عورت اور مذہب کو مسیحائی درکار ہے


مذہب اور اقدار کے نام پر گھریلو تشدد (روک تھام اور تحفظ) بل 2021 کو رد کیا گیا ہے۔ کیسا ہی عجب معاملہ ہے اس دین کے نام پر ظلم کو تجویز اور تفویض کیا جا رہا ہے جس نے اپنے ظہور کے ساتھ عرب سماج کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا۔ وہ دین جس نے عرب خاندانی نظام کو بوکھلاہٹ میں مبتلا کیا۔ عورت کو وراثت میں حق دینے کو کہا، تو نومولود بچیوں کو زندہ رکھنے پر زور دیا، بھائیوں کی بیواؤں کو سسر اور دیور کی جنسی غلامی سے آزاد ہی نہیں کرایا، اس کو دوبارہ اپنی رضا سے شادی کرنے کی جرآت دی۔

آج اسی دین کے نام پر خاندانی نظام کی بقا کے لئے غیر انسانی رویوں کو قائم رکھنے کی ہر توجیہ پیش کی جا رہی ہے۔ اسلام کی روایت ہی بغاوت اور تبدل ہے۔ کیسے لجاجت سے اسلام کو ذہنی، جسمانی، معاشی، جنسی، معاشرتی تشدد کا حامی کہا جا رہا ہے۔ ہر وہ تشدد جس کا نشان ہو نہ ہو، جس کی شدت سے آہ آسماں تک جاتی ہے مگر وہ ریاست تک نہ جاسکے، یہ کیسی حجت ہوئی؟ اس کو یہ تشدد کی تعریف میں ڈھالنے سے عاری ہیں، بضد ہیں کہ ان کے دراز دست کوئی تھام نہ سکے۔ تطادل کو طول دیتے رہیں اور کوئی مظلوم آہ بھی نہ کرے۔

آج دوبارہ یہ ثابت ہوا جو لوگ تشدد کرتے ہیں، تشدد سے طاقت سمیٹتے ہیں وہی تشدد کو شاندار سمجھتے اور سمجھاتے ہیں، وہی اس کے خلاف اقدامات پر کھڑے ہوتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کی میراث انصاف علم و حکمت نہیں ظلم جبر زیادتی ہے۔

آج ثابت ہوا کہ ان متشدد خون پر پلنے والوں کی ”شکار“ عورت ہی نہیں، اسلام بھی ہے۔ آج عورت اور اسلام دونوں کو مسیحائی درکار ہے۔ کہاں ہیں وہ عجم کے اسلام کے راہی، وہ سپاہی جو اسلام کے نام پر مر مٹنے کو نصب العین مانتے ہیں؟ اسلام کیوں خطرے میں نہیں ہے؟ اسلام جس کو سر بازار یہ دشنام دیا جا رہا ہے، اس کے محافظ کہاں ہیں؟

کیا آج اسلام کو تشدد سے تشبیہ دینے والوں کے خلاف جہاد برحق نہیں ہوتا؟ آج اسلام کو کسی زینب کی پھر سے کمی محسوس ہو رہی ہے، جو باطل کے سامنے بھی سر جھکائے نہ صوت میں نرمی لائے۔ آج اسلام پھر سے وعظ زینب کا محتاج ہے۔ اسلام کو دوبارہ سے بیچ دیا گیا ہے، اناؤں اور غرور کے عوض۔ کربلا ہے کہ برپا ہے، انصاف کی پیاس ہے کہ بڑھ رہی ہے، پھر سے یہ عصمتوں اور احترام کے خیمے گھمنڈ کی آگ سے جلائے جاتے ہیں۔ اسلام کے نعرے بلند کرتے ہیں اسلام کی بے توقیری کر کے۔

یہ چہرے، جنہوں نے اپنے عناد اور نخوت کے نام پر دین کو بیچ ڈالا، دوبارہ سے اس کی قیمت لگائی، تشدد اور معصیت کو لازم و ملزوم بنا ڈالا، ان چہروں سے خدا کبھی تو انصاف کرے گا۔ نفرت، دھونس، جبر، زیادتی، بے رحمی، دھمکی، نا انصافی، ہلاکت جس کو ختم کرنے کے لئے اسلام کا بیج بویا گیا، آج اسی ظلم اور اندھیرے کا بیج اسلام کے نام دوبارہ بویا گیا ہے۔

کسی اسلام کے داعی کو دل کے وسط میں ٹیس بھی اٹھتی محسوس نہیں ہوئی؟ اسلام کے نام پر اسلام کو کیسے اذیت دی جا رہی ہے؟ ظلم کی تائید ہوئی ہے، جبر کو وقعت ملی ہے، تشدد کا نام اونچا ہوا ہے، آبرو ریزی کا وقار بلند ہوا، توہین کو جلا بخشی گئی ہے اور وجہ مذہب ٹھہرایا گیا ہے اور کسی کے سینے میں ذرا سی ٹھیس نہیں پہنچی کہ تاجران دین نے بیچ ڈالا مذہب ؟ وہ اسلام جس کو وقار زینب کی شجاعت نے بخشا، وہی دین جس کی خاطر آل رسول قربان ہوئی۔ یہ مدعا وہی تو ہے ظلم کے مقابل سینہ سپر معصوم۔ یہ شمر ہی تو ہیں جو تکبیر خون بہا کر بلند کر رہے ہیں۔

کیسے بے رحم، سنگدل ہیں یہ نام لیوا، کس قدر منافق اور کذاب ہیں یہ داعی۔ تم ستم کی اس معراج پر ہو، جہاں قہر کی انتہا بھی تم کو تسکین نہیں دے پاتی۔ تم وہ بہکے ہوئے، نازیبا تخلیق خالق ہو جس کو خالق نے پناہ نہیں دینی۔ اپنی اناؤں کے منڈپ پر خود فریبی کے وہ گیت بھپتے ہو کہ شرم بھی شرم سار ہے، خود بد لحاظی اور حقارت کو کو تم سے اکتاہٹ ہے۔

مجھے یقین ہے کہ مکہ میں تم لوگ ہوتے تو دین کے نام لیواؤں پر بھی ایسے ہی وعظ دیتے جو آج مظلوموں کے خلاف نفرت اور بد تمیزی سے دیتے ہو۔ تم طائف کے وہی باسی ہو جو احمد عربی پر کنکر برساتے تھے۔ تم اسی روایت کے امین ہو، تم ہی مذہب کے دشمن ہو، اسلام کے مخالف ہو، خدا ہونے کے خاموش دعوی دار ہو۔ اسلام کو تم سے خطرہ ہے، بے آوازوں کی زبان نوچنے والے، مضر انسانی ایسی وبا ہو جو اس دین میں پھیل چکی ہے۔

عورت کے خون سے تمہارا غسل ہوتا ہے، اس کی اذیت ہی تمہارے یہ نہ بھرنے والے شکم سیر کرتی ہے، تشدد کی آگ پر زندہ جلنے والی عورت کے اطراف طاقت کا بے حیا ایسا رقص کرتے ہو کہ دنیا کی کوئی دلیل تمھیں زیر نہیں کرتی۔ اپنی ماؤں کی حق تلفی دیکھتے اس نہج پر پہنچے ہو، ماں کو جنت تک رسائی کا آلہ تو بنایا، مگر اپنے جیسے مردوں کے ہاتھوں اپنی ماؤں پر دن رات پڑتے مار کے گرم تھپیڑے نہ روک پائے۔ اس وبا کے بعد کے انسان ہو جو انسان کو کھاتا نہیں تھکتا، تم تشدد پر کیا وعظ دو گے، تمھارے وجود کا نام دنیا میں تشدد کا نام ہے۔ وہ تشدد جس کو قرآن ناطق نے آ کر سلب کیا۔ ان کے جاتے ہی تم اپنی اوقات میں واپس پلٹ آئے۔

کائنات کے لاکھوں خزانوں میں ایک مادی خزانہ اور بھی ہے، جو نظر نہیں آتا، جس کو تلاش بھی نہیں کیا جاتا، شاید لکڑی کا بنا شاہکار ہے مگر دیکھا کسی نے نہیں، ہم صرف سوچ سکتے ہیں، اس کا نام اللہ کی لاٹھی ہے۔ وہ اس کائنات میں کہیں نہ کہیں موجود رہتی ہے۔ اس کی آواز ہے نا کوئی نشان۔ وہ تم جیسے مکروہ جھوٹے مبلغوں اور ظلم کے خیر خواہوں کو خوب اچھے سے جانتی ہے، شاید وہ بھی عورت ہے اس لئے تمہارے بیداد کو قریب سے پہچان سکتی ہے۔

وہ جب تمہارے تند در پر دستک دیتی ہے تو مظلوم کی نفرت اور ظالم کی دوستی میں تم سنتے نہیں مگر اس کو اپنا وار بنا دستک کے بھی نشانے ہر لگانا آتا ہے۔ خدا کا نشانہ چھوٹ نہیں سکتا، تم جیسے لاکھوں خاک ہوئے اپنے انہی تشدد، منافرت، غرور کے ساتھ اب دفن بھی نہیں رہے۔ زمین میں غرق ہو گئے اسی غرور اور جبر دوستی کے لبادوں میں۔

اس دنیا کا کوئی گھرانا ایسا نہیں ہے جہاں کمزور پر تشدد نہ ہوتا ہو۔ اس ملک کا کوئی ایسا آشیانہ نہیں جہاں تشدد کو دلائل سے سینچا نہ جاتا ہے۔ جسم سے لے کر روح کو گھائل اور زائل کرنے والے تمام تدابیر استعمال نہ کی جاتی ہوں۔ انسان مر جاتے ہیں، بکھر جاتے ہیں، زندہ ہو کر زندہ نہیں ہوتے، اس لئے رحم کرنا سکھایا جاتا ہے مگر رحم نہیں کیا جاتا۔ اس معاشرے میں ہزلیات عورت کا مقدر ہے، تشدد اس کی قسمت میں ہے، وہ لکھا ہوا نہیں ہے۔ اس پر ثبت کیا گیا ہے۔

لاکھوں عورتیں اعصابی تناؤ اور جذباتی حربوں میں مقید ہو کر وہ سب کر جاتی ہے جو جیتے جی ان کو مار دیتا ہے۔ کمزور بآسانی مار دیے جاتے ہیں اور کسی کو خبر نہیں ہوتی، کوئی خبر بھی نہیں دیتا۔ غرض کہ تشدد کا بھیانک طوفان برپا ہے اور کوئی بے چین نہیں۔ طوفان کو طول دینے والے ہر وہ قدم اٹھاتے رہے ہیں جس سے ان کو تقویت ملے، ان کے جرائم کو محفوظ کیا جائے، کوئی ان چھوٹے اور جھوٹے زمین کے خداؤں پر آنچ نہ آنے دے۔ یہ ہے بس ان کا سنہرا سماج، ان کا غرض، ان کی حرص۔ آج اسلام اور عورت دونوں ایک ساتھ کھڑے ہیں، دونوں بے کل ہیں۔ عورت کو بھی اپنے حرص کے لئے استعمال کیا اور اسلام کو بھی۔ شاید اسلام اور عورت دونوں کو ان خدا دشمنوں سے آزادی درکار ہے۔

خدا ظالموں کی عاقبت ایک دوجے کے ہمراہ کرے، اس ملک کی عورت اور اسلام کی حفاظت کرے کہ ان تک تم جیسے جھوٹے اور ظالم کو رسائی تلک نہ ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments