ویکسین سے ہچکچاہٹ


حالیہ وبائی مرض کوویڈ 19 اتنے مختصر وقت میں دنیا میں پھیل گیا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے اس نے دنیا کے 214 سے زائد ممالک میں تباہی مچا دی ہے جس کے تصدیق شدہ کیسوں کی تعداد 156 ملین سے زیادہ ہے اور 3.2 ملین سے زیادہ اموات اس کے سر ہیں۔ ناول کورونا وائرس نے جسمانی صحت اور معاشی تحفظ کے لئے کچھ سنگین خطرات لاحق کر دیے ہیں اور یہ معاشرے میں حتمی تناؤ کا باعث ہے۔ حکومتوں کی طرف سے اٹھائے جانے والے لاک ڈاؤن اور سماجی فاصلے جیسے اقدامات نے اس کے پھیلاؤ کو کسی حد تک روکا ہے۔

سائنسی طبقے نے اس چیلنج کو قبول کیا اور اپنی انتھک کوششوں سے کورونا ویکسین تیار کی جو اس بیماری پھیلانے والے وائرس کے خلاف مجرب ہے۔ جانچ اور کلینیکل ٹرائلز کے بعد اب بازار میں مختلف ویکسینیں دستیاب ہیں اور عوام تک ان کی رسائی ہے۔ ویکسین کو موجودہ مسئلے کا ایک محفوظ اور موثر حل سمجھا جاتا ہے لیکن حقیقت میں زیادہ تر لوگ ایسا نہیں سوچتے جس کی وجہ سے اس مسئلے نے ویکسین ہچکچاہٹ کی صورت میں شکوک و شبہات کی وبا کو جنم دیا ہے۔

ویکسین سے ہچکچاہٹ کیا ہے؟ کیا یہ خطرہ ہے؟ عالمی ادارہ صحت نے اس کی تعریف کچھ یوں کی ہے ”ویکسین کی دستیابی کے باوجود محفوظ ویکسین کا انکار یا قبولیت میں تاخیر“ ۔ اس کی شرح وقت اور مقام کے لحاظ سے مختلف ہے اور عام طور پراس کا انحصار ویکسین کی قسم اور اس کی افادیت، آسانی سے دستیابی اور بیماری کو کم خطرہ سمجھے جانے پر ہوتا ہے۔ لہذا یہ نہ صرف تیسری دنیا کے ممالک بلکہ امریکہ جیسے ملک میں بھی ایک اہم تشویش بن گئی ہے کیوں کہ جن ریاستوں میں ویکسین سے ہچکچاہٹ کی شرح زیادہ ہے وہاں عوام کا ویکسین لگوانے کی طرف رجحان بہت کم ہے۔ جنوبی ایشیا خصوصاً پاکستان کی صورتحال اس سے مختلف نہیں ہے جہاں ویکسین سے انکار کی تاریخ موجود ہے۔ پولیو ویکسین کو ابھی بھی بچوں کو بانجھ کرنے کا آلہ کار سمجھا جاتا ہے۔

سازشی نظریات اور غلط معلومات سوشل میڈیا کے ذریعہ بلا جھجک پھیلائی جا رہی ہیں جو شک اور خوف کو جگہ فراہم کر رہے ہیں۔ کچھ پاکستانیوں کا خیال ہے کہ چین نے امریکہ کی تسلط کو نقصان پہنچانے کے لئے جان بوجھ کریہ سازش کی اور اس وائرس کو پوری دنیا میں پھیلا دیا جبکہ دوسرے لوگوں کا خیال ہے کہ دنیا کے مسلمانوں خصوصاً پاکستانیوں کو نشانہ بنانے کے پیچھے امریکہ کا ہاتھ ہے۔ اگر وہ ویکسین لگوا لیتے ہیں تو اول ​الذکر​یا مؤخر الذکر کی تیار کردہ ویکسین کے ذریعہ ان کے اعمال کو امریکہ یا چین کنٹرول کرے گا۔ سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی لائٹ بلب اور مقناطیسی چپ کی ویڈیوز نے لوگوں کی پریشانی میں اور اضافہ کیا ہے۔ مذہبی گروہوں کا خیال ہے کہ یہ ویکسین مسلمانوں کے خاتمے کے لیے بنائی گئی ہے تاکہ یہودی پوری دنیا پر حکمرانی کرسکیں۔

ان سب سے پیدا ہونے والا خوف خود وائرس سے زیادہ متعدی ہے۔ لوگوں کا عالمی ادارہ صحت، ویکسین تیار کرنے والے ممالک اور صحت کی صنعت پر بہت کم یا بالکل بھی اعتبار نہیں ہے جو ان کے خیال میں حفاظت سے زیادہ منافع کو ترجیح دیتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں انسداد ویکسین کارکنوں نے بھی عارضی طور پر ویکسین لگوانے سے انکار کا اظہار کیا ہے اور ان کے احتجاج کے اثرات تیسری دنیا کے ممالک میں بھی ظاہر ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ انکار کے اس دور میں طبی اور سائنسی اسٹیبلشمنٹ پر عدم اعتماد عام ہے۔ بہت سے لوگوں کی یہ غلط فہمی ہے کہ ویکسین سب کے لئے کارآمد نہیں اس کے بجائے وہ قدرتی طریقہ علاج کو ترجیح دیتے ہیں۔

ہاں ویکسین لگوانا ایک ذاتی انتخاب ہے لیکن عوامی صحت ذاتی نہیں ہے۔ اگر کوئی ویکسین نہیں لگوا رہا تووہ ممکنہ طور پر اپنے ساتھ دوسروں کو بھی خطرہ میں ڈال رہا ہے۔ ملک کی معاشی حالت کو مدنظر رکھتے ہوئے طویل المیعاد لاک ڈاؤن ممکن نہیں ہے اسی لیے ویکسین کورونا سے بچاؤ کا حتمی حل ہے۔ افواہوں کی طرف دھیان نہ دیں اور ویکسین لگوائیں۔

یہ خوش آئند بات ہے کہ تحریر لکھنے کے وقت تک 30 لاکھ سے زائد پاکستانیوں کو ویکسین لگائی جا چکی ہے جو کل آبادی کا صرف 1.4 فیصد بنتا ہے اس میں اضافے کی توقع کی جا رہی ہے لیکن پوری آبادی کو ویکسین لگانا ابھی بہت دور کی بات ہے۔

احمد رضا ملک
Latest posts by احمد رضا ملک (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments