کیا ساگ واقعی آپ کو طاقتور بناتا ہے؟


ہو سکتا ہے کہ آپ پنجاب کی مشہور سوغات بیسن کی روٹی، ساگ، لسی اور مکھن کے پیڑے کے شوقین ہوں اور آپ کو بتایا جاتا ہو کہ ساگ صحت کے لیے بہت مفید ہے۔

یا اگر آپ نے ”پوپائے دی سیلر“ کے کارٹون اور رابن ویلیم کی لائیو ایکشن فلم دیکھی ہو۔ اور اسی وجہ سے آپ کے ذہن میں یہ خیال جاگزیں ہو کہ مضبوط پٹھوں کے لیے ساگ کا استعمال بہت ضروری ہے۔

لیکن یہ سوچ آئی کہاں سے؟ اس کے لیے آپ کو کا ملک کارٹون نگار ”ایلزی کرائیسلر سیگر“ کا شکر گزار ہونا پڑے گا جنھوں نے الینوائے شکاگو میں اپنے گاؤں کے ایک اجڈ اور زیادہ شراب پینے والے ایک شخص سے متاثر ہو کر یہ کردار تخلیق کیا تھا۔ انہوں نے اس کردار کو ”پوپائے“ کا نام دیا جسے ایک ملاح کے روپ میں سنء 1929 ء میں ایک کامک پٹی کی صورت میں اخبار میں شائع کیا گیا۔ سنء 1933 ء میں جب پوپائے کو ایک کارٹون سیریز ”تھمبل تھیٹر” میں پیش کیا گیا تو یہاں اسے اپنے دشمنوں کا مقابلہ کرنے کے لیے فوری طاقت پانے کے لیے ساگ کھاتے دکھایا گیا۔ جب کبھی پوپائے کو دشمن سے شکست ہونے لگتی تو وہ ساگ کا ایک ڈبا (کین) کھا کر فوری طاقت پاء کر ان کی خوب ٹھکائی کرتا۔ خاص طور پر ایک رقیب“ بلوٹو ”جو کہ اپنے ڈیل ڈول میں پوپائے سے زیادہ طاقتور ہوتا تھا لیکن ساگ کی صورت میں کسی خفیہ کشتے سے محروم تھا چنانچہ پوپائے کے ساگ کھانے کے بعد اس کی خوب پٹائی ہوتی۔

پوپائے کی طاقت کا یہ منبہ اس کی کہانی سے بھی زیادہ پائیدار ثابت ہوا۔

لیکن یہ سوال کہ کیا ساگ واقعی ہمیں طاقتور بنا دیتا ہے، کا جواب ماہرین یوں دیتے ہیں کہ یہ معاملہ تھوڑا سا پیچیدہ ہے۔

سائنس ساگ کے ہمیں طاقتور بنانے کے سوال کا جواب یہ دیتی ہے کہ ساگ میں کافی زیادہ ”نائیٹریٹ“ پائی جاتی ہے جو کہ پٹھوں کی قوت برداشت کو تقویت بخشتی ہے۔ یہ کہنا ہے یونیورسٹی آف اوکلوہاما کے شعبۂ خوراک کی سائنس کے سربراہ نورمن ہورڈ کا۔ کسی بھی ورزش یا جسمانی مشقت کے دوران یہ نائیٹریٹ تیزی سے خرچ ہوتے ہیں اور جسم کو ان کی دوبارہ فراہمی کا مطلب ورزش کرنے والے پٹھوں کو زیادہ طاقت لگانے کا موقع فراہم کرنا ہے۔ ہورڈ نے بتایا کہ اس حوالے سے مزید تحقیقات بھی کی جا رہی ہیں تاکہ پتا چل سکے کہ پٹھوں میں زیادہ نائیٹریٹ کی فراہمی سے ان کی طاقت اور کارکردگی میں کتنی بہتری آ جاتی ہے۔

جسمانی ورزش اور تندررست رہنے کے مشورے دینے والے ٹموتھی فیرس اپنی کتاب ”دی فور آور شیف“ میں کم کاربوہائیڈریٹ پر مشتمل ایسی غذاء جس میں انڈے، گوشت، دالیں، مچھلی اور ساگ شامل ہوں، کو تیزی سے وزن گھٹانے اور جسمانی پھرتی میں اضافہ کرنے کا سب سے تیز رفتار نسخہ قرار دیتے ہیں۔ یہ تجویز بھی ہورڈ کے اس بیان کی تائید کرتی ہے کہ ساگ میں ”حیاتین (وٹامن) کے“ ہوتا ہے جو کہ فشار خون کا دباؤ کم کرتے ہوئے دل کی بیماری لاحق ہونے کے امکانات کم کرتا ہے۔

اگر ساگ کو اتنا زیادہ نہ پکایا جائے کہ اس کی شکل ہی بگڑ جائے تو اس میں حیاتین (وٹامن) سی بھی بڑی مقدار میں ہوتا ہے۔ ساگ میں کسی قسم کی چربی یا کولیسٹرول نہیں پایا جاتا جو کہ دل اور شریانوں کے لیے اچھی چیز ہے۔ ہیرولڈ مک جی جو کہ کھانا پکانے کی سائنس پر تحقیق کے شعبے کے ڈین ہیں، یہ دلیل دیتے ہیں کہ پٹھوں کی تعمیر و ترقی کے لیے ساگ کے کئی متبادل ذرائع موجود ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ساگ میں فولاد کی زیادہ مقدار نہیں پائی جاتی، البتہ یہ حیاتین الف (وٹامن اے ) حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ضرور ہے۔ انہوں نے یہ بات اپنی کتاب ”فوڈ اینڈ کوکنگ، دی سائنس اینڈ لور آف کچن“ جو کہ اب ایک کلاسک قرار دی جاتی ہے، میں لکھی ہے۔

یہ فولاد آپ کے ڈھلتے پٹھوں کو توانا اور مضبوط کرنے کے لیے ضروری ہوتا ہے۔

اٹلانٹا، جارجیا کے ماہر خوراک رہاف البوچی ساگ کے انسانی صحت پر مجموعی بہتری کے اثرات کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں لوگوں کو اپنی خوراک میں ساگ شامل کرنے کی ضرور ہدایت کرتا ہوں کیونکہ یہ مختلف اینٹی آکسیڈنٹ اور حیاتین جیسے کہ فولیٹ، مگنیشیم، حیاتین الف، اور فائبر سے بھرپور ہوتا ہے جو کہ ہمیں مستقل لاحق ہونے والے عارضوں سے بچاتے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی اس میں ایسے اجزاء ہوتے ہیں جو کہ انسانی جسم کو بہت سے فوائد پہنچاتے ہیں۔

ساگ میں بہت مقدار میں لوٹین پایا جاتا ہے جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ آنکھوں کی صحت کو بہتر بناتا اور وقت گزرنے کے ساتھ پٹھوں کو پہنچنے والے ضعف کو کم کرتا ہے۔ جو کہ پچپن سال یا اس سے زائد العمر افراد کی صحت کے حوالے سے ایک سنجیدہ مسئلہ ہے۔ ساگ کو جتنا زیادہ پکایا جاتا ہے لوٹین کی مقدار اتنی ہی کم ہوتی چلی جاتی ہے لیکن اگر شوربے والا سالن بنایا جائے یا اس کا رس نکال کر پیا جائے تو لوٹین کی مقدار بڑھ جاتی ہے۔

فوڈ کیمسٹری نامی جریدے میں سنء 2019 ء میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق سبز پتوں والی سبزیاں جیسے کہ براکولی، بند گوبھی اور ساگ وغیرہ دل کی بیماریوں اور فالج کے علاوہ بعض اقسام کے سرطان سے بھی تحفظ فراہم کرتی ہیں۔ سبز پتوں والی سبزی اپنی خوراک میں شامل کرنے سے ذہنی انحطاط کی رفتار سست پڑ جاتی ہے۔ جریدے نیورالوجی میں سنء 2018 میں 950 افراد پر شائع ہونے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ وہ افراد جو روزانہ ایک سو گرام یا اس سے کچھ زیادہ سبزی استعمال کرتے ہیں، وہ ذہنی صحت کے اعتبار سے ان افراد سے گیارہ سال جوان ہوتے ہیں جو اپنی خوراک میں کوئی سبزی استعمال نہیں کرتے۔ یہ فوائد اس وقت مزید بڑھ جاتے ہیں جب ان سبزیوں کو کچا یا ہلکا سا تل کر پکایا جائے۔

تو کیا ساگ استعمال کرنے کے کوئی نقصانات بھی ہیں؟

اپنی تمام تر خوبیوں کے باوجود پنجاب کی اس خاص سوغات اور پوپائے دی سیلر کی پسندیدہ خوراک کے کچھ نقصانات بھی ہیں۔ ساگ، خاص طور پر کچا ساگ کھایا جائے تو پیٹ میں گیس زیادہ پیدا ہوتی ہے۔ بعض افراد کو ساگ پھیکا محسوس ہوتا ہے لیکن اصل میں اس میں روزمرہ کی ضرورت کا سوڈیم موجود ہوتا ہے۔ اگر آپ کو یہ پھر بھی پھیکا محسوس ہو تو نمک کی بجائے لیموں کا رس شامل کرنے سے زیادہ بہتر محسوس ہوتا ہے۔ کیونکہ کھانوں میں زیادہ نمک شامل کرنا بہتر نہیں ہوتا۔

ہورڈ متنبہ کرتے ہیں کہ زیادہ مقدار میں کوئی بھی چیز کھانا صحت کے لیے اچھا نہیں ہوتا۔ ساگ میں اوکسیلک ایسڈ ہوتا ہے جو کہ مختلف نمکیات جیسے کہ کیلشیم کو جسم میں جذب ہونے سے روکتا ہے۔ زیادہ اوکسیلک ایسڈ گردوں میں کیلشیم کے پتھری بن کر پھنس جانے کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ اس لیے ایسے افراد کہ جو وراثتی اعتبار سے گردے کے مرض کا شکار ہو سکتے ہیں، کو ساگ احتیاط سے استعمال کرنا چاہیے۔

ساگ میں موجود ”حیاتین (وٹامن) کے“ خون کو پتلا کرنے والی دواؤں کی اثر پذیری میں خلل ڈالتا ہے۔ اس لیے وہ افراد جو خون کو پتلا کرنے والی دوائیں استعمال کر رہے ہوں، انہیں ساگ کھانے میں احتیاط سے کام لینا چاہیے۔

تو ان سب مسائل کو مد نظر رکھتے ہوئے ساگ کھا نے کا بہترین طریقہ کیا ہونا چاہیے؟

پوپائے کے پرستاروں سے تمام تر عزت و آداب کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے، ڈبے میں بند ساگ کو یوں کھانا زیادہ بہتر طریقہ نہیں ہوتا۔ بہت سے لوگ ساگ کو بطور سلاد کچا کھاتے ہیں اور یہ طریقہ عام طور پر کوئی مسئلہ پیدا نہیں کرتا۔ بس یہ بات ذہن نشین رہے کہ کچا ساگ ای کولائی، لسٹریا اور دیگر نقصان دہ جراثیموں کو آپ تک منقل کرنے کا اچھا ذریعہ ثابت ہوتا ہے۔ اسی لیے امریکی ادارہ سی ڈی سی کے ماہرین تجویز کرتے ہیں کہ یا تو ساگ اور دیگر کچی سلاد کو اچھی طرح کئی دفعہ پانی سے دھو لیا جائے یا چند قطرے زیتون کا تیل ڈال کر پندرہ سیکنڈوں کے لیے ایک سو ساٹھ درجہ سینٹی گریڈ پر تل لیا جائے تو اس سے تمام نقصان دہ جراثیم ختم ہو جاتے ہیں۔

تو کیا اس طرح ساگ کے استعمال سے آپ واقعی پوپائے دی سیلر کی طرح طاقت ور پٹھوں کے مالک ہو جائیں گے؟ نہیں لیکن جیسا کہ آپ اوپر پڑھ ہی چکے ہیں کہ ساگ آپ کی صحت کے لیے خاصا فائدہ مند ہے تو اگر آپ واقعی ساگ پسند کرتے ہیں تو ضرور کھائیں، بس ڈبے میں بند ساگ سے جتنا ہو سکے، اجتناب کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments