پاکستان کا خوبصورت دارالحکومت اسلام آباد


اسلام آباد میں آج کل چلچلاتی گرمیاں ہیں اگرچہ یہ شدت لاہور، ملتان، پنجاب کے جنوبی علاقوں، سبی، جیکب آباد اندرون سندھ اور تھر کے علاقوں سے قدرے کم ہے لیکن گرمی کی شدت سے کسی کو انکار نہیں ہے۔ اس موسم میں بھی اسلام آباد میں سڑکوں کے دو رویہ لگے ہوئے املتاس کے درخت اور اس پر جھومر اور ہاروں کی صورت میں لٹکتے ہوئے پیلے رنگ کے پھول کیا حسین سماں پیدا کرتے ہیں کہ قدرت کی صناعی پر اش اش کرنے کو جی چاہتا ہے۔ اس کے علاوہ گلابی، قرمزی، اودے رنگ کے پھولوں کے دوسرے درخت اس شہر کے حسن و جمال میں اضافہ کرتے ہیں۔ یہ پاکستان کا واحد شہر ہے جہاں پر سبز درختوں اور قدرتی سبزے کے خطوں کو شہر کے بیچوں بیچ جابجا چھوڑا گیا ہے ٓجیسا کہ دنیا کے دوسرے ترقی یافتہ شہروں کا طریقہ ہے۔

ایک پورے سیکٹر ایف 9 کو جس کا نام ”فاطمہ جناح پارک“ ہے کافی دیدہ زیب پارک بنایا گیا ہے۔ جس میں کافی دلچسپیاں ہیں چہل قدمی اور جاگینگ کرنے والوں کے لئے رستے اور گزر گاہیں ہیں مختلف ممالک کی طرز تعمیر کے چبوتروں کو بنایا گیا ہے اور باغبانی کے نمونوں میں جاپانی طرز کے باغات اور دیگر پیڑ پودے کافی مقدار میں ہیں، گھاس کے چمن اور پودوں کے لئے خود کار آبی نظام فوارے ہیں۔ ایوان قائد کے نام سے ایک پبلک لائبریری، ایک کافی بڑا میکڈونلڈ ریستوران ہے۔

ساتھ ہی hot shot میں کافی دلچسپیاں ہیں۔ جس میں تیراکی کا تالاب، باؤلنگ ایلی اور خریداری کا مرکز ہے۔ یہاں کی زمین کافی زرخیز ہے موسم بہار میں ہر طرف پھول ہی پھول نظر آتے ہیں۔ خالی جگہوں پہ بھنگ اتنی مقدار میں خود رو اگا ہوا ہے۔ کہ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ ہمارے بدی میں ذہین اذہان نے اس کا فائدہ کیوں نہیں اٹھایا۔ شکر ہے کہ اب موجودہ حکومت اس سے کچھ فائدہ اٹھانے کا سوچ رہی ہے۔ امریکہ اور کینیڈا میں لوگ چوری چھپے گملوں میں گھروں کے اندر بھنگ اگاتے تھے اور جہاں پولیس کو خبر ملتی، تو ان کی پکڑ دھکڑ ہوتی۔ ان کو pot growers کہا جاتا ہے۔ ریاست کیلیفورنیا اور میکسیکو میں ان سے نشہ آور ادویات بنائی جاتی تھیں، اب ریاستی حکومتوں نے اس کے طبی فوائد کے مد نظر اس کو قانونی حیثیت دیدی ہے۔ بلکہ اب تو بہت سی امریکی ریاستوں اور کینیڈا میں یہ جائز اور منفعت بخش کاروبار ہے۔

اسلام آباد میں چاروں موسم بھر پور انداز میں آتے ہیں۔ سب سے خوبصورت موسم بہار کا ہوتا ہے۔

مارگلہ کی پہاڑیاں اسلام آباد کے سامنے ایک فصیل کی طرح ہیں ان پہاڑیوں کو اوپر سے گزرتی ہوئی پیچ در پیچ سڑک کے ذریعے ہزارہ ڈویژن سے ملایا گیا ہے۔ اس کے اوپر پرفضاء مقامات ’ریسٹورانٹ اور پارک بنائے گئے ہیں دامن کوہ، پیر سہاوہ، مرغزار اور شکر پڑیاں پارک میں پاکستان کے دورے پر آنے والے ر سربراہان مملکت کے ہاتھوں کے لگائے ہوئے پودے اب تن آور درخت بن چکے ہیں۔ مارگلہ پہاڑیوں اور اس سے آنے والی تازہ اور خنک ہوا کے پیش نظر ان پہاڑیوں کی یہاں کافی اہمیت ہے۔ مار گلہ روڈ اور مارگلہ کے رخ پر تعمیر شدہ مکانات بہتر اور مہنگے جانے جاتے ہیں۔

شاہ فیصل مسجد اسلام آباد کا ایک امتیازی نشان لینڈ مارک ہے فیصل ایونیو پر جاتے ہوئے اس مسجد کے خوبصورت بلند و بالا مینار اس شہر کو اپنے سائے میں لئے کھڑے ہیں۔ سایہ خدائے ذوالجلال! اب پاکستان مونومنٹ Pakistan Monument بلندی پر تعمیر شدہ ایک اور حسین اضافہ ہے اس کی بناؤٹ کنول کے پھول اور اس کی پنکھڑیوں جیسی ہے۔ اس ساری دہشت گردی، خانہ جنگی اور بد امنی میں پاکستان کے دیگر شہروں کی طرح اسلام آباد بھی تعمیر و ترقی کی راہ پر رواں دواں ہے حالانکہ جگہ جگہ رکاؤٹیں کھڑی ہیں بیشتر جگہوں میں داخل ہوتے ہوئے مختلف اسکینرز اور حفاظتی تدابیر کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

نئے شاہراہوں کی اوپر تلے تعمیر، بلیو ایریا یہاں کے ڈاؤن ٹاؤن یعنی شہر کے مرکز کی طرف جاتا ہے ۔ کشادہ شاہراہیں شاہراہ کشمیر، آغا شاہی ایونیو، جناح ایونیو، مارگلہ روڈ، بلیو ایریا روڈ یہاں کی انتہائی دیدہ زیب شاہراہیں ہیں بلیو ایریا پر بلند و بالا جدید عمارات، بنکوں اور دیگر اداروں کے صدر دفاتر، خریداری کے جدید مراکز اس چھوٹے شہر کے روز افزوں اضافے کا باعث ہیں۔ بلیو ایریا سے آگے شاہراہ دستور پر پارلیمنٹ، ایوان صدر و وزیر اعظم، ایوان قومی اسمبلی اور سپریم کورٹ کی عمارات ہیں جو اب صرف خواص کے لئے مخصوص ہیں۔

بلیو ایریا سے ایک الگ راستہ ڈپلومیٹک انکلیو ( اردو داں حضرات کو ہو سکتا ہے یہ انگریزی نام ناگوار ہوں لیکن یہ نام اسی طرح رکھے گئے ہیں ) کو جاتا ہے جہاں پر تمام غیر ملکی سفارت خانے ہیں۔ ان کے لئے مختلف دہشت گردی کے واقعات کے بعد احتیاطی تدابیر سخت کر دی گئی ہیں۔ امریکی سفارت خانے کے لئے ان کے چیک پوائنٹ سے ایک بس کی شٹل سروس چلتی ہے اور تمام حفاظتی اقدامات کی ذمہ داری ان کی اپنی ہے۔

اسلام آباد ایک کافی جدید شہر ہے جدید اس لحاظ سے کہ 1960 میں اس وقت کے صدر فیلڈ مارشل ایوب خان نے اس کی جغرافیائی اور عسکری محل وقوع کے نقطہ کے پیش نظر دارالحکومت کو کراچی سے راولپنڈی سے متصل علاقے میں جس کا نام اسلام آباد تجویز ہوا تھا منتقل کرنے کا اعلان کیا۔ اسلام آباد اسلامی جمہوریہ پاکستان کا نیا دارالحکومت قرار پایا۔ یہ تمام علاقہ اس وقت چھوٹے چھوٹے گاؤں اور زرعی آبادی پر مشتمل تھا جس کے مالکان پنڈی اور قرب و جوار میں رہنے والے تھے اور جو یہاں کے راجے کہلاتے تھے ان سے خوب مہنگے داموں زمین خریدی گئی یا ان کو متبادل زمینیں دی گئیں۔

اس بڑے قدم پر ایوب خان کو کافی سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا اور انہیں محمد تغلق دوئم کا خطاب دیا گیا جنہوں نے پایہ تخت دہلی سے دیو گری منتقل کیا تھا اور اس کا نام تغلق آباد رکھا۔ محمد تغلق کو اس میں کافی نقصان اٹھانا پڑا جبکہ ایوب خان کا یہ قدم ہر لحاظ سے قابل تحسین ہے۔ اسلام آباد کے لئے دنیا کے بہترین ٹاؤن پلینرز کا انتخاب ہوا۔ 1 Konstantinos Apostolos Doxiadisایک مشہور یونانی آرکیٹیکٹ فرم کو اس شہر کی منصوبہ بندی کرنی کی ذمہ داری سونپی گئی اس شہر کو مختلف زون، خطوں اور سیکٹروں میں تقسیم کیا گیا یہ شہر راولپنڈی /اسلام آباد کا جڑواں شہر کہلاتا ہے۔ جب شروع میں اسلام آباد کی تعمیر شروع ہوئی تو سب سے پہلے بہترین سڑکیں بنائی گئیں۔ ایک عام تاثر یہ تھا کہ راولپنڈی سے جیسے ہی اسلام آباد میں داخل ہو گاڑی کے ٹائیروں کی آواز بدل جاتی ہے اور رفتار میں روانی آجاتی ہے۔ ہمارے بنگالی بھائی جو اس وقت ہمارے ہم وطن تھے انہوں نے ایک کہانی گھڑی اور کہا کہ جب اسلام آباد کی سڑکوں کو چھو کر سونگھا تو اس سے پٹ سن کی خوشبو آ رہی تھی۔ پٹ سن اس وقت پاکستان کے لئے زرمبادلہ کا بڑا ذریعہ تھا اور مشرقی پاکستان میں کثرت سے پیدا ہوتا تھا۔ اس وقت کا اسلام آباد آبپارہ جو کہ زیرو پوائنٹ کہلاتا ہے اور سیکٹر جی سکس جو کہ سیکریٹریٹ کہلاتا تھا تک محیط تھا بعد میں جی نو سیکٹر میں کراچی سے لائے گئے کلرک اسٹاف کے لئے کوارٹر اور فلیٹ بنائے گئے اور یہ علاقہ کراچی کمپنی کہلاتا ہے۔ اس زمانے میں یہاں پر ڈبل ڈیکر بسیں چلتی تھیں جس پر سواری کرنے میں لندن کا لطف آتا تھا۔ 1951 میں یہاں کی آبادی ایک لاکھ کے قریب تھی جب کہ اب ایک سے ڈیڑھ کروڑ ہے۔

یہاں پر اب پاک فضائیہ، پولیس اور بحریہ کے صدر دفاتر ہیں ان کے اپنے تعلیمی ادارے اعلی پائے کے اسکول، کالج، یونیورسٹیاں اور ہسپتال ہیں۔ بری فوج نے بوجوہ اپنے صدر دفاتر راولپنڈی میں رکھے ہیں۔

یہاں پر دیگر بلند پایہ کالج اور یونیورسٹیاں، قائد اعظم یونیورسٹی، میڈیکل یونیورسٹی انجینئرنگ اور کمپیوٹر سائنس یونیورسٹی، اسلامک یونیورسٹی، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اور دیگر بیشمار ادارے ہیں۔ یہاں کے رہائشی عموماً تعلیم یافتہ ہیں جن کا تعلق مختلف شعبوں سے ہے۔ یہاں پر پاکستان کی تمام علاقائی زبانوں کے بولنے والے آباد ہیں جبکہ اردو عام بول چال کی زبان ہے۔ نئی نسل میں انگریزی کا پلہ بھاری ہے طبقہ امراء، اعلی سول اور فوجی ملازمین زیادہ تر انگریزی ملی اردو میں گفتگو کرتے ہیں۔ الحمدللہ اسلامی تشخص بھی بیشتر جگہوں پر کافی نمایاں ہے اور ہر طبقہ فکر کے لوگ نظر آتے ہیں۔ آبپارہ کی لال مسجد کا اندوہناک اور افسوسناک واقعہ اب بھی ذہنوں کو جھنجھوڑتا ہے۔ پچھلے دو سال دو فضائی حادثات بہی بے حد افسوسناک ہیں۔

اسلام آباد مشہور سطح مرتفع پوٹھوہار میں واقع ہے اور یہاں کی عام بولی پوٹھو ہاری کہلاتی ہے جو پنجابی اور پہاڑی زبان کا مجموعہ ہے یہ سطح مرتفع وادیٔ سندھ کی قدیم تہذیب اور گندھارا تہذیب کا گہوارہ تھا لاہور سے آتے ہوئے جہلم کے بعد سے اس سطح کی چڑھائی شروع ہو جاتی ہے۔ قرب و جوار میں آثار قدیمہ کے کافی شواہد ہیں۔ چند بڑی جھیلوں اور تالابوں سے پانی کی فراہمی اور رسد جاری ہے۔ اس میں راول جھیل، سملی ڈیم اور خانپور ڈیم قابل ذکر ہیں۔

موٹر وے کی تعمیر سے آمد و رفت میں تیزی کے سبب اسلام آباد لاہور، پشاور، ایبٹ آباد اور قرب و جوار کے دوسرے شہروں سے کافی قریب ہو گیا ہے۔ ملکہ کوہسار مری یہاں سے 2۔ 1 / 2 گھنٹے کا فاصلہ ہے اسی طرح مری سے آگے بھوربن، گلیات اور ایبٹ آباد جا سکتے ہیں۔

اسلام آباد کا ایک باغ چنبیلی اور گلاب کا باغ ہے اس کے ساتھ لوک ورثہ اور قریب میں کنونشن سنٹر ہیں سید پور گاؤں کو ایک ماڈل ویلیج کے طور پر محفوظ کی گیا ہے اس میں ایک پرانا ہندو مندر ہے اور دیس پردیس کے نام سے ایک علاقائی ثقافت کی ترجمانی کرنے والا ریستوراں ہے۔ یہاں پر کافی جدید، مشہور اور مختلف ممالک کے ذائقوں والے ریستوراں ہیں۔ یہاں کے ایف 6، 7، 8 اور ای 7 سیکٹر خصوصاً غیر ملکی ملازمین کی رہائش گاہیں ہیں وہ جو سفارت خانوں اور دے کر اداروں میں کام کرتے ہیں۔ کتابوں کے بہت بڑے بڑے اسٹور ہیں۔ سائن پلیکس کے کافی بڑے تھیٹر ہیں جہاں اب نئی فلمیں بھی خوب چلتی ہیں۔

پچھلے سوا سال سے عالمی وبا کووڈ 19 کی وجہ سے یہاں پر بھی کافی پابندیاں لاگو تھیں اور تفریحی مقامات بند تھے۔ الحمدللہ کہ اب حالات قدرے بہتر ہیں۔ یہاں پر بہترین خریداری کے مراکز اور ایک شاندار، دیدہ زیب شاپنگ مال سینٹارس کے نام کا ہے جبکہ مزید زیر تعمیر ہیں۔ ایک کافی عمدہ نئے خطوط پر تعمیر شدہ ہوائی اڈے نے اسلام آباد کی شان و شوکت بڑھا لی ہے۔

یہ شہر جو پہلے اپنی خاموش زندگی کے لئے بدنام تھا اب پوری طرح جاگ چکا ہے۔

خدا کرے کہ مری ارض پاک پر اترے

وہ فصل گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments