میں مابعد جدیدیت کا شکار کیوں نہیں ہوں؟


ڈاکٹر صلاح الدین درویش اردو نوجوان مفکر ہیں۔ ادب، فلسفہ اور تاریخ کے ان کی دلچسپی کے خاص مضمون ہیں۔ بہترین نقاد اور شاعر بھی ہیں ایم اے اردو کرنے کے علاوہ میں پی ایچ ڈی اردو کی ڈگری حاصل کی اور بعد میں محکمہ تعلیم کے استعمال کے ساتھ منسلک ہے۔

بندہ ناچیز نے چند دن قبل درویش صاحب کا ایک لیکچر سنا جس میں ڈاکٹر صلاح الدین درویش نے مابعد جدیدیت کی بنیاد پر تقریباً ہر قسم کو ڈسکورس کو رد تشکیل کے کیٹیگری میں ڈال دیا۔

ایسی کے جواب میں آج احقر ایک درویش کو جواب دے گا۔

جیسے کے آپ جانتے ہے مابعد جدیدیت کا آغاز 1970 میں فرانس سے ہوا جب میشل فوکو اور ڈریڈرا جیسے لوگوں نے لکھنا شروع کیا۔ ویسے تو مابعد جدیدیت کا ٹارگٹ ہر قسم کا بیانیہ ہے لیکن میں اس کی تین اہم Theme بیان کرنے کی کوشش کرو گا 1 فوسٹ ماڈرینسٹ کہتے ہے دنیا میں کوئی سچائی نہیں ہے۔ درویش صاحب بھی اس لیکچر میں فرماتے ہے کہ ہم جب تک سیاسی، سماجی اور مذہبی بیانیہ سے آزادی حاصل نہ کریں ہمارے مسائل حل نہیں ہوسکتے ہیں ڈاکٹر صاحب مابعد جدیدیت میں ”سچائی“ کا تصور نہیں ہے پھر آپ کیسے کہتے ہے مسائل کا حل ہر قسم کی رد تشکیل میں ہے؟

مابعد جدیدیت والے کہتے ہیں دنیا میں کوئی Objectivity نہیں ہے یہاں پر آپ نے اقبال کی طرح سائنس سے نفرت کا اظہار کیا ہے کیونکہ نیچرل سائنس کے لیے Objectivity ضروری ہے۔ مابعد جدیدیت کے پیروکاروں کے مطابق سب کچھ مصنوعی ہے کوئی حقیقت نہیں ہے۔ اس وجہ سے آپ بھی مختلف بیانیہ کے حوالے سے جو کچھ فرماتے ہیں وہ بھی ایک مصنوعی سچائی ہے نہ کہ حقیقت۔ درویش صاحب میشل فوکو اپنی کتاب The Relationship between Power and Knowledge میں لکھتے ہے ”طاقت کی بنیاد زبان ہے“ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے سماجی قوت کی بنیاد کس چیز پر ہوگی؟ یہ مابعد جدیدیت کا ایک فراڈ ہے۔

دوسری اہم Theme جس پر مابعد جدیدیت کے پیروکار بہت زیادہ زور دیتے ہیں وہ یہ ہے کے یہ لوگ Anti Essentialism ہے اس کا مطلب یہ ہے ہمیں چیزوں کی بنیاد کو نہیں دیکھنا چاہیے بلکہ ان کی ظاہری ڈھانچے کو دکھانا چاہیے۔ افلاطون، سے لے کر ارسطو اور کانٹ تک سب اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ہمیں چیزوں کا Essence جانا چاہیے۔ درویش صاحب کسی چیز کو بغیر Essence کے سمجھنا ایک حماقت ہے۔ مزید یہ کے مابعد جدیدیت Cause and Effect کے خلاف ہے یہاں سوال آتا ہے ادب پر معاشرے میں کیسا تبدیلی لائی گا؟

ان دو پوائنٹ کو اگر دماغ میں رکھی جائے تو یقیناً مابعد جدیدیت ہمیں Nihilism کی طرف جانے پر مجبور کرتا ہے جو کہ بذات خود ایک بیانیہ ہے۔ اپنی ایک مضمون میں درویش صاحب لکھتے ہے ”فطرت، ابدیت، آفاقیت، معروضیت، موضوعیت، اخلاقی نظام، عظیم تہذیبی روایات اور اعلیٰ اقدار و روایات کے نام پر جو عقل کے گھوڑے دوڑا کر نظریات قائم کیے گئے وہ ایسے عظیم مہا بیانیے قرار پائے کہ جن کی عظمت پر سوال اٹھانا گویا انسان کی فطرت اور جبلتوں پر اعتراض اٹھانا تھا، ان بیانیوں کو خیر اور زندگی کا اصل اور حاصل سمجھ لیا گیا“ سادہ الفاظ میں درویش فرماتے ہے

مابعد جدیدیت خود کو بے نیاز دکھانا چاہتا ہے۔ تاہم ایک سادہ لفظوں میں، میں یہ کہوں گا کہ درویش فرماتے ہے کہ جدیدیت ناکام ہو چکی ہے، کلاسیکیت لغو ہو چکی ہے، حقیقت کو دریافت کرنے کے تمام زاویے فنا ہو چکے ہیں اور حقیقت کی ترجمانی کرنے والے سبھی تصورات مضحکہ خیز حد تک بے معنی ہو چکے ہیں۔ اب انسان کو اور اس کے متعلقات کو چند نئی تعریفات سے define ہونا ہے۔ انسان کو اپنے علمی اور عملی Objects کے ساتھ تعلق کو بالکل نئی معنویت اور طرز احساس کے ساتھ از سر نو استوار کرنا ہے، یہ ہیں درویش کا Post Modernism۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments