پاکستان کا دورۂ انگلینڈ: کرکٹ سیریز میں انگلینڈ کا کورونا بحران یا پاکستانی خوش بختی کا سامان؟

سمیع چوہدری - کرکٹ تجزیہ کار


کچھ مواقع ایسے ہوتے ہیں جب خوش قسمتی اور بدقسمتی دونوں ہی مخمصے میں پڑ جاتے ہیں کہ کس کے ابھرنے کی باری ہے۔ انگلش ٹیم کا کورونا بحران بھی پاکستانی ٹیم کے لیے کچھ ایسا ہی موقع ثابت ہوا ہے۔

جدید کرکٹ میں جہاں اپنی صلاحیتوں کے نکھار پہ محنت ہوتی ہے، وہیں اتنی ہی ہمت مخالف ٹیم کی خوبیوں خامیوں کی کھوج پہ بھی صرف کی جاتی ہے۔ ڈیٹا اینالسٹ کی مدد سے ٹیم مینیجمنٹ ایک ایک بولر اور بلے باز کے خلاف حکمتِ عملی بُنتی ہے کہ کس کو کیسے قابو کرنا ہے۔

پاکستانی ٹیم کو انگلش سرزمین پہ اترے کافی دن ہو چکے ہیں اور اتنے دن میں یہ تو یقیناً طے کر ہی لیا جاتا ہے کہ کس بلے باز کو کہاں سے پکڑنا ہے اور کس حریف بولر کو کیسے دباؤ میں لانا ہے۔

خیال رہے کہ دورۂ انگلینڈ میں پاکستانی ٹیم تین ون ڈیز اور تین ٹی ٹوئنٹی میچز کھیلے گی۔ پہلا ون ڈے 8 جولائی کو کارڈف میں کھیلا جائے گا۔

بابر اعظم بھی یہی کہتے ہیں کہ ان کی پلاننگ مکمل تھی اور سیریز کے آغاز کے لئے پراعتماد تھے مگر عین وقت پہ بدلی صورت حال نے کافی ساری تیاری متاثر کر ڈالی اور یکسر نئے سکواڈ کے اعلان پہ انھیں دوبارہ ڈیٹا اینالسٹ کے ساتھ بیٹھ کر کاؤنٹی میچز کی ویڈیوز دیکھنا پڑیں۔

ایک طرف تو یہ پاکستانی سکواڈ کے لیے مسرت کا سامان ہے کہ ون ڈے کی چیمپئین ٹیم اب ان کے مقابل نہیں ہو گی بلکہ ایک عارضی انتظام ان کے سامنے ہو گا جو صلاحیت سے زیادہ مجبوری کے پیشِ نظر کیا گیا ہے۔

دوسری جانب یہ سرپرائز ٹیم اپنے ساتھ حیرت بھرا ایک مہین سا خوف بھی لیے ہو گی کہ جن سے کبھی پالا ہی نہیں پڑا، اگر ان میں سے کوئی غیر متوقع طور پہ ڈٹ کر کھڑا ہو گیا تو کہاں کا ڈیٹا کام آئے گا اور کیسے نمٹا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیے

کووڈ ٹیسٹ مثبت، انگلینڈ کی کرکٹ ٹیم تبدیل، پاکستان کو کتنا فائدہ ہو گا؟

شاہنواز دھانی کی لاڑکانہ واپسی: ’آپ کی میدان میں انکساری کی وجہ سے آپ کو یہ لمحات میسر آئے‘

جذباتی یونس خان ماضی کے تنازعات کو بار بار کیوں دہراتے ہیں؟

مگر بحیثیتِ مجموعی پاکستان کے لیے یہ پیشرفت حوصلہ افزا اور مثبت ہے کہ نئی نویلی ٹیم کے سامنے پاکستان کی برتری کے امکانات زیادہ ہوں گے۔ اگرچہ انگلش ٹیم بھی یکسر نئی نہیں ہو گی، اسے بین سٹوکس، بین ڈکٹ اور ڈیوڈ میلان جیسے جانے پہچانے چہروں کا ساتھ میسر ہو گا مگر مورگن، بٹلر، روٹ اور ووکس جیسے آزمودہ کار کھلاڑیوں کی کمی بہرحال اپنی جگہ کھٹکے گی۔

سٹوکس کی کپتانی بہرطور انگلش کیمپ کے لیے امید کی کرن رہے گی کہ بطور کھلاڑی بھی وہ قائدانہ کردار ادا کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں اور بطور کپتان تو وہ ہرگز آسانی سے ہتھیار نہیں ڈالیں گے۔

دوسری جانب بابر اعظم کی ٹیم انٹرنیشنل کرکٹ میں شروع کا آزمائش بھرا سال گزارنے کے بعد اب پچھلے چند ماہ سے فتوحات کے سفر پہ گامزن ہے اور انگلینڈ کے خلاف بھی اسی فارم کو جاری رکھنا چاہے گی جو جنوبی افریقہ کے خلاف ون ڈے سیریز میں دیکھنے کو ملی تھی۔ اگر بابر اعظم اور فخر زمان نے اسی کارکردگی کا تسلسل برقرار رکھا تو جیت کے امکانات روشن ہوں گے۔

پاکستان کو اضافی فائدہ یہ بھی حاصل ہے کہ پچھلے پانچ سال میں یہ واحد ٹیم ہے جس نے ہر انگلش سیزن میں برطانیہ کا دورہ کیا ہے اور ان کنڈیشنز سے خاصی حد تک مانوس ہے۔

یہ امید بہرحال بے سود ہو گی کہ اپنے آزمودہ کار کھلاڑیوں کے بغیر انگلش ٹیم بالکل پھیکی سی پڑ جائے گی اور میچز یکطرفہ ہو جائیں گے۔ سیاق و سباق سے قطع نظر سٹوکس کی ٹیم کانٹے کا مقابلہ کرے گی اور ون ڈے سپر لیگ کے پوائنٹس کو باآسانی ہاتھ سے جانے نہیں دے گی۔

پاکستان کے علاوہ یہ سیریز بابر اعظم کے لیے بھی نہایت اہم ہو گی کہ اگر وہ فتح یاب ٹھہرے تو ان کی قائدانہ صلاحیتوں کا خون سیروں بڑھ جائے گا۔

بعید نہیں کہ انگلش کیمپ کا کورونا بحران پاکستان کے لیے خوش بختی کا سامان بن جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp