ٹیکس دائرے میں اضافہ کیسے ہو گا؟


خان صاحب گرفتاری کی تڑیاں نہ دیتے صرف یہ معلومات ہی فراہم کر دیتے کہ خود انہوں نے کتنا ٹیکس ادا کیا تو زیادہ فائدہ ہو سکتا تھا۔ کیونکہ عوام جب عمران خان کے پرائیویٹ جہازوں کے سفر بنی گالا کے پرتعیش محل اور شاہانہ لائف اسٹائل کا موازنہ ان کے الیکشن کمیشن میں جمع کرائے گئے ٹیکس گوشواروں سے کرتے ہیں تو انہیں یہ تمام بھاشن بے معنی نظر آتے ہیں۔ آج عمران خان مخالفین پر حوالہ و ہنڈی کے ذریعے رقم باہر بھجوانے کا الزام لگاتے ہیں اور اس فعل کو کار مکروہ گردانتے ہیں، ماضی میں لیکن وہ خود عوام کو بینکنگ چینلز کے بجائے حوالہ و ہنڈی کے ذرائع استعمال کرنے اور سول نا فرمانی پر بھی اکسا چکے ہیں۔

لہذا جب تک وہ اپنے قول و فعل کے اس تضاد پر معذرت نہیں کرتے عوام ان کی بات سنجیدگی سے لینے پر تیار نہیں ہوں گے۔ اقتدار ملنے سے قبل خان صاحب کہا کرتے تھے پاکستانی قوم اس لیے ٹیکس نہیں دیتی کہ کیونکہ وہ جانتی ہے ان کے خون پسینے کی کمائی چند بڑے خاندان ڈکار جائیں گے۔ جس دن ملک کی باگ ڈور کسی ایماندار شخص کے ہاتھ آئی اتنا ٹیکس اکٹھا ہو گا مملکت خداداد کے لیے کاسہ گدائی کی حاجت نہ رہے گی۔ وہ حکومت ملنے کے بعد آٹھ ہزار ارب ٹیکس اکٹھا کر کے دکھائیں گے، لیکن کیا وجہ ہے کہ پچھلے دو سالوں میں خان صاحب کی حکومت اپنا ٹیکس ہدف حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی؟

یہ درست ہے کہ کوئی بھی ریاست ٹیکسوں سے حاصل ہوئی آمدن کے بغیر اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتی۔ ملکی معیشت جس تباہی کا شکار ہے ٹیکس آمدن میں اضافے کے سوا اس کا کوئی حل نہیں۔ عوام رضاکارانہ ٹیکس مگر اسی وقت ادا کریں گے جب انہیں یہ یقین ہو گا کہ ان کی خون پسینے کی کمائی لوٹ کر ان کی فلاح پر ہی خرچ ہو گی۔ اس حقیقت کا ادراک عمران خان کو اچھی طرح ہے اور بارہا وہ یہ کہہ بھی چکے ہیں۔ بدقسمتی سے مگر اقتدار میں آنے کے بعد انہوں نے بھینسوں اور پرانی سرکاری گاڑیوں کو فروخت کرنے جیسے نمائشی اقدامات کے سوا کچھ نہیں کیا اور ان کی حکومت میں بھی وزراء، مشیروں اور اشرافیہ کے وہی اللے تللے ہیں۔

ایسے میں کون ٹیکس ادا کرنے پر تیار ہوگا۔ پچھلے مالی سال میں 5550 ارب کا ٹیکس وصولی کا ہدف رکھا گیا تھا وہ بھی حاصل نہیں ہوا اس کے باوجود رواں سال ٹیکس ہدف مزید بڑھا کر پانچ ہزار آٹھ سو ارب کر دیا گیا ہے لازمی سی بات یہ ہدف حاصل کرنے کے لیے ان ڈائریکٹ ٹیکسز میں اضافہ کیا جائے گا۔ جس کا لامحالہ مطلب یہی ہے کہ افراط زر کی شرح بیس فیصد کو بھی کراس کرے گی اور غریب آدمی کی زندگی مزید اجیرن ہو گی۔

حالیہ بجٹ میں جو کم سے کم اجرت مقرر کی گئی ہے کاش اسمبلی میں وزیر خزانہ اس رقم سے کسی گھرانے کا ماہانہ بجٹ بھی بنا کر دکھا دیتے۔ اکثریت اس ملک میں ایسی ہے جو کرائے کے مکان میں رہتی ہے اور ایک کمرے کا مکان بھی سات ہزار سے کم کرائے میں دستیاب نہیں۔ دیہاڑی دار لوگ روزانہ شام کو پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے دو کلو آٹا ایک پاؤ گھی ایک پاؤ دال آدھا کلو چینی اور ایک لیٹر دودھ خریدتے ہیں۔ اس رقم میں دوا دارو بچوں کے تعلیم خرچ اور لباس کو چھوڑ کر صرف ان چیزوں کو ہی پورا کر کے دکھا دیا جائے۔

اپوزیشن سے چلیں گلہ نہیں کہ انہیں تو عمران خان کے بقول اپنے پیٹ بھرنے کے سوا کوئی خیال نہیں۔ تحریک انصاف تو مگر ریاست مدینہ کے طرز حکومت کی دعویدار ہے، پچھلوں پر لعن طعن کے سوا انہوں نے کیا کام کیا؟ ریاست مدینہ کے حکمران کی جاں بخشی اتنی آسانی سے ہو سکتی ہے؟ عمران خان کو حکومت میں آئے تین سال گزر چکے اب انہیں الزام تراشی اور شکوے ختم کر کے عوام کی فلاح پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔ پچھلی حکومتوں پر الزام تراشی نہ تو بھوکی عوام کا پیٹ بھر سکتی ہے اور نہ اس سے آخرت میں دامن چھڑانا ممکن ہو گا۔

عوام ٹیکس نیٹ میں نہیں آتے تو اس کی بڑی وجہ ایف بی آر کا نظام بھی ہے اور اس نظام کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے ہاں ٹیکس فائل کرنے کا نظام بہت پیچیدہ ہے جو لوگ اس مشق سے گزر چکے ہیں وہ جانتے ہیں کہ ٹیکس ریٹرن فارم بھرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ اتنے سوالات ہیں کہ انسان کا دماغ چکرا جائے۔ وہ وہ باتیں پوچھی جاتی ہیں جو شاید کوئی تھانیدار بھی ملزم سے نہ پوچھتا ہو۔ کوئی نا گزیر مجبوری نہ ہو تو لوگ اس درد سر کے خوف سے اس طرف آتے ہی نہیں۔

جن کے لیے NTN کا حصول لازم ہو جائے، فارم پر کرنے میں ناکامی کے بعد بالآخر Consultant سے ان کو رجوع کرنا پڑتا ہے۔ ان Consultants کے متعلق بھی جو عوام کا perception ہے اسے یہاں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ ملک میں باقاعدگی سے ٹیکس ادا کرنے والے افراد میں بڑی تعداد تنخواہ داروں کی ہے۔ ایسے لوگوں کو معاوضے کا جو چیک عطا کیا جاتا ہے، اس میں ٹیکس کی رقم پہلے ہی منہا ہو چکی ہوتی ہے۔ تمام اداروں کے پاس اپنے employees کو دی جانے والی تنخواہ کا ریکارڈ اور کوائف موجود ہوتے ہیں۔

خود ایف بی آر والے ایک کلک کی مدد سے کسی بھی شخص کے نام پر موجود جائیداد، بینک اکاؤنٹ کی تفصیل اور اس کی آمدن اور اخراجات کے متعلق معلومات حاصل کر سکتے ہیں۔ ستم ظریفی ہے کہ اس کے باوجود تنخواہ دار بندے کو بھی ٹیکس ریٹرن فائل کرنے، اور بے تکے اور فضول لوازمات یعنی بینک اکاؤنٹ کی تفصیل اور یوٹیلٹی بلز کی مالیت تک دوبارہ بتانی پڑتی ہے۔

چھوٹے دکاندار اور کاروباری حضرات جن کی آمدنی تنخواہ داروں کی طرح طے شدہ نہیں، ان کے متعلق طریقہ کار کا حال مزید پتلا ہے۔ سودا وصول کرنے اور اپنی کوئی چیز مرمت کرانے کے بعد ہمارے ہاں نہ بلز کا تقاضا ہوتا ہے اور نہ دیے جاتے ہیں۔ بینکوں کے ذریعے لین دین اور کریڈٹ کارڈز سے ادائیگی کا رجحان بھی بہت کم ہے۔ لہذا چھوٹے کاروباری طبقہ کے لوگ اول ٹیکس ادا ہی نہیں کرتے اور اگر کوئی ایف بی آر کے ہتھے چڑھ بھی جائے تو تھوڑا بہت اہلکاروں کو دے دلا کر معاملہ ختم ہو جاتا ہے۔

چھوٹے کاروباری افراد کے لیے اگر فکس ٹیکس مقرر کر دیا جائے اور اس کی ادائیگی کا طریقہ یوٹیلٹی بلز کی طرح سادہ بنا دیا جائے تو کافی ٹیکس اکٹھا ہو سکتا ہے۔ اس تفصیل کا مقصد محض یہ ہے کہ بالواسطہ ٹیکسز کے بجائے حکومت کو بلاواسطہ ٹیکسز کے ذریعے آمدن بڑھانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ لیکن جب تک ٹیکس کا نظام عام فہم نہیں بنایا جاتا اس میں خاطر خواہ کامیابی کا امکان نہیں۔ ٹیکس رقم ایک بڑا حصہ پراپرٹی کے شعبے سے بھی کمایا جا سکتا ہے۔

اس کی وسعت کا اندازہ اس بات سے ہو سکتا ہے کہ صرف بھارتی شہر بمبئی سے پراپرٹی کے شعبے سے سالانہ سو ارب ٹیکس اکٹھا ہوتا ہے۔ نان فائلرز پر ایک خاص رقم سے زائد پراپرٹی کی خریداری سے متعلق قدغن جیسی پالیسیز سے ہمارے ہاں نہ صرف پراپرٹی کا کاروبار تباہ ہوا بلکہ اس کا ملکی معیشت پر بھی برا اثر پڑا۔ اس پالیسی کا مقصد عوام کو ٹیکس نیٹ میں لانا تھا مگر فائدے کے بجائے الٹا نقصان ہوا۔ اس سے زیادہ فائدہ تمام شہروں میں درست پراپرٹی ویلیو کا اندازہ لگا کر رجسٹریشن ٹرانسفر کے وقت اصل قیمت کے لحاظ سے ٹیکس وصول کر کے کیا جا سکتا ہے۔ پراپرٹی سے رقم کمانے کے لیے حکومت کو اس شرط کو ختم کرنے کے ساتھ حقیقی مارکیٹ ویلیو پر رجسٹریشن کو یقینی بنانا ہوگا۔ ٹیکس نیٹ بڑھانے کے یہی آسان طریقے ہیں عمران خان صاحب اگر واقعی بہتری لانا چاہتے ہیں تو انہیں الزام تراشی چھوڑ کر اصلاحات پر فوکس کرنا پڑے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments