عبادات سے سماجی ذمہ داری زیادہ ضروری ہے


اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں واضح فرماتا ہے کہ وہ بندے پر اپنے حقوق معاف کردے گا مگر بندے پر بندے کے حقوق معاف نہیں کرے گا یعنی حقوق اللہ سے حقوق العباد اہم ترین ہیں۔ اللہ کے بندوں کو ناراض کر کے اللہ کو راضی کرنے کی سعی لاحاصل ہے۔

آبائی گاؤں میں رہتے ہوئے مذہب کی رسومات زیادہ تر خواتین کو ادا کرتے ہوئے دیکھا۔ راقم کی چچی محترمہ عالم و فاضل تو نہیں ہے مگر خواندہ ضرور ہے۔ آیت کریمہ پڑھانا، روزوں میں نماز جمعہ کا اہتمام کرنا، نعت، معجزے سنانے کی محافل کے انعقاد کی روایات چچی محترمہ نے شروع کیں۔ چچی محترمہ تواتر کے ساتھ اپنے خطابات میں فرماتی ہے کہ اللہ کو راضی کریں۔ بندہ تو کسی صورت راضی نہیں ہو سکتا ہے۔

چچی محترمہ سے قبل گاؤں کی خواتین پنجابی ثقافتی روایات منایا کرتی جن کو ہندوانہ روایات قرار دیا گیا اور وہ آہستہ آہستہ ختم ہو کر رہ گئی ہیں۔ حالانکہ کوئی بھی مذہب مقامی روایات اور کلچر کو ختم نہیں کرتا ہے۔

راقم یقین دلاتا ہے کہ گاؤں میں آپس میں رواداری، محبت، دکھ درد میں شرکت، شادی بیاہ میں سانجھ داری اور خاص کر بیٹی کی شادی پر گاؤں کا ہر فرد سماجی ذمہ داری خود لے لیتا تھا کہ بیٹی تو سب کی بیٹی ہے۔

شادی کے تمام تر انتظامات برادری کے لوگ کرتے تھے۔ مرگ پر سماجی ذمہ داری زیادہ ادا کی جاتی تھی۔ بیماری کی صورت میں تیمارداری ہر بندے کا فرض تھا۔ یہ سب ختم ہو گیا ہے۔ گاؤں میں سماجی ذمہ داری ادا کرنے کا رواج نہیں رہا ہے۔ مجموعی معاشرہ بھی سماجی ذمہ داری سے پہلوتہی کرتا ہے۔

بیٹی نیہام بہت بولڈ ہے جو بات کہنی ہو بلا جھجک کہہ دیتی ہے اور دلائل کے ساتھ اپنی بات منوا لیتی ہے۔ سکول سے آتے ہی ایک لمبی تمہید باندھی اور اپنی کلاس فیلو اور دوست کے لئے سٹیشنری، کاپیاں اور کتابوں کے لئے کہا کہ آپ اسے بے شک ایک مہینہ جیب خرچ نہ دینا۔ کلاس فیلو کا باپ انہیں چھوڑ گیا ہے۔ ماں اور تین بہن بھائی ہیں۔ بس ایک ٹائم کھانا کھاتے ہیں۔ ایک کمرے کے مکان میں رہتے ہیں۔ بہنیں چھوٹے بھائی کے لئے کھانا چھوڑ دیتی ہیں اور خود بھوکی رہ لیتی ہیں۔ ماں مکان کے کرائے کے عوض مالک کے گھر کام کرتی ہے۔ ماں ہر حال میں بچوں کو پڑھانا چاہتی ہے تاکہ جو اس کے ساتھ ہو رہا ہے۔ خدا نخواستہ یہ دن بچوں کو نہ دیکھنا پڑیں۔

ثناء بی بی (فرضی نام) کی کہانی بھی ملتی جلتی ہے۔ تین بجے ہیں۔ ثناء بھی یہی چاہتی ہے کہ بچوں کو پڑھا دو۔ پرائیویٹ کمپنی میں معمولی تنخواہ پر ایک مہینہ ہوا جاب لگی ہے۔ خرچہ مانگنے پر شوہر نے مارپیٹ کر کے گھر سے نکال دیا ہے۔ بدترین تشدد کرتا ہے۔ توہین آمیز رویہ ہے۔ شوہر کہتا ہے کہ ماں سے پیسے لے کر آؤ تو گھر داخل ہونا ورنہ جدھر مرضی جاؤ۔ راقم نے سٹیزن پورٹل پر شکایت درج کرائی ہے۔ مگر ابھی تک کچھ شنوائی نہیں ہوئی ہے۔ درخواست گھوم پھر کر ایس پی روال ٹاؤن کے پاس پہنچی ہے۔

دونوں خواتین چاہتی ہیں کہ بچے پڑھ جائیں اور انہیں صرف کرائے کی مد میں سپورٹ کی ضرورت ہے۔ اہل دل اور صاحب ثروت خواتین و حضرات سے اپیل ہے۔ بچوں کی فیس، مکان کا کرایہ یا جو بہتر سمجھیں سپورٹ ضرور کریں۔ اللہ راضی ہوگا۔

بڑی عید آ رہی ہے۔ مسلمان اللہ کو راضی کرنے کے لئے لاکھوں روپے کے جانور خرید کر قربانی کریں گے مگر مذکورہ بچوں تک گوشت پھر بھی نہیں پہنچے گا۔ معلوم نہیں کہ کتنے بچے اور خواتین ایسی ہیں۔ مگر کم ازکم بطور انسان اپنی سماجی ذمہ داری ادا کرتے ہوئے اپنے قریب، ارد گرد تو ضرور دیکھیں۔ کچھ زیادہ نہیں تو بہانے سے کھانا ہی ایسے گھروں میں دے دیا کریں۔ اللہ پر یقین کریں کہ تمام عبادات سے سماجی ذمہ داری افضل ترین ہے اور اللہ اس پر بے حد راضی ہوتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments