توہین مذہب کے جھوٹے الزام میں اپنے ہی بینک مینیجر کو قتل کرنے والے سکیورٹی گارڈ کو موت کی سزا

محمد زبیر خان - صحافی


پنجاب کے شہر خوشاب میں توہین مذہب کا الزام لگا کر اپنے ہی بینک کے مینیجر کو قتل کرنے والے سکیورٹی گارڈ کو انسداد دشت گردی کی عدالت نے سزائے موت کا حکم دیا ہے۔

قتل کا یہ واقعہ گزشتہ سال نومبر میں خوشاب کے علاقے قائدآباد میں پیش آیا تھا۔ مجرم احمد نواز نے محمد عمران حنیف پر اس وقت فائرنگ کردی تھی جب وہ صبح کے وقت بینک میں داخل ہو رہے تھے۔

یاد رہے کہ پولیس نے واقعہ کے فوراً بعد ملزم کو جائے وقوعہ سے گرفتار کر لیا تھا تاہم اسے قائد آباد تھانے منتقل کرنے کے دوران مقامی لوگوں کے ایک ہجوم نے اس کو گھیرے میں لے لیا تھا جو بعد ازاں جلوس کی شکل اختیار کر گیا تھا۔

ملزم کو تھانے منتقل کرنے کے بعد لوگوں کا ہجوم بھی بڑھا یہاں تک کے اس ہجوم میں سے بہت سے افراد تھانے کی چھت تک پہنچ گئے تھے۔

خوشاب پولیس کے ترجمان محمد حارث کے مطابق قتل کا یہ واقعہ پولیس کے لیے ایک چیلنج تھا جس کی تفتیش جدید طرز پر کرنے کے ساتھ یہ کوشش بھی کی گئی کہ اس مقدمے میں انصاف کے تمام تقاضے پورے ہوسکیں۔

توہین رسالت کے جھوٹے الزام کی تو کوئی سزا نہیں ملی

واقعے کے فوراً بعد مقتول محمد عمران حنیف کے اہل خانہ نے توہین رسالت کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے اسے ذاتی عناد قرار دیا تھا۔ قتل کے مقدمے میں مقتول کے چھوٹے بھائی کی جانب سے کہا گیا تھا کہ ان کے بھائی گذشتہ ایک سال سے اس بینک میں فرائض انجام دے رہے تھے۔

‘میں اکثر ان کو اپنی گاڑی پر بینک چھوڑنے کے لیے جاتا تھا، جس وجہ سے ملزم احمد نواز کو پہلے سے جانتا ہوں۔’

ایف آئی آر میں مقتول کے بھائی نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ انھوں نے واقعے والے دن اپنے مقتول بھائی کو بینک کے باہر اتارا اور تھوڑی دیر میں فائرنگ کی آواز آئی۔ ‘جس پر میں اترا تو اس وقت دیکھا ملزم احمد نواز مقتول پر براہ راست فائرنگ کر رہا تھا۔’

درج مقدمے میں کہا گیا تھا کہ واقعے کی وجہ عناد ‘سکیورٹی گارڈ کی جانب سے ڈیوٹی پر تاخیر سے آنے پر مقتول کی جانب سے ڈانٹ ڈپٹ تھی’۔

فیصلے کے بعد محمد عمران حنیف کے چھوٹے بھائی کا کہنا تھا کہ انھوں نے انتہائی مشکل حالات میں یہ مقدمہ لڑا ہے۔

’ہر وقت یہ خوف سوار رہتا تھا کہ جو الزام بھائی پر لگایا گیا تھا اس کے نتیجے میں ہم لوگوں کو کوئی نقصاں نہ پہنچ جائے۔ مگر اس اہم وقت میں پولیس، انتظامیہ اور علما کی جانب سے ایک پچاس رکنی کمیٹی بنائی گئی۔ اس کمیٹی نے اپنی پوری تحقیقاتی رپورٹ عدالت میں پیش کی جس میں مجرم ہمارے بھائی پر توہین رسالت کا کوئی الزام ثابت نہیں کرسکا۔‘

ان کا کہنا ہے کہ اس واقعے کے بعد نہ صرف یہ کہ پولیس نے انصاف کے تقاضے پورے کیے بلکہ عدالت میں بھی اس کی سماعت تیزی سے ہوئی۔ پروسیکوٹر وکلا کی ٹیم نے محنت سے ہمیں انصاف دلایا ہے۔ ہم امید کر رہے ہیں کہ اس کے بعد ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں بھی انصاف کے تقاضے پورے ہوں گے‘۔

ان کا کہنا ہے کہ اس وقت ’ہم کچھ مطمئں ہیں مگر بار بار ایک سوال ہمارے ذہنوں میں اٹھتا ہے کہ مجرم کو سزا تو قتل کی ملی ہے جبکہ اس نے بھائی پر توہین رسالت کا جو جھوٹا الزام عائد کیا تھا اس کی تو کوئی سزا نہیں ملی۔ توہین رسالت کا الزام لگنے سے ہم کس طرح مسائل کا شکار ہوئے اس کا تو کوئی ازالہ نہیں کیا گیا ہے‘۔

ان کا کہنا ہے کہ حکومت اور عدالتوں کو اس پر کچھ سوچنا اور عملی طور پر کام کرنا چاہیے۔

’ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ کوئی بھی اٹھے اور توہین رسالت کا الزام عائد کر دے۔ الزام عائد کرنے والا اگر الزام ثابت نہ کرسکے تو اس کے خلاف بھی توہین رسالت کی دفعات کے تحت کارروائی ہونی چاہیے‘۔

کوئی اور عمران جھوٹے الزام کی زد میں آکر قتل نہ ہو

محمد عمران حنیف کے بھائی کا کہنا ہے کہ واقعے کو تقریباً آٹھ نو ماہ گزر چکے ہیں۔ اس واقعے نے ہماری زندگیاں ہی بدل دی ہیں۔ واقعے سے چند دن بعد ہمارے بھائی کی شادی طے تھی۔ ہم بہت چھوٹے تھے جب ہمارے ہمارے والد کی وفات ہوگئی تھی۔ محمد عمران حنیف ہی ہمارے والد تھے۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ ’ان کے قتل کے وقت میں ماسٹرز کا طالب علم تھے۔ اب تعلیم مکمل کرچکا ہوں۔ بینک نے مجھے بھائی کی جگہ ملازمت دینے کا وعدہ کر رکھا ہے۔ اس حوالے سے کارروائی بھی ہو رہی ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’ہمارے گھر میں کئی برسوں سے بچے والدہ سے فی سبیل اللہ قران پاک پڑھنے آتے ہیں۔ میری والدہ اب بھی بھائی کو یاد کر کے روتی ہیں۔ وہ بچوں کو قرآن پاک پڑھا رہی ہوتی ہیں تو ساتھ میں اپنے بیٹے کو یاد کرتی ہیں۔ بھائی کے قتل سے پہلے ہمارے گھر میں ہر طرف خوشیاں بکھری ہوئی ہوتی تھیں۔ اب ہر فرد ایک دوسرے سے اپنے آنسو چھپا کر رو رہا ہوتا ہے۔‘

میری والدہ اٹھتے بیٹھتے اپنے بیٹے کو یاد کرتی ہیں۔ ہماری زندگیاں تو ہمیشہ کے لیے بدل چکی ہیں۔ اب ہم کہتے ہیں کہ کوئی اور عمران جھوٹے الزام کی زد میں آکر قتل نہ ہو‘۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32288 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp