جماعت اسلامی: ماضی و حال


ہم انتہائی ہی کوئی کمزور حافظہ والی قوم واقع ہوئے ہیں۔ اس جہان فانی میں ہر شہ کا ایک ماضی ہوتا ہے اور چند اشیاء، اشخاص اور واقعات کا ماضی ان کے حال کے تعین میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ یہی حال مشہور زمانہ اسلامی جماعت، جماعت اسلامی کا بھی ہے جس کا ماضی قوم نے یکسر بھلا دیا ہے اور ان کی دل لبھانے والی شوخ باتوں اور تند و توانا بیانات پر اپنا دل ہار بیٹھے ہیں۔ ہم معصوم پاکستانی انھیں اسلام کے محافظ اور علمبردار بھی سمجھتے ہیں۔

چلیں تھوڑا سا ان پر لگنے والے الزامات کا سرسری سا جائزہ لیتے ہیں اور پھر قارئین کے ذاتی مشاہدہ پر ان الزامات اور شواہد کی سچائی چھوڑ دیتے ہیں۔

جماعت اسلامی سے منسوب بدنام زمانہ الزام کراچی میں اسلحہ کلچر کا فروغ ہے۔ ایک نجی رپورٹ کے مطابق جماعت اسلامی کے عسکری ونگ کا نام ”تھنڈر سکواڈ“ بتایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ جماعت اسلامی کی طلبہ تنظیم، اسلامی جمعیت طلبہ پر القاعدہ اور طالبان کی پشت پناہی کا الزام بھی کبھی زبان زد عام تھا۔

اس الزام کی سچائی کا تعین تو قارئین کر لیں گے مگر ایک مسلمہ حقیقت اس طلبہ جتھے کے متعلق واضح ہے اور وہ ہے جامعات میں ان کی غنڈہ گردی اور اجارہ داری۔ گزشتہ عرصہ میں جامعہ پنجاب لاہور میں ان کے خلاف کافی احتجاج دیکھنے کو ملے مگر یہ گروہ پر امن احتجاج کو بھی خود کے لئے خطرہ گردانتا ہے اور احتجاج میں شامل طلباء و طالبات پر تشدد کرتا پایا گیا جس کی ویڈیوز بھی سماجی رابطے کی کئی ویب سائٹس پر گردش کر رہی ہیں

مشہور زمانہ کھوجی صحافی سلیم شہزاد مرحوم تو اپنی کتاب میں مکمل شواہد کے ساتھ بیان کرتے ہیں کہ کراچی کورپس کمانڈر اور رینجرز وین حملے میں ملوث ڈاکٹر ارشد وحید اور اکمل وحید کا تعلق بھی جمعیت طلبہ سے تھا۔ جس کے بعد یہ بہت ہی مشکوک انداز میں عدالت سے بری ہوتے ہی وانا سدھار گئے۔ اسی واقعہ کے ضمن میں آپ القاعدہ کے رہنما خالد شیخ محمد کی گرفتاری بھی دیکھ سکتے ہیں جو 2 مارچ 2004 ء کو راولپنڈی میں جماعت اسلامی کی ایک خاتون لیڈر کے ہاں سے گرفتار کیا گیا۔

مزید برآں 3 جون 2009 ء کا وہ سیاہ دن کسے یاد نہیں! یہ وہ دن تھا جب لاہور میں سری لنکن ٹیم پر چند انتہا پسندوں نے حملہ کر دیا اور جس کا خمیازہ ہماری بین الاقوامی کرکٹ کی بندش کی صورت میں ہمیں بھگتنا پڑا۔ ہمارے میدان ویران ہو گئے اور بین الاقوامی کھیل نہ ہونے کی وجہ سے معیشت پر بھی گہرا اثر پڑا۔ اس حملے کا ایک اہم مجرم زبیر عرف نیک محمد تھا جو منصورہ سے گرفتار ہوا اور اس نے انکشاف کیا کہ اس کے سارے ساتھی حملہ سے قبل منصورہ میں ہی مقیم رہے۔ اس حملے کے سرغنہ عقیل (ڈاکٹر عثمان) نے اکتوبر 2009 ء میں جنرل ہیڈکوارٹر راولپنڈی پر بھی حملہ کرنے کی کوشش کی تھی اور گرفتاری کے بعد اس نے بھی اپنی پناہ گاہ منصورہ ہی بتائی تھی۔ اطلاع کے لئے عرض ہے کہ منصورہ میں جماعت اسلامی کا صدر دفتر ہے اور یہ ان کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔

اسی طرح اکتوبر 2011 میں کراچی امن و امان کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے عدالت عظمیٰ نے بھتہ خوری کے جرائم میں جماعت اسلامی کو ملوث قرار دیا۔ یہ صورتحال یہاں ہی نہیں رکتی بلکہ 11 ستمبر 2011 کو القاعدہ گروپ کا ایک کارکن جامعہ پنجاب کے ہاسٹلز سے برآمد ہوا۔ تفتیش کے دوران 6 مزید افراد بھی زیر حراست لیے گئے اور انھوں نے اعتراف کیا کہ ہمیں جمعیت کی طرف سے مکمل تعاون حاصل تھا۔

جمعیت کا اثر و رسوخ جنوبی پنجاب اور سندھ کی جامعات میں بھی اتنا ہی نمایاں ہے جتنا کہ جامعہ پنجاب میں۔ 2007 ء میں مشرف کی ایمرجنسی کے دوران جب عمران خان صاحب انصاف سٹوڈنٹس فیڈریشن کی دعوت پر تقریر کرنے کے لئے تشریف لائے تو طلباء جمعیت نے انھیں تشدد کا نشانہ بنایا اور گتھم گتھا کا ماحول بنا دیا۔

جماعت اسلامی مزید متنازعہ اس وقت بنی جب اس کے سابق امیر منور حسن نے نہ صرف بین الاقوامی دہشت گرد اسامہ بن لادن کو شہید قرار دے کر ہیرو بنایا بلکہ تمام دیگر دہشت گردوں اور شرپسند عناصر کو بھی شہادت کے درجے پر فائز کر کے ہیرو بنا ڈالا۔

لاہور میں تمام جہاں کو جہاد فی القتال کا درس دیتے رہے مگر کچھ ہی عرصہ بعد سانحہ پشاور رونما ہوا جو پوری قوم کے لئے رنج و الم کا سماں تھا۔ اس وقت بھی جماعت اسلامی نے ملوث عناصر کی تنقید سیدھے منہ نہ کی بلکہ چپ کا مظاہرہ کیا کیونکہ اس میں ان کے اپنے ساتھی (طالبان) ملوث تھے۔ آپ اس سب سے یہ کہہ کر بھی بری الزمہ ہوسکتے ہیں کہ ”یہ محض اتفاق بھی ہو سکتا ہے۔“

حال کے تناظر میں بھی اگر دیکھیں تو جماعت اسلامی ہمیں کبھی بھی شر پسند عناصر کی مذمت کرتے دکھائی نہیں دیتی اور اسلامی جمعیت طلبا اب بھی غنڈہ گردی میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتی۔ اس ساری بحث کا مقصد ان کی تذلیل کرنا نہیں بلکہ یہ دکھانا ہے کہ کیسے اسلام کی آڑ لے کر شرپسندی کی پشت پناہی کی جاتی ہے اور اسے ہوا دی جاتی ہے ہماری قوم کی چونکہ یادداشت کمزور ہے اس لیے انھیں یہ سب یاد کروانا ضروری تھا۔ تاکہ ہم اپنے اسلام کے محافظوں کا چہرہ پہچان سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments