھر والوں نے آ کہ چیک بھی نہیں کیا کہ وہ کہاں رہتے ہیں!

یہ سب کچھ میرے لیے اتنا قابل افسوس ہے کہ میں الفاظ میں بیان نہیں کر سکتی۔ ہمارے معاشرے میں اتنی بے راہروی پھیل چکی ہے کہ اس کی محض مذمت کافی نہی۔ آئے دن مولویوں سمیت کتنے لوگوں کے قصے اور ویڈیوز وائرل ہوتی ہیں۔ مجھے وہ کیس بھی یاد آ رہا ہے جس میں ایک لڑکا ہسپتال میں مری ہوئی لڑکی چھوڑ کے بھاگ رہا تھا جو ابارشن کروانے آئی تھی۔ کس کا بات کو روئیں، کس کس واقعے پہ سر پیٹیں۔ ہم جو رسالت سے قبل عرب معاشرے کو زمانۂ جاہلیت کہتے ہیں، در حقیقت اس زمانۂ جاہلیت میں ہم آج رہ رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments