افغانستان میں امن اور مہاجرین کی توقع!


یکم جولائی 2021 کی سہ پہر قومی اسمبلی کے ہال میں پارلیمان کی دفاعی کمیٹیوں کے معزز اراکین قائد حزب اختلاف جناب شہباز شریف پیپلز پارٹی کے قائد جناب بلاول بھٹو سینیٹ میں نیشنل پارٹی کے لیڈر جناب طاہر بزنجو صوبائی وزراء اعلیٰ، وفاقی وزراء اور دیگر اراکین پارلیمان کو ملکی دفاع کے ادارے کے سربراہ و دیگر متعلقہ اہلکاروں نے افغانستان کے ابھرتے بحران، کشمیر تنازعہ کی تازہ صورتحال پاک امریکہ تعلقات اور خطے کی مجموعی اسٹریٹیجک و سلامتی کی صورتحال کے متعلق تفصیلی بریفنگ دی۔

2 جولائی کے اخبارات نے اس کے متعلق معنی خیز سرخی چھپائی ہے۔ ”حکومت اپوزیشن اور فوج ایک صفحے پر“ بریفنگ کے متعلق صحافتی ذرائع سے اخبارات نے اس ان کیمرہ (بند کمرے ) کی بریفنگ میں زیر بحث موضوعات کا کھوج لگا نے کی پیشہ وارانہ کوشش کی جس سے بند کمرے میں ہونے الی گفتگو کی کچھ اشارے کنائے سمجھنے میں مدد ملی ہے۔ حسب روایت وزیراعظم کے عہدے پر۔ عمران خان اپنی ذہانت یا خول میں بند شخصیت ہونے کی وجہ سے قومی سلامتی سے متعلق اس اہم اجلاس میں بھی تشریف لائے تو عسکری ادارے کے دو بازو فضائیہ اور بحریہ کی قیادت بھی اجلاس میں موجود نہیں تھی۔ (کم از کم کسی اخباری اطلاع سے ان کی موجودگی کا عندیہ نہیں ملا)

درپیش علاقائی صورتحال اور سیاسی تناؤ کی موجودگی میں یہ اجلاس ایک مثبت اور خوشگوار واقعہ ہے۔ پارلیمانی نظام میں ریاست کے محکمے اپنے اپنے فرائض منصفی اور کارکردگی سے متعلق مختلف کمیٹیوں کے ذریعے واقعات اپنے اقدامات اور ان کے ثمرات و مضمرات کے متعلق آگاہی فراہم کرتے ہیں۔ سابق امریکی صدر بش جونیئر افغانستان پر حملہ آور ہونے اور باراک اوباما افغانستان سے اپنی افواج کے انخلاء کے لئے حتمی فیصلے کرنے سے قبل پینٹا گون سی آئی اے اور اپنے اپنے درد کے قومی سلامتی کے مشیروں کے اجلاس میں مطلوب اقدامات کے مختلف پہلوؤں کا ہمہ جہت جائزہ سے لیتے رہے ہیں ایسے اجلاسوں میں امریکی فوج کے کمانڈر پینٹا گون کے مجاز اہلکار اور سی آئی کے سربراہ یا دیگر افسران اپنی سیاسی قیادت کو مشاورت کی سطح پر مختلف امکانات کی جانب متوجہ کرتے رہے۔ جبکہ یکم جولائی کو پارلیمان ہاؤس میں ہونے والی بریفنگ کے اندازے سے شبہ ہوتا ہے جسے حکومت اور اراکین پارلیمان کو واقعات کی صورت گری بتانے کے ساتھ ساتھ دفاعی ادارے کی آئندہ حکمت عملی سے بھی مطلع کیا گیا ہے شاید اسی سبب سے اخبارات نے ایک صفحے والا جملہ سرخی کے ساتھ چھپایا ہے۔

پارلیمانی سیاسی قیادت، ملکی پالیسی سازی تشکیل دینے کی آئینی مجاز اتھارٹی ہے۔ پارلیمنٹ جس قسم کی پالیسی وضح کرے اس پر حکومت کے ماتحت تمام اداروں پر عمل آئینی طریقہ اور آئین کی بالادستی ہے۔ گزشتہ روز قومی سلامتی و دفاع کے امور زیر بحث تھے۔ وزیرخارجہ تشریف فرما تھے مناسب ہوتا کہ محکمہ خارجہ کے افغان، بھارت اور امریکہ چین ڈیسک کے افسران یا سیکرٹری خارجہ بھی شریک مجلس ہوتے یا بہتر ہوتا اگر مذکورہ ممالک میں تعینات ملکی سفراء کو بھی مدعو کر لیا جاتا۔

اطلاعات کے مطابق شاید اسی وجہ سے وہ معاملات طے نہ ہو سکے جو ایجنڈے کا حصہ تھے چنانچہ 15 جولائی کو دوبارہ ان کیمرہ اجلاس بلانے کا فیصلہ ہوا ہے۔ باہمی مشاورت کی کمزور روایت مضبوط رہے تو، میں سمجھتا ہوں جو عمل شروع ہوا ہے اس کی تحسین ہونی چاہے اسی راہ پر چلتے ہوئے مملکت پاکستان پارلیمانی جمہوری آئینی ریاست بننے سمیت اگلے پڑاؤ میں داخل ہو کر اپنی مثبت روایات تشکیل دے سکے گی۔

اجلاس کے شرکاء کو مطلع کیا گیا کہ ”پاکستان نے افغان امن عمل میں اخلاص کے ساتھ نہایت مثبت اور ذمہ دارانہ کردار ادا کیا۔ پاکستان کی بھر پور کاوشوں سے افغان دھڑوں اور متحارب گروپوں میں مذاکرات کی راہ ہموار ہوئی امریکہ اور طالبان کے درمیان بھی باہمی مذاکرات ہوئے“

یقیناً حقائق متذکرہ بیان کی تائید کرتے ہیں تاہم متحمین نگاہی سے رکھیں تو اس کہانی میں ہمارے مقتدر حلقوں نے معاملات کو سمجھنے اور دور اندیشی سے کام لینے میں تساہل برتا ہے۔ چنانچہ اب افغانستان کی صورتحال جس تیزی سے بدل رہی ہے تشدد اور تصادم کے خطرات جنم لے رہے ہیں ان کی مذاکراتی عمل سے قبل یا دوران میں پیش بندی ممکن تھی۔ امریکہ سے گلہ کرنا فضول ہے کہ اس نے طالبان کے ساتھ یک طرفہ طور پر معاہدہ امن کر کے افغانستان کے سیاسی منظر نامے میں افغان طالبان کی سیاسی مثبت میں پیش بہا اضافہ کر کے تاریخی غلطی کی ہے۔

قیاس ممکن ہے کہ واشنگٹن افغانستان کو ایک بار پھر بربور کشی کے جہنم میں دھکیل کر خطے میں کثیر ملکی باہمی تعاون تجارت و صنعتی ترقی کے عمل کو سبوتاژ کر نا چاہ رہا ہو جس کے لئے افغانستان میں اقتدار کی سطح کشمکش بھیانک انداز میں امریکی مفادات کے لئے کردار کر سکتی ہے۔ افغان طالبان کو امریکہ کے ساتھ میز پر لانے سے قبل پاکستان اگر طالبان کو رضامند کر لیتا تو وہ امریکہ کے ساتھ معاملات طے پانے غیر ملکی افواج کے انخلاء کے بعد ہتھیار بندی ختم کریں گے اور سیاسی ذرائع پر عمل کرتے ہوئے پرامن انداز میں افغانستان کے اقتدار تک رسائی کی کوشش کریں گے تو شاید موجودہ کشیدگی اور تصادم کی صورتحال کا قبل از وقت تدارک ہوجاتا، مگر اب تو وقت کا تیر ہاتھ کی کمان سے نکل چکا۔

اس بریفنگ سے قبل جناب وزیراعظم نے بجٹ منظوری کے بعد قومی اسمبلی میں پالیسی بیان داغ دیا تھا، چونکہ یہ طے تھا کہ وہ بریفنگ میں شرکت کا تکلیف نہیں کریں گے چنانچہ انہوں نے باہم متضاد المعنی جملے استعمال کیے اور فرمایا کہ ہم افغانستان میں امن کے لئے تو امریکہ کے ساتھ ہوں گے مگر جنگ کے لئے نہیں۔ لہذا امریکہ کو کسی قسم کے فوجی اڈے نہیں دیں گے، جناب عمران خان ایک ماہ قبل امریکہ سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ مسئلہ کا سیاسی حل تلاش کیے بغیر انخلا نہ کرے، اس خطاب میں فرمایا کہ افغانستان میں اقتدار کے لئے جنگ ہوئی تو پاکستان اس سے بہت بری طرح متاثر ہوگا ہم نے سرحد پر باڑ لگا لی ہے۔

ضرورت پڑی تو بارڈر بھی بند کریں گے تاکہ متحارب فریقین یا متاثرہ افغان عوام ہجرت کر کے پاکستان داخل نہ ہو پائیں۔ وزیراعظم کے خطاب نے اصلاً ان کیمرہ بریفنگ کو مجہول بنانے اور اپنی سیاسی اتھارٹی ظاہر کرنے کے لئے سفارتی۔ اور صباست نظر انداز کرتے ہوئے وہ سب کچھ کہہ دیا جو جذباتی تسکین کے لئے مفید مگر ملکی معاملات کے لئے ضرر رساں ثابت ہو سکتا ۔

بریفنگ کے بعد صحافیوں کے سوال کا جواب دیتے ہوئے جناب جنرل قمر جاوید باجوہ نے ایک اہم نکتہ عیاں کر دیا ہے جس پر بحث مرتکز ہونی چاہے ہے۔ انہوں نے فرمایا ”افغان تنازعہ کے باعث 5 سے 7 لاکھ افغان مہاجرین کی پاکستان آمد متوقع ہے۔“ ”لفظ“ متوقع بہت اہم ہے۔ جس میں رضا مندی اور دعوت کا مفہوم بھی موجود ہے شاید جنرل صاحب نے خدشہ کا لفظ کہا ہو۔ مگر جنگ اخبار میں متوقع ہی رقم ہوا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ افغانستان کے حالات میں تیزی سے آئی ہوئی تبدیلی کے اسباب سمجھنے کا ہے افغان طالبان نے امریکہ اتحادی افواج کے اپنی سرزمین پر قبضہ کی مزاحمت کی۔ بیس سالہ جنگ نتیجہ خیز نہیں ہوتی نہ امریکہ افغانستان پر فتح کا پرچم لہرا سکا نہ افغان طالبان اتحادی افواج کو شکست دے۔ مزاحمت کار (طالبان) کابل حکومت اور اتحادی افواج کے خلاف چھاپہ مار کارروائیاں کرتے رہے چھاپہ مار کارروائی حالات مخدوش کر سکتی ہے کسی منتظم فوج پر غلبہ حاصل نہیں کر سکی، بالآخر پاکستان کے تعاون سے طالبان اور امریکہ نے دو ماہ میں طویل مذاکراتی عمل کے بعد امن معاہدہ پر اتفاق کیا اور امریکی اور اتحادی افواج کے انخلاء کے دورانیہ طے پایا۔

اصولا اس معاہدے کے تکمیل کے بعد افغان طالبان کے لئے کا بل حکومت کے خلاف مسلح کارروائیوں کا سلسلہ ختم ہوجانا چاہے تھا مگر اس کے بر عکس طالبان کے فوجی پیشقدمی جاری رکھی اب وہ کابل سے ایک گھنٹہ کی مسافت کی دوری پر ہیں تو دوسری جانب کابل حکومت اور شمالی اتحاد بھی صف بندی میں مصروف ہے۔ افغان نیشنل آرمی میں اکثریت شمالی اتحاد سے تعلق رکھنے والے قومی گروہوں کی ہے۔ طالبان کے مقابلے کا عزم کر ہے ہیں۔ طالبان کی اکثریت پشتون ہے جو پاکستان سے ملحقہ سرحد کے ساتھ ساتھ آباد ہیں، جنگ کی صورت میں جو بحران پیدا ہوگا اس کے ہمہ جہت اثرات ہیں جن میں افغانستان سے پناہ کے لئے پاکستان کا رخ کرنے والے لاکھوں افراد ایک تشویشناک پہلو ہے۔

حالات کو انتہائی دگر گوں ہونے سے بچانے کا واحد راستہ طالبان کی جانب جنگجوئی چھوڑ کر سیاسی عمل میں شرکت پر آمادہ عمل ہونے میں مضمر ہے۔ ایسا ایک ہی صورت میں ممکن ہے کہ پاکستان میں ان محفوظ ٹھکانے کار آمد نہ رہیں نیز امریکی افواج جو اس وقت انخلاء کرتے ہوئے اپنا بیشتر فوجی ساز و سامان۔ (باقاعدہ حکمت عملی کے تحت) طالبان کو سونپ رہی ہیں یہ اطلاع بھی طالبان کو بزور طاقت کابل پر قبضہ کرنے کی ترغیب ہے، لیکن اگر پاکستان افغانستان میں حالات پر امن رکھنے میں سنجیدہ ہے تو اسے 5 سے سات لاکھ افغان مہاجرین کی آمد کی توقع رکھنے کے برعکس افغان طالبان پر دباؤ بڑھانا چاہے تاکہ وہ سیاسی ذرائع سے مسئلہ حل کرنے پر آمدہ ہوں، یاد رکھنا چاہے کہ افغانستان کی سرحد سے متصل پاکستان کے بیشتر علاقوں میں افغان طالبان یا ان کے ہم خیال ہزاروں کی تعداد میں موجود ہیں اگر افغانستان میں تصادم بڑھ گیا تو پاکستان میں موجود طالبان کی افرادی قوت اثر و رسوخ کو اس سے علیحدہ رکھنا دو معیاری تلوار پر چلنے جیسا ہوگا، جنگ کا تدارک تبھی ممکن ہے جب طالبان کو یقین ہو کہ انہیں زبردست مزاحمت کے ساتھ کسی بھی سمت سے محفوظ ٹھکانے اور حمایت نہیں ملے گی، اس مقصد کے لئے اگر جناب عمران خان اپنے بیان کی روشنی میں (امریکہ کو انخلاء سے قبل سیاسی حل نکالنا چاہے ) کے تحت مشروط طور پر امریکہ کو وہ سہولت دینے پر غور کرنا چاہے جو افغان طالبان کی پیش قدمی روکنے میں معاون ثابت ہو، ایسا عمل افغانستان میں برادر کشی روکنے اور آزاد خود مختار جمہوری مستحکم افغانستان کا قیام ممکن بنا سکتا ہے۔ فیصلہ سازی میں جذباتیت کی بجائے معروضی حقیقت پسندی اولیت کی متقاضی ہونی چاہے ۔

اس امر کا بھی خدشہ موجود ہے کہ پاکستان کی جانب سے افغان طالبان کی بڑھتی پیش قدمی میں تعاون نہ ملنے پر افغان طالبان، اپنے ذرائع سے یا اپنے اتحادی ٹی ٹی پی کو پاکستان کے اندر بدامنی پھیلانے کے لئے استعمال کر کے پاک افغان سرحد پر عسکری توجہ کو تقسیم کردیں،

کیا ہم افغانستان میں امن کے قیام اور وہاں کی جائزہ قانونی حکمرانی کو تسلیم کرنے کے لئے افغان بحران سے الگ رہ کر مفید نتائج کی توقع کر سکتے ہیں؟

اگر طالبان بزور قوت کابل پر قبضہ کر لیں تو کیا پاکستان ان کی حکومت کو تسلیم کرنے کا متحمل ہوگا؟

افغانستان میں امن و استحکام، پاکستان میں امن و استحکام کے لئے ناگزیر ہے تو دونوں ممالک اس کا حصول پر امن جمہوری سیاسی عمل پر بلا تردد عمل اور رکاوٹوں سے گریز سے ممکن ہے۔

گوادر بندرگاہ کو وسطی ایشیاء کے لئے تجارتی گیٹ وے بنانے اور سی پیک کی کامیابی کے لئے افغانستان میں امن انتہائی ناگزیر ہے۔

طالبان سمجھتے ہیں کہ افغان عوام کی اکثریت ان کے ساتھ ہے تو بندوں چھوڑ کر چند دن (بیلٹ بکس) کا راستہ اپنائیں اسی میں پاک افغان برادر اقوام ممالک کی بھلائی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments