افغانستان کی بدلتی صورت حال اور بلوچ مقدمہ


افغانستان میں بیس سالہ طویل جنگ جسے بائیڈن انتظامیہ اور اس کے ناقدین ”forever war“ کہتے رہے ہیں، امریکہ نے اس کے اختتام کا بگل بجا دیا ہے۔ افغانستان سے اب آخری اہم فوجی اڈہ بھی امریکہ خالی کر چکا ہے۔ اور مکمل فوجی انخلا اپنے آخری مراحل میں ہے۔

امریکی افواج کے انخلا کے ساتھ ہی خطے کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے ماہرین کو ایک واضح پاور ویکیوم جنم لیتا نظر آ رہا ہے۔ اور موجودہ پاور ویکیوم نائن الیون کے بعد طالبان حکومت کے ختم ہونے کے بعد جنم لینے والی صورت حال سے زیادہ خطرناک اور پیچیدہ ہے۔ ایک انارکی کی سی کیفیت ہے۔ طالبان کے خلاف اگرچہ دفاعی پوزیشن اختیار کیے افغان حکومت کی بری اور فضائی کارروائیاں جاری ہیں، افغان صدر کے واشنگٹن دورے کے بعد امریکی امداد کا اعلان بھی ہو گیا ہے، مگر نا صرف افغانستان سے ملحقہ پورے خطے بلکہ افغانستان کے حوالے سے عالمی سیاسی منظرنامے پر بھی ایک غیر یقینی صورتحال چھائی ہوئی ہے۔

اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ آنے والے کچھ ہی عرصے میں افغانستان میں جو صورت حال بنے گی، اس کے ارد گرد کے پورے خطے پر غیرمعمولی اثرات مرتب ہوں گے۔ موجودہ بیس سالہ طویل جنگ کے تمام اندرونی اور بیرونی سٹیک ہولڈرز مستقبل قریب میں پیدا ہونے والی اس غیر یقینی صورت حال سے نمٹنے کے لیے سر جوڑ کر بیٹھ گئے ہیں۔

مگر ایک سکوت طاری ہے تو وہ بلوچستان اور بلوچ حلقوں میں ہے۔ جب روسی افواج افغانستان میں داخل ہوئی تھیں تو تب بھی بلوچ سیاسی قائدین اور دانشوران قوم ہوا کے رخ کا انتظار کر کے ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے تھے کہ اب روسی افواج اپنے ٹینکوں سمیت یہاں بھی داخل ہوں گی اور فوراً حالات سنور جائیں گے۔ مگر کوئی اپنی واضح پالیسی نہیں تھی۔ کوئی موثر سٹریٹجی نہیں تھی۔ صرف خاموشی سے اونٹ کے کروٹ بدلنے کا انتظار تھا۔ اور افغان روس جنگ کے جو مہلک اثرات بلوچستان کی سیاسی، اقتصادی اور سماجی ڈھانچوں پر پڑے، ان کے بوجھ تلے آج تک ہم دبے ہوئے ہیں۔

روس افغان جنگ، اس کے بعد افغانستان میں خانہ جنگی، طالبان کا اقتدار پر قبضہ، پھر امریکہ کی موجودہ دو دہائیوں پر مشتمل جنگی داستان اور اب بالآخر امریکی افواج کا انخلا ۔ چالیس سالوں پر مشتمل ان تمام ادوار اور مراحل میں بلوچستان کی سرزمین اور اس کی افرادی قوت کو براہ راست ان جنگوں میں جھونکا گیا۔

پاک انسٹیٹیوٹ فار پیس سٹڈیز (PIPS) پاکستانی صحافیوں، سکالرز اور محققین پر مشتمل ایک آزاد ریسرچ تھنک ٹینک ہے۔ 2012 میں اس ادارے نے Conflict and Insecurity in Balochistan کے نام سے ایک تفصیلی رپورٹ کتابی صورت میں شائع کی۔ یہ تحقیقی رپورٹ کسی مغربی تحقیقاتی ادارے یا بلوچستان کے کسی سرکاری یا غیر سرکاری ادارے کی رپورٹ نہیں۔ بلکہ اس کی مکمل تحقیق اور اشاعت خالصتاً مذکورہ ادارے نے ہی کی ہے۔ اگرچہ پاک افغان تعلقات اور گزشتہ دو دہائیوں کی اس جنگی داستان کے حوالے سے پورے پاکستان اور بالخصوص بلوچستان پر اس جنگ کے اثرات کے حوالے سے متعدد مقالے، مضامین اور کتابیں لکھی جا چکی ہیں۔ مگر ہم صرف اسی انڈیپینڈنٹ پاکستانی ادارے کی ہی رپورٹ کے کچھ ابواب کے مندرجات اور ان سے اخذ کیے گئے نتائج کا جائزہ لیں تو یہ اندازہ لگانا قطعاً مشکل نہیں ہوگا کہ ماضی میں افغانستان میں جاری جنگوں کے بلوچستان پر کیا اثرات پڑے تھے۔ اور اب مزید کیا خطرات بلوچستان پر منڈلا رہے ہیں۔

اس رپورٹ کے مطابق، افغانستان میں امریکی جارحیت کے فوراً بعد 2002 کے اوائل میں افغانستان سے جائے پناہ کی تلاش میں فرار ہونے والی طالبان قیادت کا مسکن کوئٹہ بنا۔ انہیں یہاں سے اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے کے لیے سہولیات و مراعات مہیا کی گئیں۔ طالبان رہنماؤں کو کوئٹہ میں طبی سہولیات فراہم کی گئیں۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں متحدہ مجلس عمل کی حکومت اور جمعیت علماء اسلام نے اپنے ہی پرورش کردہ جنگجوؤں کی آؤ بھگت اور امداد میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔

حتی کہ ملا عمر نے یہاں اپنے قیام کو The government in exile of the Islamic Emirate of Afghanistan قرار دیا۔ روس افغان جنگ میں ایک پاؤں سے معذور ہونے والے ملا داداللہ کاکڑ اور مولوی صادق حمید کو بلوچستان کے مساجد و مدارس سے بھرتیاں کرانے کی ذمہ داریاں سونپی گئیں۔ ہزاروں لوگوں کو یہاں سے بھرتی کر کے اندرون و بیرون بلوچستان ٹریننگ کیمپس میں عسکری تربیت کے لیے بھیجا گیا۔

یوں اسی رپورٹ کے مطابق مبینہ طور پر بدنام زمانہ کوئٹہ شوریٰ کے ذریعے بلوچستان میں پراکسی وار کھیلی گئی۔ افغانوں کا لہو بہانے کے لیے بلوچ سرزمین پر شمسی ائر بیس امریکیوں کو تحفے میں دی گئی۔ بعد ازاں 2009 میں TTP کی بلوچستان میں ایک شاخ TTB کھولی گئی اور اس کے لیے باقاعدہ ایک علیحدہ ترجمان انجینئیر اسد کو مقرر کیا گیا جو مبینہ طور پر کوئٹہ میں بیٹھ کر TTB کی پالیسی بیانات جاری کرتا تھا۔ کیچ مکران سے لے کر ڈیرہ مراد جمالی تک کے پوشیدہ علاقے گڈ اور بیڈ طالبان کی آماجگاہ بنے رہے۔

اس جنگ میں بلوچستان کو بطور ایندھن استعمال کرنے کی وجہ سے فرقہ ورانہ شدت پسند تنظیموں نے یہاں اپنے مضبوط اڈے قائم کیے۔ بلوچستان کو گولہ و بارود کی آگ میں جھونکا گیا۔ ہزاروں معصوموں کا فرقہ ورانہ بنیادوں پر خون بہایا گیا۔ ان مذہبی و فرقہ ورانہ شدت پسند تنظیموں کی وجہ سے بھتہ خوری، اغوا کاری، سمگلنگ اور ڈکیتی کا ایک بازار بلوچستان میں اس حد تک بام عروج پر پہونچا کہ بلوچستان سے ملحق افغان سرحد کو جنوبی ایشیا کا Golden Triangle For Drug Smuggling جیسا بدنام زمانہ نام ملا۔ لاکھوں افغان مہاجرین بلوچستان میں آباد ہوتے چلے گئے۔ بلوچستان کی ڈیموگرافک صورتحال یکسر بدل کر رہ گئی۔ اقتصادی صورت حال تباہ تر ہوتی چلی گئی۔ مگر کچھ نہ بدلا تو وہ ہمارے خاموش تماشائی بنے رہنے کی روش۔

عجیب قحط الرجال ہے۔ بلوچ قومی منظرنامے پر کوئی ایک بھی ایسا زیرک، دوراندیش اور عالمی سیاسی اتھل پتھل سے شناسا کرشماتی شخصیت کا مالک قومی رہنما نہیں ملتا جسے دیکھ کر کوئی امید کی کرن پیدا ہو۔ جسے یہ ادراک ہو کہ بلوچستان پر افغانستان کے موجودہ حالات کے کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ جو یہ ثابت کرنے میں کسی حد تک تگ و دو کرے کہ افغانستان کا ہمسایہ ہونے کی بنا پر افغانستان میں جنگ یا امن کے اثرات سب سے پہلے بلوچستان پر پڑیں گے۔

عالمی برادری کو یہ باور کرائے کہ ہم بھی ایک اہم سٹیک ہولڈر ہیں، اور افغانستان میں عالمی اور علاقائی طاقتوں کی رسہ کشی کی وجہ سے ہماری قوم ماضی میں براہ راست متاثر ہوتی رہی ہے۔ عالمی سطح پر کم از کم ذاتی اختلافات بھلا کر اجتماعی قومی مفادات کے حصول میں اکٹھے ہوں۔ مجال ہے کہ ہمیں کوئی ہلکا سا ارتعاش بھی ان میں دیکھنے کو ملے۔

قیادت کا بحران تو ہے ہی۔ مگر ساتھ ہی بلوچ دانشور طبقے کی بھی اس ساری صورتحال سے مکمل لاتعلقی زیادہ مایوس کن ہے۔ کیا بلوچستان یا بلوچستان سے باہر ہمارے پاس عالمی سیاست پر کوئی ایک بھی ایسا ماہر نہیں ہے جو اس صورت حال پر بلوچی قومی مفادات کو مدنظر رکھ کر کوئی عالمانہ اور ماہرانہ تجزیہ کرے؟ کیا ہم ایک بھی علاقائی یا عالمی سطح کا بہترین پولیٹیکل سائنٹسٹ پیدا نہیں کر سکے ہیں جو اپنے ٹھوس اور معیاری تجزیوں کے ذریعے اگر دنیا کی نہیں، تو کم از کم اپنی قوم کی ہی توجہ تو اس مسئلے کی جانب مبذول کر سکے؟ مگر نہیں۔ چہار سو نظر دوڑائیں، خاموشی ہی خاموشی۔

اور اب کل کو یہی قوم پرست پارلیمانی جماعتیں ایک بار پھر افغان مہاجرین کے نام پہ سیاست کریں گے، اور اس کے ذریعے اپنے لوگوں کی ہمدردیاں سمیٹیں گے۔ مردم شماری پہ واویلا کریں گے۔ نئی جنم لینے والی اقتصادی ناہمواری پر پرجوش تقریریں کریں گے اور ووٹ بٹوریں گے۔ مگر اب جب ماضی کی طرح بلوچستان کو ایک بار پھر کسی نادیدہ آگ میں جھونکا جا رہا ہے تو یہ چپ سادھے بیٹھے ہیں۔

ایک جانب ہماری غیرسنجیدہ موقع پرست پارلیمانی جماعتیں بجٹ اور تھانے کی سیاست میں لگ کر داد سمیٹنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ جبکہ دوسری طرف پشتون قوم پرست رہنما عسکری و پارلیمانی سیاسی قیادت کے مشترکہ قومی سلامتی اجلاس میں اپنی قوم کا مقدمہ لڑ رہے ہیں۔ پشتون قوم پرست حلقے افغانستان کی صورت حال کے حوالے سے ایک واضح موقف اور بیانیہ رکھتے رہے ہیں۔ حتی کہ کل سندھ کے وزیر زراعت اسماعیل راہو نے بھی بیان دیا کہ اب کی بار سندھ مہاجرین کو قبول نہیں کرے گا۔ اس بار ان کے لیے خیبرپختونخوا اور پنجاب میں کیمپس لگائے جائیں۔ کوئی نہ کوئی موقف تو سامنے آ رہا ہے ان کی جانب سے۔

جبکہ ہم ہمیشہ کی طرح نہ جانے کب تک کسی غیبی امداد کے انتظار میں رہنے کے بجائے ان سنجیدہ علاقائی اور عالمی مسائل پر واضح اور اجتماعی قومی بیانیہ سامنے لانے کی فکر کریں گے۔ بے آسرائی اور یتیمی ہے۔ اگر ایک طبقے نے قوم کو جذباتیت کے جھال میں گھیر کر رومینٹیسزم کا شکار بنا دیا ہے تو دوسرے نے لوگوں کے ایک ہجوم کو پارلیمانی غلام گردشوں میں جاری ہاتھا پائی اور لڑائی کا تماشا بین بنا دیا ہے۔ اگر دونوں میں کچھ قدرے مشترک نظر آ رہا ہے تو وہ سنجیدہ قومی معاملات اور علاقائی و عالمی صورتحال پر باہم متحد ہو کر پالیسی نہ دینے پر اتفاق ہے۔

تبھی اس حقیقت کو سمجھنے کے حوالے سے بھی ان تمام بلوچ حلقوں میں کوئی خاص دلچسپی نہیں پائی جاتی کہ امریکہ کے بلوچستان میں کثیر اقتصادی و عسکری مفادات ہیں۔ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد بلوچستان میں امریکی دلچسپی میں مزید اضافہ ہوا۔ بلوچستان کا آبنائے ہرمز Strait of Hormuz اور خلیج عمان Gulf of Oman سے قریب تر ہونے کی وجہ سے امریکہ اسے اپنے لیے ایک اہم سٹریٹجک خطہ تصور کرتا ہے۔ امریکہ بلوچستان کو اسے چین کے بالمقابل لا کھڑا کرنے کے لیے ایک منفرد جغرافیائی اہمیت کا حامل خطے کے طور پر دیکھتا رہا ہے۔ پاک چین اقتصادی کوریڈور کے حوالے سے امریکہ اپنے تحفظات کا اظہار تو براہ راست کرتا رہا ہے، کیونکہ گوادر میں چینی سرمایہ کاری کو امریکہ بحر ہند کے شمال مغربی حصے میں اس کی بڑھتی موجودگی سے جوڑتا ہے۔

تو اس سے واضح ہوتا ہے کہ افغانستان سے مکمل فوجی انخلا کے بعد بھی خطے میں امریکی موجودگی رہے گی۔ خطے میں اپنے مفادات کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے امریکہ خلیجی اور وسطی ایشیائی ممالک میں اپنی عسکری موجودگی کو برقرار رکھے گا جس کے حوالے سے ماسکو بھی اپنے تحفظات کا برملا اظہار کر چکا ہے اور وسطی ایشیائی ممالک میں کسی طرح کی امریکی عسکری موجودگی کی مخالفت کر چکا ہے۔ خطے میں موجود اہم عالمی طاقتوں کے درمیان اس رسہ کشی میں مزید اضافہ ہوگا۔ پراکسی جنگوں کی تاریخ دہرائے جانے کے خدشات پہلے سے بڑھ کر ہیں۔ اور ان کے مہلک ترین اثرات لا محالہ بلوچستان پر پڑھیں گے۔

اس غیر یقینی صورتحال اور مستقبل قریب میں منڈلاتے خطرات کا تقاضا یہی ہے کہ ہمارے یہاں سنجیدگی کا مظاہرہ کیا جائے۔ بلوچ سیاسی میدان کے جتنے سٹیک ہولڈرز ہیں، وہ اپنے اپنے سیاسی کیمپس میں کم از کم اس اس سنجیدہ معاملے کے حوالے سے یکجہتی کا مظاہرہ کریں۔ اسے ایک مشترکہ مسئلہ سمجھ کر باہم گفت و شنید کی جائے۔ ایک بحث کا آغاز کیا جائے۔ مکالمے کی فضا قائم کی جائے۔ وہ ماہر اذہان تلاش کیے جائیں جو عالمی سیاست پر گہری نظر رکھتے ہیں اور جن سے پالیسی میکنگ میں رہنمائی لے کر مشترکہ لائحہ عمل ترتیب دیا جا سکتا ہے۔ سیاسی و علمی راہشون قوم کو آگاہی دیں۔ اور جس کی جو ذمہ داری بنتی ہے، وہ اسے بروقت نبھائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments