پیش خدمت ہیں شوگر فری آم


ہم نے جب سے ہوش سنبھالا تب سے محروم ترین جو لوگ پائے ان میں ذیابطیس کے مریضوں کو میں سرفہرست رکھنا چاہوں گا۔ اللہ تعالیٰ سے میری دعا ہے کہ ان سب کو شفا عطا فرمائے۔

ان کی بے چارگی کا یہ عالم ہے کہ یہ نہ تو چائے میٹھی پی سکتے ہیں نہ ہی کھیر کھا سکتے ہیں۔ انسولین گویا ان کا مقدر بن جاتی ہے۔ کوئی زخم لگ جائے تو بھرنے کو ہی نہیں آتا اوپر یہ زخموں پر مرہم چھڑکنے والے خیرخواہ لوگ، واللہ! خدا محفوظ رکھے ان کے شر سے۔

آپ کھانے کے معاملے میں یہ سمجھ لیں کہ ذیابطیس ہونے کے بعد بندہ ہکا بکا رہ جاتا ہے کہ وہ آخر کھائے کیا پانی کے علاوہ تو ہر چیز اس کے لئے مضر صحت کے مانند ہوتی ہے۔

ایسے میں مجھے گمان ہے کہ جب پھلوں کے بادشاہ آم کی آمد ہوتی ہے، جب ہر سو آم کی صدا فضا میں رقصاں ہوتی ہے، تب یہ ذیابطیس کے مریض ضرور کہیں کونے میں، دنیا کی نظروں سے چھپ چھپا کے زار و قطار ٹھاٹھیں مار کر روتے ہوں گے ، اپنی قسمت کو کوستے ہوں گے ، زندگی کو بے معنیٰ و بے رنگ قرار دیتے ہوں گے ۔

آم کسے نہیں پسند بھئی، آم جنہیں نہیں پسند ان کی نشاندہی مرزا غالب کر چکے۔
آم اپنے ساتھ کافی اور چیزیں بھی لاتا ہے۔

مثلاً: آم، صاحب باغ دوست کی حیثیت میں مختصر وقت کے لئے ہی صحیح لیکن دوستوں کے گروپ میں بے پناہ عزت و اہمیت برپا کر دیتا ہے۔

آم حاصل خوشنودی کے خاطر بھی لکڑی کی پیٹیوں میں میلوں سفر کرتا ہے۔
آم ہیں تو رفیق تو بہت زیادہ رفیق، مگر رقیب بھی رفیق ہوجاتا ہے۔
کسی کا موڈ خراب اور آم پیش کریں، تو عین ممکن ہے کہ مزاج منفی سے مثبت پر سوچ کر جائے۔

کسی کو بھوک نہیں تو آپ بس کا اطلاع دیجئے پھر جسے بھوک نہ تھی وہ بھی دو کے بجائے چار روٹیاں ہضم کر جائے گا اور مزید کی گنجائش کا بھی انتظام کردے گا۔

آم جب آ جائیں تب چاول کی بھی شامت آجاتی ہے۔

دو آم ہوں تو دو پلیٹیں چاول کی یقینی درکار ہوتی ہیں۔ شاید، جب آم ہوتے ہیں تب پیٹ میں ایکسٹرا اسپیس ازخود بن جاتا ہے۔

بہرحال، بات ہو رہی تھی ذیابطیس کے مریضوں کی مریضوں کی محرومی کی، تو شاید ان اداس لوگوں کی بات سننے والے نے سن لی اب پیش خدمت ہیں شوگر فری آم۔

ذیابطیس کے مریض بھی اب آم سے اپنی بھڑاس نکال سکتے ہیں اور ماضی کی محرومیوں کو قدرے کم کر سکتے ہیں۔

صوبہ سندھ کے ضلع ٹنڈو الہ یار میں ایک نجی زرعی فارم میں ماہرین نے سائنسی طور پر پھل میں تبدیلی کے بعد پاکستان میں شوگر فری آموں کی تین نئی اقسام متعارف کروائی ہیں۔

نئی متعارف شدہ آموں کی یہ اقسام ذیابیطس کے مریضوں کے لئے بہترین تصور کی جا رہی ہیں کیونکہ ان میں چینی کی مقدار صرف چار سے چھ فیصد تک موجود ہے۔

آموں میں سندری، چونسہ اور لنگڑا سمیت کئی مختلف اقسام میں 12 سے 15 فیصد تک چینی پائی جاتی ہے۔ اب چار سے پانچ اقسام ایسے دستیاب ہیں، جن میں صرف 4 سے 5 فیصد چینی کی سطح ہے۔

مقامی منڈیوں میں، یہ آم سونارو، گلین اور کیٹ کے نام سے دستیاب ہیں۔ ان آموں میں موجود اقسام میں ”کیٹ“ کی قسم میں چینی کا سب سے کم تناسب ہے جو کہ 4.7 فیصد تک ہے، اسی طرح بالترتیب سونارو اور گلین میں چینی کی سطح 5.6 اور 6 فیصد تک ہے۔ اطلاعات کے مطابق ان شوگر فری آموں پر تحقیق کا آغاز ایم ایچ پنہور فارمز نے پانچ سال قبل کیا تھا۔

محمد حسین پہنور کو نامیاتی کاشتکاری (آرگینک فارمنگ) میں ان کے ریسرچ آرٹیکلز اور مینولز کے باعث انہیں خوب شہرت حاصل رہی ہے۔ اس سلسلے میں حکومت پاکستان کی جانب سے پھلوں خاص کر آم اور کیلوں کے شعبے میں کی گئی تحقیق کو سراہتے ہوئے ستارہ امتیاز سے بھی نوازا جا چکا ہے۔ ان کے انتقال کے بعد ان کے بھتیجے غلام سرور نے اس کام کو جاری رکھا اور اس ماحول اور مٹی میں اس کی نمو کو جانچنے کے لئے آم کی مختلف انواع درآمد کر کے اس میں نئی جدت ڈالنے کی کوشش کی۔

یہ منصوبہ ذاتی بنیاد پر چلایا جا رہا ہے، اس میں کسی قسم کی کوئی حکومت معاونت شامل نہیں۔
آخر، میں ذیابطیس کے مریضوں کو شوگر فری آم مبارک!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments