دنیا، پاکستان اور قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو


پاکستان کی سیاست کے شب و روز سے آگاہ ہر فرد اپنے ایمان کو حاضر ناظر جان کر ضرور حقیقت پسندی کا ثبوت دے گا جب بھٹو کا نام آئے گا۔

بھٹو کی عوام دوستی اور ملکی دوستی کے کئی ثبوت ہیں۔ ہاں وہ لوگ ضرور مخالفت کریں گے جن کے دلوں پر مہریں آنکھوں پر پردہ اور کان بند ہونگے۔ ان سب حقائق کے ہوتے ہوئے مورخ بھی تو فیصلہ کر رہا ہے۔

بھٹو کے وقت کے بد ترین مخالف بھی اس بات کو مان چکے ہیں کہ اس جیسا زیرک سٹیٹس مین آج تک پاکستان کی تاریخ نے نہیں دیکھا۔ ہمارے بد ترین مخالف امریکہ اور یورپ بھی گواہی دیتے ہیں کہ تم نے اس کی جان لے کر بہت بڑی زیادتی کی ہے۔ امریکی قیادت سے بات کرنے کے لیے زبان اور بیان کی طاقت کا ہونا بہت ضروری ہے۔ ہمارے سربراہان کے پاس اگر زبان ہے تو بیان نہیں کچھ کے پاس بیان ہے لیکن زبان نہیں۔ بھٹو واحد شخصیت تھا جس کے پاس زبان اور بیان (علم) اور اضافی صفت جرآت تھی۔

جب کینڈی نے کہا کہ دیکھو بھٹو تم ایک عظیم محل وائٹ ہاؤس میں کھڑے ہو تو بھٹو نے جواب دیا۔ جتنا بھی عظیم ہو ہے تو میرے پاؤں کے نیچے۔ ایسا حوصلہ ہمارے ہاں کسی کے پاس ہو سکتا۔ ہے؟ جو لوگ پرچیاں پڑھ کر اپنا مدعا بیان کرتے ہوں انھیں ترکی با ترکی جواب دینے کے لیے تین چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ زبان پر عبور۔ علم اور بیان کی طاقت۔ یہ گونگے عجمی بھٹو کا مقابلہ کریں گے۔

پاکستان کی سیاست میں میں نے بھٹو جیسا انتھک لیڈر نہیں دیکھا۔ لوگ اسے جاگیردار وڈیرا کہتے تھے۔ لیکن یہ کہتے ہوئے بھول جاتے ہیں۔ کہ پاکستان کی تاریخ میں وہ واحد جاگیردار ہونے کے باوجود شہر شہر۔ گاؤں گاؤں۔ ٹرکوں بسوں ویگنوں۔ کاروں پر پورے ملک میں عوام اور ملک کی خاطر پھرا۔ ایسا کوی جاگیردار نہ بگٹی نہ مری نہ جتوئی نہ مزاری نہ مینگل نہ لغاری۔ نہ تالپور۔ نہ بزنجو۔ نہ کوی خان دیکھا جو قریہ قریہ ملک میں عوام کے لیے پھرا ہو۔

بھٹو سے پہلے اور بعد بھی کبھی کسی جاگیردار کو ایک سیٹ سے اگے سیاست کرتے نہیں دیکھا۔ بڑے سے بڑا جاگیردار یا نواز شریف یا اسٹیبلشمنٹ کے پیچھے چھپ کر سیاست کرتے دیکھا ہے۔ یہ بھٹو ہی تھا جس نے کسی کے پیچھے چلنے سے بہتر قیادت کرنے کو ترجیح دی۔ اس کی وجہ اس کے نظریات تھے جن کو وہ قیادت کر کے نافذ کرنا چاہتا تھا۔

یہ بھٹو ہی کی شخصیت کا کرشمہ ہے کہ اس کے بعد وزارت اعظمی پر براجمان شخصیت کے متعلق عوام کہتی ہے کہ یہ وزارت اعظمی پر جچتا نہیں۔ سوال یہ ہے کہ لوگ کس بنیاد پر یہ کہتے ہیں کہ فلاں لیڈر لیڈر کی طرح نہیں لگتا اور فلاں وزیر اعظم نہیں لگتا۔ تو پھر لوگوں نے کون سی ایسی شخصیت کو اپنے لاشعور میں بیٹھا رکھا ہے جس سے وہ ہر شخص کا موازنہ کرتے ہیں۔

سچ پوچھیں تو ہر شخص بھٹو کی کسوٹی پر ہر لیڈر کو پرکھتا ہے۔ گویا بھٹو ایک سپر لیڈر کے طور پر لوگوں کے دل و دماغ پر سوار ہے۔

اس سے زیادتی کرنے والے اب تاریخ سے معافی مانگتے دیکھے جا سکتے ہیں۔ لیکن تاریخ اپنا فیصلہ دے چکی ہے۔ بھٹو جیسا نہ پیدا ہوا نہ آئندہ ہو گا۔

میں نے نئی نسل کو بار ہا دیکھا ہے کہ جب کبھی بھٹو کی تقریر ٹیلی وژن پر نشر ہو رہی ہو تو بھٹو کی آواز سن کر لوگ اسے سننے دوڑ پڑتے ہیں۔ جلسہ میں بھٹو کو عوام سے باتیں کرتا دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں۔ بھٹو بات کرتا تھا اور عوام جواب دیتی تھی۔ بھٹو کے ہر فقرے پر شور اٹھتا تھا۔ بھٹو کی تقریر ہو اور رونگٹے کھڑے نہ ہوں۔ جم غفیر اٹھ نہ جائے یہ ہو نہیں سکتا۔ بعد تقریر جم غفیر اپنے گھروں تک بھٹو کی تقریر دوہراتے جاتے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments