کورونا کی چوتھی لہر


کیا کورونا وائرس ایک حقیقت ہے یا حکومت عوام کو بیوقوف بنا رہی ہے؟ کیا ملک میں کورونا ہے بھی یا حکومت عالمی اداروں سے فنڈ لینے کے چکر میں ہے؟ کیا کورونا ویکسین لگوانی چاہیے یا نہیں؟ کیا ویکسین زندگی بچانے کے لیے ہے یا زندگی ختم کرنے کے لیے؟ حیرت ہوتی ہے لوگوں کی سوچ پر جب کورونا سے لڑتے ہوئے ہمیں ڈیڑھ سال سے زائد عرصہ ہو چکا ہے اور اس کے نتیجے میں اب تک دنیا بھر میں 40 لاکھ سے زائد افراد موت کے منہ میں چلے گئے ہیں جبکہ پاکستان میں بھی اب تک 22 ہزار سے زیادہ افراد زندگی کی بازی ہار چکے ہیں مگر ہمارے لوگ اس طرح کے سوال کرتے ہیں تو سوچتا رہ جاتا ہوں کہ جو لوگ وائرس کو تسلیم ہی نہیں کرتے وہ احتیاط کیا کریں گے۔ سندھ میں تو اس وقت حد ہو گئی جب حکومت نے مارکیٹوں میں کورونا ویکسین لگانے کے لیے ٹیمیں بھیجیں تو بہت سے لوگ اپنی دکانیں بند کر کے فرار ہو گئے۔

ملک اس وقت کورونا وبا کی تیسری لہر کی زد میں ہے مگر گزشتہ چند دنوں کے دوران کورونا کیسز کی شرح میں ہونے والا اضافہ ایک نئے خطرے کی نشاندہی کر رہا ہے اس وقت ملک میں کورونا کیسز کی شرح 3 فیصد سے بڑھ چکی ہے جبکہ اس سے قبل یہ شرح کم ہو کر 1 اشاریہ 99 فیصد تک آ چکی تھی۔ کورونا کیسز کی شرح میں روزانہ کی بنیاد پر ہونے والا اضافہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب دنیا کے مختلف ممالک ”ڈیلٹا ویرئینٹ“ نامی کورونا کی ایک نئی قسم کی لپیٹ میں ہیں جسے کورونا کی بھارتی قسم قرار دیا جا رہا ہے۔

عالمی ادارہ صحت نے خبردار کیا ہے کہ بھارتی قسم کا نیا کورونا وائرس اس وقت چین، آسٹریلیا، فرانس، برطانیہ اور بنگلہ دیش سمیت دنیا بھر کے 92 ممالک تک پھیل چکا ہے جن میں سب سے زیادہ متاثرہ ملک برطانیہ ہے جہاں روزانہ کی بنیاد پر کورونا کے پانچ ہزار سے زائد کیسز رپورٹ ہو رہے ہیں یہی وجہ حکومت برطانیہ 19 جولائی کو کورونا پابندیوں پر نرمی کے اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنے جا رہی ہے جبکہ بنگلہ دیش میں بھی کورونا وائرس کی بھارتی قسم ڈیلٹا ویرئینٹ تیزی سے پھیل رہی ہے جس کی وجہ سے پورے ملک میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے 28 جون کو بنگلہ دیش کی حکومت نے 7 دنوں کے لیے پورے ملک میں لاک ڈاؤن لگا کر آمد و رفت اور تمام سرگرمیاں محدود کر دی ہیں۔

عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کی نئی قسم پہلی قسم سے کہیں زیادہ خطرناک اور مہلک ہے ابتدائی تجربات کے مطابق اس وائرس کو اینٹی باڈی کے ذریعے بے اثر کرنے کے امکانات بھی محدود ہیں تاہم مکمل ویکسینیشن کے ذریعے اس کے اثر کو کچھ تک کم کیا جا سکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا کورونا وائرس کی بھارتی قسم پاکستان میں موجود ہے؟ اس حوالے سے وزارت صحت نے مئی میں اس کے امکانات کے باوجود کسی بھی کیس کی تردید کی تھی تاہم مئی کے آخر میں نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ نے بھارتی قسم کے ایک کیس کی تصدیق کی اور اب خبر آئی ہے کہ خیبر پختون خواہ میں باچا خان انٹر نیشنل ائر پورٹ پر بیرون ملک سے آنے والے مسافروں سے لیے گئے نمونوں میں بھارتی وائرس کی تصدیق ہوئی ہے تاہم ان میں 80 فیصد کیسز برطانوی قسم کے ہیں جن کی تشخیص قومی ادارہ برائے صحت اسلام آباد نے کی۔

پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری نے کہا ہے کہ ملک میں کورونا کیسز تیزی سے بڑھ رہے ہیں شہریوں نے ایس او پیز پر عمل درآمد نہ کیا اور احتیاط نہ کی تو جولائی کے آخر یا اگست کے شروع میں کورونا کی چوتھی لہر آ سکتی ہے جو بھارت کی طرح خطرناک ہو سکتی ہے۔ جبکہ ترجمان وزارت صحت کا کہنا ہے کہ کورونا کی صورتحال پر گہری نظر ہے۔ مئی اور جون میں مختلف اقسام کے کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی ہے پاکستان میں اس وقت ”ڈیلٹا“ ”بیٹا“ ”الفا“ اور ”ساختہ“ کورونا وائرس سامنے آئے ہیں جن کا تعلق بھارت، برطانیہ اور جنوبی افریقہ سے ہے جبکہ طبی ماہرین کا کہنا عید الاضحی پر اگر احتیاطی تدابیر اختیار نہ گئی تو کورونا کی چوتھی لہر انتہائی خطرناک ہو سکتی ہے ڈیلٹا ویرئینٹ کے پھیلاؤ کے خدشے کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا جبکہ نیشنل کمانڈ اینڈ کنٹرول سنٹر نے بھی حالیہ دنوں میں کورونا کیسز میں ہونے والے اضافے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے مختلف سیکٹر میں ایس او پیز کی خلاف ورزیوں کا نوٹس لیا ہے این سی او سی کے چیئرمین اس سے قبل جولائی کے آخر یا اگست کے شروع میں کورونا کی چوتھی لہر کے خدشے کا اظہار کر چکے ہیں۔

وطن عزیز میں کورونا کیسز کی شرح میں ہونے والے اضافے اور کورونا وائرس کی خطرناک اقسام سامنے آنے کے بعد ہمیں اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ کورونا کا مقابلہ صرف اور صرف احتیاط سے کیا جا سکتا ہے مگر افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ جیسے ہی کورونا کیسز میں کچھ حد تک کمی واقع ہوتی ہے تو ہم بالکل ہی احتیاط چھوڑ دیتے ہیں ویسے بھی ہم صرف اسی وقت احتیاط کرتے ہیں جب حکومت سختی کرتی ہے پھر بھی حالت یہ ہوتی ہے کہ لوگ ایک دوسرے سے کہتے ہیں یار ذرا اپنا ماسک دینا میں ہسپتال سے ہو کر ابھی آیا۔

گو کہ پہلی لہر کے مقابلے میں حکومت نے دوسری اور تیسری لہر میں مکمل لاک ڈاؤن نہیں لگایا مگر پھر بھی سمارٹ لاک ڈاؤن کے نتیجے میں دفاتر، اسکولز، مارکیٹوں اور دیگر شعبوں کی بندش کے نتیجے میں نظام زندگی بہت حد تک متاثر ہوا مگر جان سے بڑھ کر کچھ نہیں جان ہے تو جہان ہے۔

حالیہ دنوں میں کورونا کیسز میں ہونے والا اضافہ در حقیقت ہماری غیر سنجیدگی، بے احتیاطی اور ایس او پیز پر عمل درآمد نہ کرنے کا نتیجہ ہے اور اگر یہی حالت برقرار رہی تو ایک بار پھر ہمیں سنگین صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور ایک بار پھر ہمیں پابندیوں اور لاک ڈاؤن کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ایسی صورتحال میں ہمیں سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا ہوگا عید سے قبل مویشی منڈیوں، بازاروں اور عید الاضحی پر ہمیں رضاکارانہ طور ایس او پیز پر عمل درآمد کرنا ہوگا اور زیادہ سے زیادہ احتیاطی تدابیر اختیار کرنا ہوں گی ۔ تاکہ سر اٹھانے والے اس خطرے کو ہم ایک بار پھر شکست دینے میں کامیاب ہو سکیں۔ اپنے لیے اور اپنے پیاروں کے لیے احتیاط کیجئے یاد رکھئے دنیا کے لیے آپ ایک ہوں گے مگر اپنوں کے لیے آپ پوری دنیا ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments