عشرہ ذی الحجہ اسلام کی روشنی میں!


ذی الحجہ ہجری کیلنڈر کے حساب سے قمری سال کا بارہواں اور آخری مہینہ ہے چونکہ اس میں اسلام کا عظیم رکن حج ادا کیا جاتا ہے، اس مناسبت سے اس کو ذی الحجہ کہا جاتا ہے۔ اللہ تعالی نے سال کے بارہ مہینوں میں جن بعض دنوں اور راتوں کو خاص فضیلت بخشی ہے ان میں ذی الحجہ کے شروع کے دس دن بھی شامل ہیں۔ قرآن کریم میں ارشاد ربانی ہے ”یقیناً مہینوں کی تعداد اللہ کے نزدیک بارہ مہینے ہے اللہ کی کتاب میں، جس دن اللہ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، ان میں سے چار حرمت والے ہیں“ (سورہ توبہ آیت نمبر 36 )

چار حرمت والے مہینوں میں سب سے آخری مہینہ ذی الحجہ کا ہے۔ باقی حرمت والے مہینے محرم الحرام، رجب المرجب اور ذی القعد ہیں۔ یہ مہینے لوگوں میں شروع ہی سے قابل احترام چلے آرہے ہیں اس لئے اسلام سے پہلے دیگر مذاہب میں بھی ان مہینوں میں لڑائی جھگڑے اور جنگ و قتال سے منع فرمایا گیا تھا۔ ذی الحجہ کے پہلے عشرہ کی بہت بڑی فضیلت ہے۔ اس کو قرآن پاک نے ”ایام معلومات“ کے نام سے بھی ذکر کیا ہے۔ اس ماہ کی آٹھویں تاریخ کو یوم ترویہ اور نویں کو یوم عرفہ کہتے ہیں اللہ تعالیٰ نے اس مہینہ کی پہلی دس راتوں کی قسم اٹھائی ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ و الفجر ولیالٍ عشرٍ ”قسم ہے فجر کے وقت کی، اور دس راتوں کی،

بعض مفسرین کے ہاں فجر کے وقت سے خاص ذی الحجہ کی صبح اور دس راتوں سے اسی مہینے کی پہلی دس راتیں مراد ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ”کوئی دن ایسا نہیں ہے کہ جس میں نیک عمل اللہ تعالیٰ کے یہاں ان (ذی الحجہ کے ) دس دنوں کے نیک عمل سے زیادہ محبوب اور افضل ہو“ ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: یارسول اللہ! کیا ان دنوں میں کیے جانے والا عمل اللہ کے راستے میں جہاد کرنے سے بھی بڑھ کر ہے؟

آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ”اللہ کے راستے میں جہاد کرنے سے بھی بڑھ کر ہے مگر وہ شخص جو جان اور مال لے کر اللہ کے راستے میں نکلے، پھر ان میں سے کوئی چیز بھی واپس لے کر نہ آئے“ (سب اللہ کے راستے میں قربان کردے، اور خود بھی شہید ہو جائے تو یہ ان دنوں میں کیے جانے والے نیک عمل سے بھی بڑھ کر ہوگا) صحیح بخاری

معلوم ہوا کہ ذی الحجہ کے پہلے دس ایام میں کیا گیا نیک عمل دیگر دنوں میں کیے گئے نیک اعمال سے اللہ تبارک و تعالیٰ کو زیادہ محبوب اور افضل ہے۔

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کے یہاں (ذی الحجہ کے ) دس دنوں کی عبادت سے بڑھ کر عظیم اور محبوب تر کوئی عبادت نہیں لہٰذا ان میں“ لا الہ الا اللہ، اللہ اکبر، الحمد للٰہ ”خوب کثرت سے پڑھا کرو۔ (احمد)

لہٰذا ان مبارک دنوں میں غیر ضروری تعلقات سے ہٹ کر اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اطاعت بہت لگن اور توجہ کے ساتھ کرنی چاہیے، خاص کر اللہ تعالیٰ کی یاد میں مشغول رہنا، ذکر و فکر، تسبیح و تلاوت، صدقہ، خیرات اور نیک عمل میں کچھ نہ کچھ اضافہ کرنا، گناہوں سے بچنے کا اہتمام کرنا اور حسب توفیق روزے رکھنا۔

اس عشرہ کے ساتھ خاص کچھ احکام
( 1 ) نو ذی الحجہ اور اس کے روزے کے فضیلت

نو ذی الحجہ کا دن مبارک دن ہے، اس دن میں حج کا سب سے بڑا رکن ”وقوف عرفہ“ ادا کیا جاتا ہے، اور اس دن بے شمار لوگوں کی بخشش اور مغفرت کی جاتی ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے اس دن کی برکات سے غیر حاجیوں کو بھی محروم نہیں فرمایا اور اس دن روزے کی عظیم الشان فضیلت مقرر کر کے سب کو اس دن کی فضیلت سے اپنی شان کے مطابق مستفید ہونے کا موقع عنایت فرمایا۔

حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے عرفہ (یعنی نو ذی الحجہ ) کے روزہ کے بارے میں پوچھا گیا تو رسول کریم ﷺ نے فرمایا: (نو ذی الحجہ کا روزہ رکھنا) ایک سال گزشتہ اور ایک سال آئندہ کے گناہوں کا کفارہ ہے۔ (مسلم)

( 2 ) عرفہ کے دن کی فضیلت ہر شخص کو اس ملک کی تاریخ کے اعتبار سے حاصل ہوگی جس ملک میں وہ شخص موجود ہے۔ جیسا کہ عید الاضحی ہر شخص اپنے ملک کی تاریخ کے اعتبار سے کرے گا اسی طرح عرفہ بھی عید الاضحی سے ایک دن پہلے شمار ہوگا۔

بعض لوگ عرفہ کے دن کسی ایک مقام پر اکٹھے اور جمع ہونے کو ثواب سمجھتے ہیں اور عرفات میں حاجیوں کے اجتماع کی مشابہت کرتے ہیں۔ اس کی شریعت میں کوئی اصل نہیں بلکہ بے بنیاد اور من گھڑت بات ہے، لہٰذا اس سے سختی سے اجتناب کرنا چاہیے۔

( 3 ) قربانی کا عمل
یوم النحر یعنی 10 ذی الحجہ کا دن۔
قربانی ہر صاحب استطاعت کو کرنی چاہیے۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

ذی الحجہ کی دسویں تاریخ یعنی عید الاضحی کے دن آدم کے بیٹے کا کوئی عمل اللہ کو قربانی سے زیادہ محبوب نہیں، اور قربانی کا جانور قیامت کے دن اپنے سینگوں اور بالوں اور کھروں کے ساتھ (زندہ ) آئے گا اور قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کی رضا اور مقبولیت کے مقام پر پہنچ جا تا ہے پس اے خدا کے بندو! دل کی پوری خوشی سے قربانیاں کیا کرو ”(ترمذی

قربانی 10 ذی الحجہ کو سب سے افضل ہے باقی گیارہ اور بارہ کو بھی کی جا سکتی ہے۔
( 4 ) عشرہ ذی الحجہ میں بال اور ناخن کا حکم۔

حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب تم ذی الحجہ کا چاند دیکھ لو، اور تم میں سے کسی کا قربانی کا ارادہ ہو تو وہ جسم کے کسی حصہ کے بال اور ناخن نہ کاٹے۔ (صحیح مسلم)

بال اور ناخن نہ کاٹنے کا حکم صرف قربانی کرنے والے کے لئے ہے، اس کے اہل و عیال، یا اس نے اگر کسی کو اپنی طرف سے قربانی کرنے کا وکیل بنایا ہو) کو یہ حکم شامل نہیں، احناف کے ہاں یہ مستحب ہے فرض یا واجب نہیں، لیکن بعض فقہاء کرام کے ہاں یہ حکم وجوب کے لئے ہے اور اس پر عمل نہ کرنے والا ان کے نزدیک گناہ گار ہوگا لہٰذا احتیاط اس حکم پر عمل کرنے میں ہے نیز یہ حکم قربانی کرنے والے مرد اور عورت دونوں کے لئے ہے۔

اگر زیر ناف بال یا ناخنوں کو لئے ہوئے چالیس دن یا زیادہ کا عرصہ گزرا ہو تو یہ حکم نہیں، بلکہ صفائی ضروری ہے۔ بال اور ناخن نہ کاٹنے کا تعلق قربانی سے ہے عید کے دن سے نہیں اس لئے جب تک قربانی کرنے والے کا جانور ذبح نہ ہو اس حکم پر عمل پیرا رہے۔ اس کی ابتداء ذی الحجہ کے چاند کے طلوع سے اور انتہاء قربانی کرنے والے کے جانور کے ذبح ہونے پر ہوگی۔

( 5 ) تکبیرات تشریق پڑھنا۔
تکبیرات تشریق یہ ہیں : ”اللہ اکبر اللہ اکبر لا الٰہ الا اللہ واللہ اکبر اللہ اکبر وللٰہ الحمد۔“

اس ماہ کے پہلے دس دنوں میں کثرت کے ساتھ اللہ تعالی کے ذکر کرنے کی ترغیب آئی ہے۔ ارشاد ربانی ہے : واذکرواللہ فی ایامٍ معدوداتٍ، اور یاد کرو اللہ کو گنتی کے دنوں میں۔ (بقرة)

امام بخاری فرماتے ہیں کہ: ان دس دنوں میں حضرت عبداللہ ابن عمر اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنھما تکبیر کہتے ہوئے بازار نکلتے اور لوگ بھی ان کے ساتھ تکبیر کہنا شروع کردیتے تھے۔

لیکن خاص کر نو ذی الحجہ کی فجر سے لے کر تیرہ ذی الحجہ کی عصر تک پانچ دنوں میں تکبیرات تشریق کی خاص تاکید اور فضیلت ہے۔

فقہاء احناف کے نزدیک صحیح تر قول کے مطابق تکبیرات تشریق نو ذی الحجہ کی فجر سے لے کر تیرہ ذی الحجہ کی عصر تک ہر فرض نماز کے بعد ایک مرتبہ پڑھنا واجب ہے جبکہ بعض دیگر فقہاء کے ہاں تکبیرات تشریق پڑھنا سنت ہے

( 6 ) دعاء کا اہتمام کرنا۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

’سب سے بہترین دعا عرفہ کے دن کی دعا ہے، اور سب سے افضل دعا جو میں نے اور مجھ سے پہلے انبیاء علیھم السلام نے کی وہ یہ ہے : لا الہ الا اللہ وحدہ لاشریک لہ، لہ الملک ولہ الحمد وھو علی کل شئی قدیر ”(ترمذی ) اللہ تعالی ہم سب کو ان مبارک دنوں سے بھر پور طریقے سے مستفید ہونے کی توفیق عطاء فرمائے اور ہمارے لئے ان دنوں کو نجات کا ذریعہ بنائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments