اب اس نظام کو بدل دینا چاہیے!


بلا شبہ وزیر اعظم عمران خان باتیں بڑی اچھی کرتے ہیں ان کی بدن بولی بھی متاثر کن ہوتی ہے مگر یہ کیسی عجیب بات ہے کہ ان پر عمل بہت کم ہوتا ہے مثال کے طور سے جب وہ کہتے ہیں کہ احتساب سب کا ہو گا کسی کو این آر او نہیں ملے گا تو ہم دیکھتے ہیں معاملہ اس کے الٹ ہے پھر وہ اس پر اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہیں کہ بیورو کریسی نظام عدل اور مافیاز ان کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ ہم اس حوالے سے کئی بار عرض کر چکے ہیں کہ اگر واقعی ایسا ہے تو آپ اقتدار سے الگ کیوں نہیں ہو جاتے کیوں عوامی نفرت کا نشانہ بن رہے ہیں مگر شاید ان کو بھی حکمرانی کا چسکا لگ گیا ہے لہذا وہ اپنے اقتدار کی مدت پوری کرنا چاہتے ہیں یا پھر انہیں یہ امید بھی ہے کہ وہ اگلے دو برسوں میں صورت حال پر قابو پانے میں کامیاب ہو جائیں گے یہی بات قرین قیاس ہے کیونکہ وہ خود بد دیانت نہیں انہیں دولت جمع کرنے کا بھی شوق نہیں اگر ہوتا تو اب تک ان کے ذاتی سکینڈل سامنے آ چکے ہوتے مگر ایسا نہیں ہوا ہاں ان پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ اس وزیر مشیر کو جس نے کوئی مال پانی بنایا ہوتا ہے اس کی وزارت تبدیل کر دیتے ہیں اور نیب وغیرہ کو اس پر ہاتھ نہیں ڈالنے دیتے ممکن ہے ایسا بھی ہو مگر سوچنے والی بات یہ ہے کہ اب تک ان کے سیاسی مخالفین پر نیب نے کتنا ہاتھ ڈالا ہے وہ تو سکون کی نیند سوتے ہیں اور کوئی پائی پیسا بھی ان سے نہیں لیا جا سکا لہذا کہا جا سکتا ہے کہ قصور اس نظام کا ہے جو بد عنوانی کے مواقع فراہم کرتا ہے اور پھر محفوظ راستہ بھی دکھاتا ہے لہذا جب تک یہ نظام نہیں بدلتا کوئی بھی حکمران اس بڑھتے ہوئے اندھیر کو ختم نہیں کر سکتا اگرچہ موجودہ حکومت نے اسے بدلنے کا کہا تھا مگر وہ ناکام ہوئی کیونکہ اس سے استفادہ کرنے والے بہت توانا ہیں ان کے ہاتھ لمبے ہیں اب تو عوام بھی دبی زبان میں کہتے ہیں کہ اسے ہی چلنے دیا جائے وجہ اس کہ یہی ہے کہ ان لوگوں نے ان کی سوچ بدل دی ہے کہ اگر کوئی دوسرا نظام حیات آ گیا تو وہ اس کو قبول نہیں کر سکیں گے لہذا وہ تذبذب کا شکار ہیں یعنی وہ سہولتیں بھی چاہتے ہیں (جو تبدیلی لائے بغیر حاصل نہیں ہو سکتیں ) مگر اس کے لئے ذہنی طور سے آمادہ و تیار نہیں اور عمران خان کو دن رات برا بھلا کہہ رہے ہیں ذرا دیکھیے کہ مہنگائی اتنا نہیں بڑھتی جتنا یہ لوگ بڑھا دیتے ہیں اب ایک چیز تین سو کی ہے تو دکاندار اس کے ہزار مانگے گا بھاؤ تاؤ کر کے پانچ سو تک آ جاتا ہے اس میں حکومت کہاں ہے ہاں حکومت ایسے افراد کو کڑی سزا دلوا سکتی ہے مگر مصیبت یہ ہے کہ تاجر ہڑتال کی دھمکی دے دیتے ہیں بہرحال اس نظام کی تبدیلی ضروری ہو گئی ہے کہ اس کی موجودگی میں ریاست کسی بڑے نقصان سے دوچار ہو سکتی ہے انارکی کی ایک طاقتور لہر ابھر کر معاشی و معاشرتی ڈھانچے کو تہہ و بالا کر سکتی ہے لہذا ذمہ داران کو مزید نہیں خاموش رہنا چاہیے شاید وزیر اعظم نے چینی نظام حکومت و حیات کی بات اسی لئے کی ہے کہ اب اہل اختیار کو آنے والے وقت کا ادراک ہو گیا ہے مگر سوال یہ بھی ہے کہ اگر چینی ماڈل کو اپنایا جاتا ہے تو اس میں بنیادی انسانی ضروریات کا پورا خیال رکھا جائے گا کہ روٹی کپڑا مکان تعلیم اور صحت ریاست کے ذمہ ہوں گے؟

اگر ایسا ہو گا تو پھر عوام کو عمران خان کی ہاں میں ہاں ملانے میں کوئی حرج نہیں ہونا چاہیے اگرچہ وہ یو ٹرن لینے کے ماہر تصور کیے جاتے ہیں اس کے باوجود ان کے ساتھ کھڑے ہونا چاہیے ہو سکتا ہے وہ اس میں سنجیدہ ہوں کیونکہ چین بھی اب یہاں کچھ تبدیلیاں چاہ رہا ہوگا جن کے ذریعے اس نے وطن عزیز کو خود کفالت کی منزل کے راستے تک لے جانا ہے تاکہ اس کے اندر بے چینی پیدا نہ ہو اور اس کے منصوبوں پر من و عن عمل درآمد ہو سکے اس تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی بدل چکی ہے وزیر اعظم نے بغیر لگی لپٹی مغرب کو اپنے آئندہ پروگرام کا بتا دیا ہے انہوں نے یہ بھی بتا دیا ہے کہ وہ اس کی جنگ نہیں لڑیں گے ماضی میں انہوں اپنا بے بہا جانی و مالی نقصان کیا ہے لہذا اب ان میں اور کی سکت نہیں رہی عوام غربت کی لکیر کے نیچے تیزی سے جا رہے ہیں جنہیں اس سے اوپر لانا ہے جس کے لئے انہوں نے پوری توجہ تعمیر و ترقی پر دینا ہے کسی الجھن میں نہیں الجھنا لہذا اب وہ ہمیں ڈکٹیشن نہ دے جو بھی کرنا ہے ہم نے اپنے مفاد کو سامنے رکھ کر کرنا ہے اس موقف پر انہیں بڑی شاباش مل رہی ہے ان کے سیاسی مخالفین بھی ان کے واری صدقے جا رہے ہیں اور بہت جذباتی ہو رہے ہیں کہ پہلی بار کسی وزیر اعظم نے بہادری دکھائی ہے اور امریکا کو کھری کھری سنائی ہیں لہذا کہا جا سکتا ہے کہ اب یہاں آزادانہ فیصلوں کا وقت قریب آ گیا ہے رہی بات آئی ایم ایف کے دباؤ کی تو سنا ہے کہ چین نے اس کے سمتوں سے بچانے کی یقین دھانی کرا دی ہے لہذا فکر کی کوئی بات نہیں اور یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ آنے والے دنوں میں صورت حال بڑی حد تک تبدیل ہونے کا امکان ہے لہذا عوام کو انتظار کرنا ہو گا بصورت دیگر انہیں اپنے نمائندے منتخب کرنے کا مکمل اختیار ہوگا جو ان کے نزدیک انہیں مسائل سے نجات دلا نے کی پوزیشن ہوں گے ویسے ہمیں لگتا ہے کہ عمران خان دوبارہ اقتدار میں آنے کا ارادہ رکھتے ہیں لہذا وہ عوامی مفاد سے متعلق چند اقدامات لازمی کریں گے۔ چاہے اس کے لئے انہیں کتنے ہی سخت فیصلے کیوں نہ کرنے پڑیں۔

حرف آخر یہ کہ اگرچہ وزیر اعظم عمران خان اپنے وعدوں کو پورا کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے مگر ان کی نیت پر شک نہیں کیا جا سکتا اور یہ کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے جہاں عوام کی ناراضی کا سامنا کیا ہے تو وہاں اب وہ اپنی حالیہ تقریر سے اس ناراضی کو کم کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments