خالی بگرام ایئر بیس اور ایک نئی جنگ کی تیاری


کیا بات ہو گئی دو دہائی سے جاری جنگ کو ایسے ختم ہوتا دیکھ کر لگتا ہے کوئی عجلت ہے۔ جیسے کچھ اس سے بڑا کام آن پڑا ہے۔ ’ امریکیوں نے کئی دہائیوں تک جاری رہنے والی جنگ کے بعد جب تین دن قبل راتوں رات بگرام ائر بیس خالی کیا تو خیال آیا۔ کچھ یقیناً اس سے بڑا ہونے جا رہا ہے۔ بگرام ائیربیس کو گزشتہ جمعہ خالی کیا گیا۔ یہ امریکہ کے زیر اہتمام افغانستان کا بنیادی فوجی اڈہ چھوڑ تھا جہاں سے رسد و ترسیل سمیت اہم فیصلے بھی کیے جاتے تھے۔ امریکی تاریخ کی طویل ترین جنگ کے علامتی خاتمے واضح اشارہ، ساری دنیا نے ستمبر آنے سے دو مہینے پہلے ہی دیکھ لیا۔

اس خالی اڈے کو دیکھ کر افغانستان یا خاص کر کابل کے باسیوں نے کیا سوچا ہوگا؟

صدر جو بائیڈن کے 11 ستمبر تک امریکی فوجیوں کو غیر مشروط اعلان کے بعد میں ایک بار پھر تشدد بھڑک اٹھا۔ ہم نے دیکھا کہ طالبان نے ایک بار پھر ستر فیصد سے زائد ریاست کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔ یہاں تک کہ کابل سے قریب ہی قندھار بھی اب طالبان کے قابو میں ہے

حالیہ ہفتوں کے دوران قطر میں امن مذاکرات میں تیزی آئی ہے اور پاکستان سمیت بہت سے لوگوں کو خدشہ ہے کہ انتشار مزید پھیل سکتا ہے۔

بگرام ہوائی اڈے کے آس پاس رہنے والوں ایک عجیب کش مکش سے دوبار ہیں جنہوں نے سوویت فوج کو یہ اڈے تباہی کر کے جاتے دیکھا ہے اور اب امریکہ کو چھپ کے جاتے دیکھ رہے ہیں۔

افغانستان کے لوگ اس جنگ کے نتائج جاننا چاہتے ہیں؟ سپر پاور نے افغانستان کے لیے کیا کیا؟

جو بیس سال طالبان پر بمباری کرتے رہے اور دنیا کے لیے امن کا راگ الاپتے رہے آخر کیوں افغان شہریوں کو انھی طالبان کے ہاتھوں چھوڑ کر جا رہے ہیں جو کبھی دہشت گرد تھے۔

۔ ایسے لگتا ہے کہ امریکہ طالبان کو اتنا با اختیار کر کے جا رہا ہے کہ وہ جلد ہی اور کسی بھی وقت اقتدار سنبھال لیں گے۔

”ان سب تباہی، ہلاکتوں اور پریشانیوں کا کیا فائدہ ہوا؟ یہ ایک اور سوال ہے۔ گویا امریکہ بہادر نہ بھی آتا تو حالات یہ ہی رہتے بلکہ بہت سے لوگوں کے نزدیک اب تک بہت بہتر اور مستحکم ہوتے۔

دوسری طرف، متحدہ کے دستاویزات کے مطابق، دو دہائیوں کی جنگ میں 3500 سے زیادہ غیر ملکی فوجی ہلاک ہوئے۔ اور یہ دستاویزات کہتے ہیں کہ اس جنگ میں جو 2009 میں شروع ہوئی تھی اب تک 100، 000 سے زیادہ شہریوں کو ہلاک کیا گیا ہے؟

گزشتہ سال جب ہم کابل میں مقیم تھے تو وہاں کی کرنسی پاکستان کے روپے سے دو گنا تھی لیکن اب مجھ سمیت افغان شہریوں کا خیال ہے کہ غیر ملکی افواج کی موجودگی نے افغانستان کی معیشت کو مسخ کیا ہے اور یہاں کے وار لارڈز نے اسے مستحکم نہیں ہونے دیا۔

اور اب شاید وقت آ گیا ہے کہ ملک اپنے طور پر خود کھڑا ہو۔ مگر کیسے؟

بگرام کے سید نقیب اللہ سمجھتے ہیں کہ ”امریکیوں نے اپنی ناکامی کی میراث چھوڑ دی ہے، وہ طالبان یا بدعنوانی پر قابو پانے میں ناکام ہو گئے ہیں۔“

گویا افغانستان کے لوگ ایک طرح سے، خوشی اور غم کے ملے جلے رجحان سے گزر رہے ہیں۔

ایک طرف دارالحکومت کے قریب یہ خبر خوف و ہراس پھیلا رہی ہے اور دوسری طرف بہادر، نڈر افغان شہریوں کا حوصلہ بڑھ رہا ہے کہ یہاں سپر پاور بھی پارہ پارہ ہو جاتا ہے۔

شہری پریشان ہیں غیر ملکی افواج افغانستان سے نکل گئیں تو، طالبان اقتدار سنبھال لیں گے۔ پھر وہ کیا کریں گے؟ ”

ان سب باتوں کو پڑھ کر قارئین بھی اگر یہ سوچ رہے ہیں کہ امریکہ اتنی عجلت میں کیوں جا رہا ہے تو اس کا جواب بھی یقیناً ایک ہی ہے کہ جلد ہی امریکہ کوئی نیا محاذ کھڑا کرنے والا ہے اور افغانستان اس محاذ کا ایک مہرا ہو گا جو خطے میں بدامنی کو بڑھاوا دے گا۔ ایسا بھی لگتا ہے کہ جنگوں کا زمانہ گزر گیا ہے اب بڑی بڑی معیشتوں کا مقابلہ ہو گا۔ جس کی تیاری روس اور چین کر رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments