انسانی اسمگلنگ


جدید معاشرے کو درپیش مسائل میں سے ایک سب سے بڑا اور اہم مسئلہ انسانی اسمگلنگ رہا ہے، جو کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مختلف شکلیں اختیار کرتا رہا ہے۔ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) اور واک فری فاؤنڈیشن کی ایک تحقیق کے مطابق انسانی اسمگلنگ کا نشانہ بننے والوں کی تعداد تقریباً 40 ملین ہے۔ عالمی سطح پر، اس تجارت کے ذریعے ہونے والے منافع کے مارجن سے انسانی اسمگلنگ کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے، جو کہ 150 بلین امریکی ڈالر ہے۔

پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے جو کہ افلاس، غربت، عوام کے لیے وسائل کی کمی اور حکومت کی اس طرح کے غیر انسانی عمل کے خلاف کارروائی کرنے میں ناکامی کی وجہ سے اس تجارت کا شکار ہو رہا ہے۔ بچے اور خواتین زیادہ تر انسانی اسمگلنگ کا شکار ہوتے ہیں۔ انسانی اسمگلنگ نے بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی ہے لیکن پاکستان میں کوئی اس انتقامی کارروائی کے خلاف آواز اٹھانے والا نہیں ہے۔ پاکستان کے دیہی علاقوں میں غریب اور پسماندہ طبقات ان اغوا کار گروہوں کا سب سے بڑا نشانہ رہے ہیں۔

یہ بچوں کو اغوا کر کے جنسی زیادتی کا نشانہ بناتے ہیں، اور دیگر گھناؤنے جرائم میں جیسے کہ خواتین کو جسم فروشی کے طور پر اس گھناؤنے کام کے لیے فروخت کرتے ہیں۔ جبری شادیوں، جنسی زیادتی اور جسمانی تشدد کے ذریعے خواتین کا استحصال کیا جاتا ہے۔ غربت نے بہت ساری خواتین کو ان کی رضامندی کے بغیر اپنے غریب گھر والوں کا پیٹ پالنے کے لیے جبری شادیوں کے لیے مجبور کر دیا جاتا ہے جبکہ دیہی علاقوں میں اپنے قرضوں کی ادائیگی کے لیے اپنی بیٹیوں کو فروخت کر دیتے ہیں۔

خواتین کو مختلف قبائلی علاقوں میں دو گرہوں کے درمیان قرضوں کے حل اور تنازعات کو حل کرنے کے لیے فروخت کیا جا تا ہے۔ لڑکیوں کے والدین خود بھی اپنی بیٹیوں کو جسم فروشی جیسے مکروہ دھندے کے لیے فروخت کر دیتے ہیں۔ پاکستان میں انسانی اسمگلنگ سب سے بدترین اور روز بروز بڑھتا ہوا خطرہ ہے، اس میں بچوں کو بھیک مانگنے، گھریلو ملازمت کرنے اور جسم فروشی جیسے کام کے لیے خریدا بیچا اور اغواء کیا جاتا ہے۔ دیگر ممالک میں ہر عمر کے بچوں کو جنسی استحصال کے لیے اسمگل کیا جاتا ہے اور غیر قانونی طور پر بھیک مانگنے اور اسمگلنگ کے بعد گھنٹوں محنت مزدوری کا کام بغیر اجرت کے کروایا جا تا ہے، بعض بچوں کو کئی بے اولاد جوڑوں کو فروخت کر دیا جاتا ہے، جبکہ بنگلہ دیش، برما اور جنوبی ایشیاء کے دیگر علاقوں سے لڑکیوں کو پاکستان میں فروخت کے لیے اسمگل کیا جاتا ہے۔

بچوں کی اسمگلنگ زیادہ تر متحدہ عرب امارات میں ہوتی ہے۔ وہاں اونٹوں کی ریس کے دوران بچوں کو اونٹوں کے اوپر باندھ دیا جاتا ہے بچوں کے رونے کی آواز سے اونٹ اور تیز دوڑتا ہے اور یہ ان کے ریس جیتنے کی وجہ بنتا ہے۔ غریب علاقوں سے بچوں کو اغوا کیا جاتا ہے اور انہیں جسمانی زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد بھیک مانگنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ بہت سے بچوں کو ان کے اعضاء کی اسمگلنگ کے لیے فروخت کیا جاتا ہے ، اغوا کے بعد بچوں کے اعضاء ضرورت مند لوگوں کو بیچ دیے جاتے ہیں۔

ایک اخبار کی رپورٹ کے مطابق بچوں اور عورتوں کی اسمگلنگ سے متعلق مقدمات کی تعداد 20000 ہے۔ ایشیا ء میں 80 %لڑکیاں اور خواتین انسانی اسمگلنگ کا شکار ہیں، پاکستان کی فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی کے مطابق پنجاب میں سب سے زیادہ اسمگلر کام کرتے ہیں۔ 2012 میں 40 عہدیداروں سے تفتیش کی گئی تھی۔ ایک کو برخاست جبکہ 33 افراد کو انسانی اسمگلنگ میں ملوث ہونے پر سزا دی گئی تھی۔ پاکستان میں انسانی اسمگلنگ کے کیسز کی تعداد میں قابل ذکر اضافہ ہو رہا ہے۔

پاکستان کے غریب علاقوں سے تعلق رکھنے والے بچوں اور خواتین کو افغانستان کے بچہ بازار سے لے کر چین میں جا کر ناجائز مقاصد کے لیے فروخت کیا جاتا ہے ۔ صوبائی پولیس نے 2017 کے بعد سے اب تک انسانی اسمگلنگ کے 303 نئے کیسز کی نشاندہی کی ہے۔ ابھی تک اسمگلنگ متاثرین کی 2697 رپورٹس درج ہی نہیں ہوئیں اب تک۔ سب سے حیرت انگیز بات یہ ہے کہ پاکستان میں اور پڑوسی ممالک سے بھی بچوں کو اسمگل کیا جاتا ہے۔ ایشین ہیومن رائٹس کمیشن کی حالیہ رپورٹ کے مطابق پنجاب میں تقریباً 20000 کو جبری طور پر بھکاری بنایا جاتا ہے۔

پاکستان میں انسانی اسمگلنگ کی تجارت ایک منافع بخش کاروبار بنتی جا رہی ہے۔ پاکستان میں انسانی اسمگلنگ کی سب سے اہم وجہ غربت اور تعلیم کا فقدان ہے۔ گلوبل سلیوری انڈیکس کے مطابق پاکستان میں 38.8 %خاندان غربت کی لکیر سے نیچے کی زندگی بسر کر رہے ہیں، پاکستان میں سالانہ فی کس گھریلو آمدنی 650.644 امریکی ڈالر کے حساب سے بنتی ہے جو غریب کنبوں کی بقا کے لیے بہت مشکل ہوجاتی ہے۔ اسی وجہ سے والدین مجبور ہو کر اپنے بچوں کو نوکری پر بھیجنے، استحصال اور اسمگلنگ کی طرف بھیجنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

پاکستان میں انسانی اسمگلنگ میں اضافے کو دیکھتے ہوئے اس اہم ترین مسئلے کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔ اسمگلنگ کے مسئلے کو سمجھنے کے لیے حکومت کو ایک جامع سروے کی ضرورت ہے، سروے کیے بغیر اس اسمگلنگ کے لیے قابل عمل منصوبہ تیار کرنا مشکل ہے۔ موجودہ حکومت میں پاکستان کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب کی پولیس انتظامیہ میں اعلی عہدیدار کے خلاف بھی انسانی اسمگلنگ پر جامع انکوائری ہو چکی ہے جو اس وقت ایف آئی اے میں ڈائریکٹر امیگریشن تھے۔

جس میں انہیں قصوروار ٹھرایا گیا کیپٹن شعیب پوکیس کیڈر کے گریڈ 20 منٹ کے نیک نام افسر تھے جنہوں نے یہ انکوائری کی تھی وہ موجودہ حکومت کی پالیسیوں کی بدولت قبل از وقت ریٹائرمنٹ لینے پر مجبور ہو گئے ہیں انہوں نے گزشتہ دنوں پولیس سروس سے استعفی دے دیا ہے جسے فورا قبول بھی کر لیا گیا جو انتہائی معنی خیز قدم ہے۔ لیکن اب حکومت نے نامعلوم وجوہات کی بنا پراس شخص کو پنجاب میں اعلی ترین عہدے پر تعینات کر دیا ہے۔

حیرت ہے کہ پھر حکومت انہیں اعلی عہدوں پر فائز کیے ہوئے ہے۔ صوبائی حکومت کو چاہیے کہ قومی حکومت کے ساتھ مل کر غریب خاندانوں کو پیشہ ورانہ مہارتیں سکھائیں ان کو با اختیار بنانے کے لیے پیشہ ورانہ اور تعلیمی اسکیمیں تشکیل دیں۔ اس کے ساتھ ساتھ متاثرین کی بحالی کے لیے پروگرام مرتب کیے جائیں، غریب خاندانوں کے فنڈ قائم کریں تاکہ وہ اپنے بچوں اور خواتین کو بیچنے پر مجبور نہ ہوں۔ حکومت کی مدد سے معاشی ترقی کی اسکیمیں شروع کی جانی چاہیے، جو انسانی اسمگلنگ کے بارے میں شعور اجاگر کرنے میں مدد کریں اور مقامی طور پر چلنے والے انسانی اسمگلنگ کے گرہوں کو بے نقاب کر سکیں۔

اس کی روک تھام کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو سرگرم ہونے کی ضرورت ہے۔ مزید یہ کہ انسانی اسمگلروں کی نشاندہی اور بڑے پیمانے پر اس طرح کی سرگرمیوں کو جرم قرار دینے کی لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے عہدیداران کو تربیت دینے کی ضرورت ہے۔ چینی حکومت کو غیر قانونی طور پر مقامی خواتین کی ناجائز مقاصد کے لیے اسمگلنگ کو روکنے میں پاکستان کے ساتھ تعاون کر نا چاہیے۔ انسانی اسمگلنگ کو عالمی سطح پر روکنے کے لیے سرکاری محکموں، این جی اوز، سول سوسائٹی، بین الاقوامی اداروں اور اقوام متحدہ کی خصوصی ایجنسیوں جیسے کہ آئی ایل او کو مل کر کام کر نے کی ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments