اگر بن لادن شہید ہے!


”جب برصغیر میں انگریز آیا، اس نے مدرسوں کے علم اور طریقۂ تعلیم کو فرسودہ کہہ کر نظام سے خارج کر دیا تو بر صغیر میں دو طرح کے علماء پیدا ہوئے ؛ اول وہ جنھوں نے کہا کہ دنیا جہان کا علم صرف قرآن اور احادیث کے اندر ہے، ہمیں کسی اور علم کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں ہے، دوم وہ جنھوں نے کہا کہ اصل علم صرف سائنس ہی ہے، جہاں بھی قرآن اور سائنس کے بیچ نزاع کی صورت ہو وہاں سائنس ہی کو درست تسلیم کیا جائے گا اور قرآن کے استدلال کو یوں لیا جائے گا کہ اس دور کے جاہل بدؤوں کے سمجھانے کے لئے افسانوی قصے یا شاعری کا استعمال کیا گیا۔

شبلی نعمانی کے بعد مسلمانوں کے تیسرے گروہ کا ظہور ہوا جنھوں نے اصول طے کیا کہ ہماری دینی جدیدیت اسی میں ہے کہ ہم ماضی میں پیچھے چلتے جائیں، یہاں تک کہ اتنا پیچھے چلے جائیں کہ اللہ کا نبی خود کلام الٰہی سنا رہا ہو، اور کائنات میں انسان کا اصول ہے کہ وہ اپنے حال اور مستقبل کے حقائق سے بھی اسی طرح آشنا رہے جس طرح اپنے ماضی سے رہتا ہے۔“ میری ان سے کافی وقت بعد کل بات ہوئی تھی۔ یہ ایک ستر سالہ مذہبی سکالر تھے جنھوں نے کئی کتابیں اور مضامین بھی تحریر کیے تھے۔ دنیا بھر کے ادارے اسلام کا اصل پیغام جاننے کے لئے ان سے رجوع کرتے تھے۔

ستر سالہ اس بزرگ کی زندگی کے پچھلے پچاس سال دین اسلام کا حقیقی، فرقے اور مسلک سے پاک پیغام مسلمانوں اور دنیا بھر کے مختلف مذاہب اور نقطہ ہائے نظر کے افراد تک پہنچانے میں گزرے تھے۔ وہ پنجاب کے ایک عام اور پسماندہ شہر میں پیدا ہوئے، علم کی لگن انھیں پاکستان کے بہترین تعلیمی اداروں تک لے گئی، یونیورسٹی کے دور میں مذہب ان کی زندگی میں ایک چیلنج کی طرح آیا اور انھوں نے دین اسلام اور کلام الٰہی کا اسی طرح مطالعہ کیا جس طرح کوئی فزکس یا داس کیپیٹل کا مطالعہ کرتا ہے۔ آخر قرآن مجید کلام الٰہی ہے، اسے اگر اس لیے نہیں پڑھیں گے کہ اللہ کا استدلال، حکم اور منشاء سمجھ آئے، تو کس لیے پڑھیں گے؟

انھوں نے اپنی بات جاری رکھی، ”یہ دور حاضر کی ضرورت بھی تھی کیونکہ جدید دنیا جن بنیادوں اور اصولوں پر کھڑی ہے، وہاں علم کی قدر کی جاتی ہے، عقیدت کی نہیں۔ تخیل کی تعریف کی جا سکتی، تسلیم صرف علم ہی کو کیا جائے گا۔ یہ تیسرا گروہ اس نتیجے پر پہنچا کہ صدیوں بعد اسلام کا روایتی دینی بیانیہ اپنے اصل میں چند اکابرین، اماموں، محدثین اور سکالرز کا بیانیہ ہو کر رہ گیا۔ تاریخی کشمکشوں، تہذیبوں کے ٹکراؤ، فرقہ واریت اور مسلکی اختلافات کے باعث یہ ایک مرض کی صورت اختیار کر چکا ہے جس میں تقریباً ہر شخص مبتلا ہے، حتٰی کہ غیر مسلم بھی۔

اسلامو فوبیا بھی اسی کی پیداوار ہے، جن ممالک میں بھی اسلاموفوبیا پھیلا، مسلمانوں کی انتہا پسندی ہی کے ردعمل کے طور پر پھیلا۔ آپ کیا سمجھتے ہیں کہ جب میں کلمہ طیبہ کا ورد کر کے کسی کا گلہ کاٹوں گا، کوئی مجھ سے خوفزدہ نہیں ہو گا، نفرت نہیں کرے گا؟ چلیں یہ تو بہت تھوڑے سے مسلمانوں کا کارنامہ ہے، سب ایسے نہیں کرتے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ روایتی دینی بیانیے کی بنیاد ہی جدید دنیا کے ساتھ حالت نزاع میں ہے، تبھی علامہ اقبال کو بھی لکھنا پڑا تھا کہ مسلمانوں کو ایک جدید اجتہاد اور دینی بیانیے کی ضرورت ہے۔“ میں خاموشی سے انھیں سن رہا تھا اور چاہتا تھا کہ اس تمہید کے بعد اب وہ مسلمانوں میں انتہا پسندی کی وجہ بتائیں۔

”اصل میں مسئلہ اس فکر کے ساتھ یہ ہے کہ روایتی ذہن ہر بات کو لے کر ایک انتہا پر کھڑا ہوتا ہے، یہ تقوٰی کے نام پر چیزوں کو مشکل ترین بنا کر پیش کرتا ہے، اتنا مشکل کہ عام آدمی کے پاس اس کے سوا چارہ ہی نہیں رہتا کہ وہ دوغلی زندگی جیے، ایمان قائم رکھنے کے لئے یہ تو مانتا رہے کہ موسیقی حرام ہے، مگر گزارا اس کا اس بن بالکل نہیں ہوتا۔ بالکل یہی حال اس فکر کے ماننے والوں کا جہاد اور ریاست سے متعلق بھی ہے، ان کا ماننا تو یہی ہے کہ پوری دنیا پر اللہ کی حکومت قائم کرنی ہے جس کے لیے مسلمان سب یا ان کی کوئی نہ کوئی جماعت تا قیامت غیر مسلموں سے حالت جنگ میں رہے گی یہاں تک ایک زمانے آئے گا جب امام مہدی کا ظہور ہو گا اور مسلمان پوری دنیا پر حکومت قائم کر لیں گے۔ حالانکہ فی الحقیقت اللہ کا صرف انسانوں کے دلوں پر حکمرانی کرنی ہے۔ اس کا پیغام انسانوں کے لئے ہے، اس کے قوانین بھی انھیں کے نظم اجتماعی کے لئے ہیں۔

فتح کا اور بالادستی، یہ ایک خواب یا افسانہ تو ہو سکتا، لیکن عملاً ناممکن ہو چکا ہے۔ اگر یقین نہیں تو کوئی آج جنگ چھیڑنا تو دور، چھیڑنے کی بات بھی کر کے دکھائے۔ پوری دنیا اس ملک یا گروہ کا جینا حرام کر دے گی اور اگر واقعی اس طرح کا اقدام کر دیا، تو خود مسلمان ملک اس گروہ اور اس کے ماننے والوں کا قلع قمع کر دیں گے کیونکہ آج کی دنیا میں جنگ ایک فساد کا نام ہے۔ جنگ میں کوئی فاتح نہیں ہوتا اور سب سے پہلی چیز جو جنگ میں ناکام ہوتی ہے وہ منصوبہ بندی ہوتی ہے۔

روایتی مذہبی بچوں کو بین الاقوامی معیار کی تعلیم نہیں دلواتے، ہر بچے کا حق ہے کہ اسے بین الاقوامی معیار کی اعلٰی درجے کی تعلیم دی جائے، ہر بچہ بارہ سال کی تعلیم حاصل کرے اور جب میچور ہو جائے پھر یہ فیصلہ کرے کہ اسے حافظ یا عالم بننا ہے یا ڈاکٹر یا انجینیئر۔ ورنہ یہ ایک ایسا ذہن ہی بنے گا جسے جدید دنیا کے اصول، قوانین، فلسفے اور اس سب کے پیچھے موجود تاریخ اور مشکلات کا کچھ ادراک نہیں ہو گا۔ یہ جب مردوں اور عورتوں کو مغربی لباس اور آداب میں دیکھے گا تو یہ ان سے نفرت ہی کرے گا اور اس کا ذہن اسے یاددہانی کروائے گا کہ دراصل تو یہاں عورت برقعے میں اور مرد داڑھی میں ہونا چاہیے کیوں کہ آئیڈیل تو یہی ہے۔ اگر ایسے ذہن کا استعمال کرنے والے لوگ، قوتیں اور محرکات ہوں تو یہ بڑی آسانی سے اسامہ بن لادن یا ابو مصعب الزرقاوی بن سکتا ہے۔ ”وہ اپنی گفتگو کے اختتام کی طرف بڑھ رہے تھے۔

”بات یہاں سے شروع ہوتی ہے کہ ’کیا یہ ضروری ہے کہ عورت دوپٹہ لے کر گلی میں سے گزرے‘ ، اور یہاں تک جاتی ہے کہ ’کیا کافر یا غیر مسلم کی حکومت اور نظام بھی قابل قبول ہو سکتا ہے؟‘ ، اسامہ بن لادن نے بھی تو یہی کیا تھا، وہ بھی تو سورۂ توبہ کی آیات پڑھتا ہوا جہاد پر نکلا تھا۔ وہ بھی یہ کہتا تھا کہ ’مشرکوں کو جہاں پاؤ قتل کر دو‘ ، ’اور انھیں قتل کرو یہاں تک کہ دین صرف اللہ ہی کا رہ جائے۔‘ مسلمانوں کا انتہا پسند ہونا مغربی سامراجیت کا ردعمل تھا، امریکہ نے عرب قومیت کی تحریکوں کو دبایا اور بنیاد پرستوں کو چھوٹ دی جس کے بعد ان جہادی نوجوانوں کو میزائل کی طرح استعمال کر کے پھینک دیا گیا تو یہ اپنے ہر دشمن اور ناقد پر ٹوٹ پڑے، یہاں تک کہ ان حدود کا بھی احترام نہ کیا جن کا انھیں دین تابع کرتا ہے۔

بعد میں امریکہ نے بھی جس طرح ان سے مقابلہ کیا، وہ دہشتگردی کی ایک قسم ہے لیکن ہم دوسروں سے کیا گلہ کریں جب اپنے ہی ظالم اور دہشتگرد ہو گئے ہوں۔ امریکہ کو کس طرح دہشتگردی سے نپٹنا چاہیے تھا، اس پر بات ہو سکتی ہے لیکن جب مسلمان بن لادن اور اس کے بیانیے کے ساتھ کھڑے ہو جاتے ہیں اور اتنا سب ہو جانے کے باوجود اس سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں، اور عمران خان جیسے آکسفورڈ سے فارغ التحصیل وزرائے اعظم اسامہ بن لادن کو شہید کہتے ہیں، تو اس کے پیچھے یہی روایتی مذہبی بیانیہ ہوتا ہے۔ آپ صرف وزیراعظم عمران خان کی باتیں سن لیں، عورت کے پردے سے شروع ہوتی ہیں اور بن لادن کی حمایت تک جاتی ہیں۔ اگر بن لادن شہید ہے تو اس ’من قتل نفسا‘ والی آیت کا کیا ہو گا؟“

میں نے کہا ”سر ابھی تاریخ کی سمت بتا رہی ہے کہ اگلا دور قصے کہانیوں سے بالاتر ہے۔ اس میں مسلمانوں کی ریاستوں کو فیصلہ کرنا پڑے گا کہ انھوں نے اپنے شہریوں کو بے وقوف بنا کر وسائل پر قبضہ کرنا ہے یا انھیں بہتر سے بہتر ٹریننگ دے کر ملکی ترقی کے لئے استعمال کرنا ہے۔ بات وفاداری پر آ جائے گی، اگر وفا ملک اور عوام سے ہے تو انھیں مذہبی توہمات سے پاک کرنا ہو گا۔ بن لادن جیسے لوگ مسلمانوں میں جمہوریت نہ ہونے اور علماء ریاست گٹھ جوڑ کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں، یہ غداروں کی پیداوار ہیں۔“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments