افغانستان میں طالبان کی ’واپسی‘ پر پاکستان کے قبائلی لوگوں میں تشویش: ’ہمارے کچھ خوف اب ابھی برقرار ہیں‘

محمود جان بابر - صحافی


’میں اس گیٹ کے ساتھ ہی بیٹھا ہوا تھا جہاں میری دُکان تھی۔ ایک گاڑی آئی، اس نے گیٹ پر کھڑے لیوی اہلکار کو کہا ’دروازہ کھولو‘۔ لیوی والے نے انکار کر دیا۔ گاڑی میں بیٹھے لڑکے کے گلے میں ایک ہار تھا اور گاڑی میں پیچھے بجری پڑی ہوئی تھی۔۔۔ اچانک ایک خوفناک دھماکہ ہو گیا۔‘

سمیع اللہ عرف جندول خان کو آج بھی 11 سال قبل نو جولائی کو سابقہ مومند ایجنسی کی تحصیل یکہ غنڈ کے مومند گیٹ پر ہونے والا ہولناک خودکش دھماکہ یاد ہے۔

خیبر پختونخوا کے صوبائی دارالحکومت پشاور سے ورسک روڈ کے ذریعے قریب ڈیڑھ گھنٹے میں قبائلی ضلع مومند پہنچا جا سکتا ہے جہاں مومند گیٹ لوگوں کا استقبال کرتا ہے۔ آج بھی یہاں داخلے سے قبل پولیس اور سکیورٹی فورسز کی کڑی چیکنگ سے گزرنا پڑتا ہے۔

سمیع اللہ وہاں اپنی کولڈ ڈرنکس اور فوٹو سٹیٹ کی دکان چلا رہے تھے جب ایک شخص نے خود کو ایک سرکاری عمارت کے دروازے پر اڑا دیا۔ ’میں نے کچھ مہمانوں کے لیے چائے منگوائی ہوئی تھی۔ ابھی میں اور میرا بیٹا مہمانوں کے لیے چائے ڈال رہے تھے کہ اچانک دھماکہ ہوا اور اس کے ساتھ ہی تمام دکانیں زمین بوس ہو گئیں۔‘

دھماکے کی جگہ پر واقع اس سرکاری عمارت میں مقامی حکام اور قبائلی رہنماؤں کا جرگہ اپنے علاقوں میں پاکستانی طالبان کا راستہ روکنے کے لیے فوری اقدامات کا فیصلہ کر رہا ہے۔

یہ دھماکہ یکہ غنڈ بازار کے تاجروں کے صدر امیر زادہ کے گھر کے سامنے ہوا تھا اور انھوں نے اس میں متعدد خاندان والے کھو دیے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’اس جمعے کی صبح مجھے ایسا لگا جیسے میرا ہی گھر نشانہ بنایا گیا۔ گرمی بہت ہی زیادہ تھی۔ جب باہر نکلا تو دیکھا کہ بازار تباہ حال پڑا تھا، دکانیں گری پڑی تھیں۔‘

سمیع اللہ کے الفاظ میں اس وقت ’زمین پوری طرح نیچے دھنس چکی تھی۔ ہمیں کسی چیز کی سمجھ نہیں آئی کہ یہ ہوا کیا ہے۔ ‘

وہ یاد کرتے ہیں کہ ’میری دکان بھی میرے پر گر چکی تھی۔ مجھے ہوش آیا تو جاوید میجر کھڑا تھا۔ میں نے اپنے بیٹے کو آوازیں دینا شروع کیں اور جاوید میجر اپنے بیٹے کو ڈھونڈ رہا تھا۔۔۔ میں ٹوٹی ہوئی ٹانگ کے ساتھ ہی دھماکے کی جگہ پر پھرتا رہا۔‘

ایک وقت تھا جب مومند ایجنسی میں پاک افغان سرحد پر بہت سارے مقامات ایسے تھے جن میں حد بندی ہی نہیں ہوئی تھی۔ کئی بڑے اور چھوٹے قبیلے سرحد کے دونوں طرف آباد ہیں جن میں سے بہت سوں کو یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ کس بھائی کا گھر پاکستان میں واقع ہے اور کس کا گھر افغانستان میں ہے۔

یہ وہ دن تھے جب طالبان کے بارے میں یہ تصور عام تھا کہ وہ ان علاقوں میں کافی اثر و رسوخ رکھتے ہیں، انھیں گلی محلے اور جرگے کی خبر رہتی ہے اور حملوں کے ذریعے لوگوں کو خوفزدہ کر سکتے ہیں۔

حالت یہ تھی کہ مومند ایجنسی کے کئی علاقے زیادہ تر عسکریت پسندوں یا پاکستانی طالبان کے زیر اثر آ چکے تھے اور وہ صبح سڑکوں پر ناکے لگا کر گاڑیوں میں سوار سرکاری اہلکاروں کی چیکنگ کرتے تھے کہ ان کو مطلوب کوئی اہلکار اگر ان میں موجود ہو تو وہ اسے ساتھ لے جا سکیں۔

سمیع اللہ نے اس روز اپنا بیٹا کھو دیا اور ان کی آمدن کا واحد ذریعہ آنکھوں کے سامنے مٹی میں مل گیا۔ مگر اس کے ساتھ اب بھی ان کی زندگی پر مسلسل خوف کے سائے منڈلا رہے تھے۔

’ان دنوں طالبان کے خوف سے ہم گھر سے بھی نہیں نکل سکتے تھے۔ چھپ چھپا کے کبھی شام اور کبھی رات کو نکلتے تھے کہ (کہیں پھر سے) دھماکہ نہ ہو جائے۔‘

عام لوگ ہی نہیں بلکہ مقامی عمائدین بھی ڈر ڈر کر جرگے منعقد کرتے تھے اور ایک دوسرے سے حجروں اور مساجد میں بات کرتے تھے کہ کیسے دہشتگردی سے بچا جا سکتا ہے۔ لیکن کسی کے پاس ایسا کوئی حل نہیں تھا جو قابل عمل ہوتا۔

’اپنے آبائی گھر کے قریب دھماکے کی رپورٹنگ کر رہا تھا‘

اس واقعے کو آج بھی دنیا میں دہشتگردی کے بڑے واقعات کی فہرست میں شمار کیا جاتا ہے۔ دہشتگردی کے اثرات اور حکمت عملی کو سمجھنے والے جانتے ہیں کہ چارسدہ سے متصل مومند اور اس کی تحصیل یکہ غنڈ جیسے مقامات سے ہو کر دہشتگرد ان علاقوں میں آتے تھے۔ اسی لیے یہاں اتنے بڑے حملے ممکن ہوئے۔

مہمند دھماکہ

2010 کے مہمند دھماکے میں کم از کم 104 افراد ہلاک ہوئے تھے اور یہ ملک کی تاریخ میں سب سے خوفناک خودکش حملوں میں سے ایک ہے

مومند میں دو ایسے مقامات ہیں جنھیں قبائل باضابطہ سرحدی مقامات کے زمرے میں شمار کرتے ہیں، گورسل اور نواپاس۔ یکہ غنڈ سے افغانستان کی سرحد کسی بھی طرح پچاس سے سو کلومیٹر سے زیادہ دور نہیں۔ یہ سرحدیں افغان صوبوں ننگرہار اور کنڑ سے جڑی ہوئی ہیں۔

سرکاری اعداد و شمار اور مقامی لوگوں کے مطابق اس دھماکے میں کم از کم 104 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ ان میں سرکاری اہلکار، دکاندار، راہ گیر اور گھروں میں موجود خواتین اور بچے شامل تھے۔ سو سے زیادہ لوگ زخمی حالت میں ہسپتال لائے گئے تھے۔

سینیئر صحافی شمس مومند کا کہنا ہے کہ دھماکہ ان کے آبائی گھر سے چند قدم کے فاصلے پر ہوا جب وہ پشاور میں ایک نیوز چینل میں بطور رپورٹر کام کر رہے تھے۔ اپنی ڈیوٹی کے سلسلے میں وہاں فوراً پہنچنے پر انھیں معلوم ہوا کہ اس کے نتیجے میں خود ان کے خاندان کے کئی لوگ لاپتہ اور زخمی ہوئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

امریکی فوج کے انخلا کے بعد افغانستان میں کیا حالات ہوں گے؟

قبائلی نوجوان کی ہلاکت سے جنم لینے والی پشتون تحفظ موومنٹ کیا اپنی مقبولیت کھو رہی ہے؟

’شوہر کے علاوہ سب سسرال والے مجھے اپنے رشتہ دار کی موت کا ذمہ دار ٹھہراتے‘

درّہ خیبر: جہاں سکندرِ اعظم سے لے کر انگریزوں تک، سب کے غرور خاک میں مل گئے

ان کا کہنا ہے کہ ’میں رپورٹنگ کے دوران بول تو رہا تھا لیکن میرا ذہن کئی محاذوں پر تقسیم تھا۔‘

’نیوز روم میرے ساتھ رابطے میں تھا اور مجھے اتنا وقت نہیں مل رہا تھا کہ میں اپنے بھانجوں اور بھتیجوں کے بارے میں معلوم کر سکوں کہ وہ کس حال میں ہیں۔ اہل علاقہ بھی میری رپورٹنگ کے دوران مجھ سے ہی پوچھ رہے تھے لیکن میں پوری طرح بے بس اور لاچار تھا۔‘

شمس مہمند

صحافی شمس مومند بتاتے ہیں کہ ان دونوں حالات ایسے تھے کہ ’صبح گھر کی عورتیں مردوں کو باہر جانے سے روکتی تھیں‘

شمس مومند کہتے ہیں کہ جائے وقوعہ پر موجود سرکاری عمارت میں مقامی لوگوں کے ساتھ جرگے کے رہنما تھے۔ ’حکومت کی کوششوں سے ہر علاقے میں طالبان کا راستہ روکنے کے لیے کمیٹیاں بنانے کا عمل جاری تھا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ جو قبیلے یا ان کے عمائدین حکومت کا ساتھ دینے کو تیار نہ ہوتے تو حکومت اس قبیلے کو ملنے والی مراعات کے بند کرنے کی دھمکی دیتے تھے۔

ان کے مطابق بظاہر طالبان نے اپنے خلاف اقدامات کو روکنے کے لیے خوفناک ردعمل دیا۔ دھماکے کے بعد طالبان نے اس کی ذمہ داری قبول کی تھی اور کہا تھا کہ ان کے خلاف جہاں بھی کوئی منصوبہ بندی ہو گی وہ اس کا راستہ روکیں گے۔

وہ بتاتے ہیں کہ مقامی لوگوں میں اس حوالے سے دوبارہ تشویش پائی جاتی ہے کیونکہ ’افغانستان میں ایک بار پھر حالات بدل رہے ہیں اور شاید ان کے علاقے میں بھی وہ اثرات پھر آجائیں جو سال 2007 سے 2014 کے درمیان تھے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’ماضی میں ان سب کو عسکریت پسندوں اور ان کے جاسوسوں کے خوف نے جکڑے رکھا۔‘

شمس مومند کہتے ہیں کہ 2007 سے 2014 کے درمیان ’حالت یہ تھی کہ صبح گھر کی عورتیں مردوں کو باہر جانے سے روکتی تھیں کہ ’پتا نہیں باہر کیا ہو جائے اس لیے گھر سے باہر نہ جائیں۔‘

’اگر پھر طالبان آئے تو ہم لوگ کیا کہہ سکتے گے‘

یہاں ایک مسجد کے احاطے میں نمازی ظاہر شاہ (نام تبدیل کر دیا گیا ہے) نے بتایا کہ ’ہم اب بھی جب آپس میں بات چیت کرتے ہیں تو یہ موضوع ضرور زیرِ بحث آتا ہے کہ اگر پھر کبھی ایسا وقت آیا تو ہمیں کیا کرنا چاہیے۔ (مگر) ہم کسی نتیجے پر نہیں پہنچتے۔‘

’ہمارے ذہنوں میں اب بھی بہت سارے سوالات ہیں جن کے جواب ہمیں نہیں ملے اور ہمارے کچھ خوف اب ابھی برقرار ہیں۔ حکومت خود تو محفوظ ہو جاتی ہے لیکن ہمارے لیے خود کو بچانا مشکل ہو جاتا ہے۔ ہم دھماکوں میں مارے جاتے ہیں، اغوا ہوتے ہیں اور بہت ساری مشکلات ہماری زندگی میں آجاتی ہیں۔‘

اس علاقے کے لوگ اتنے مہمان نواز ہیں کہ اگر کوئی مہمان ان کے ساتھ بیٹھ کر ایک کپ چائے پی لے تو یہ اسے ہمیشہ کے لیے دوست بنا لیتے ہیں۔ مگر اس کے باوجود اب وہ نہیں چاہتے کہ کوئی ان سے دہشت گردی اور اس میں ان کے کردار کے معاملے پر زیادہ بات کرے۔

امیر زادہ

مارکیٹ میں تاجروں کی تنظیم کے صدر امیر زادہ کے لیے یہ دن اس لیے زیادہ خوفناک تھا کیوںکہ اس میں ان کے خاندان کے متعدد افراد ہلاک ہوگئے تھے

یکہ غنڈ بازار میں تاجروں کی تنظیم کے صدر امیر زادہ کہتے ہیں کہ ’اس وقت پہلے جیسا خوف تو نہیں ہے لیکن پھر افغانستان میں حالات خراب ہو رہے ہیں اور اگر پھر طالبان آئے تو ہم تو عام لوگ ہیں ہم کیا کہہ سکتے ہیں؟‘

اس خوفناک دھماکے میں امیر زادہ نے اپنے گھر کی پانچ جوان اور کم عمر بیٹیاں، بھتیجیاں اور دو لڑکے کھوئے ہیں۔ اس روز ان کے گھر سے سات جنازے اٹھے لیکن وہ اب بھی کوئی حتمی رائے بنانے میں کامیاب نہیں ہو سکے کہ آئندہ کیا حکمت عملی ہونی چاہیے۔

دھماکے میں بچ جانے والے سمیع اللہ یاد کرتے ہیں کہ ’ان دنوں حالات بہت ابتر تھے۔ اب تو بہت بہتر ہیں۔ زندگی ایک ڈگر پر چل رہی ہے۔‘

بازار میں گری ہوئی زیادہ تر دکانیں دوبارہ تعمیر کی جا چکی ہیں۔ گھر بھی قریب دوبارہ تعمیر ہو چکے ہیں۔ جو زخمی ہوئے تھے وہ بھی اب اپنے پیروں پر کھڑے ہو چکے ہیں۔

مگر پُرتشدد واقعات سے کتنا معاشی اور معاشرتی نقصان ہوا، اس پر شمس مومند کہتے ہیں کہ ’قبائلی علاقوں میں تباہی کی بڑی وجہ تھی کہ وہ اگر حکومت کو کچھ کہتے کہ ہم ایسا نہیں کرسکتے تو حکومت، انتظامیہ اورفوج مل کر انھیں طالبان کے حامی کہتے۔ جبکہ حکومت کا ساتھ دینے پر طالبان ناراض ہوتے اور ان کو نشانہ بناتے۔‘

’اس سارے معاملے میں سینکڑوں نہیں ہزاروں قبائلی عمائدین، علاقہ مشران، نوجوان، سماجی کارکن اور صحافی نشانہ بنے اور یہ سلسلہ 2014 تک چلتا رہا۔ یہاں کے لوگ عسکریت پسندی کی اس لہر کو دیکھ کر یہ کہتے ہوتے تھے کہ یہ جو کچھ ہو رہا ہے یہ دراصل قبائلی نظام کو شدید متاثر کرنے کی سازش ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اس سے قبائلی تہذیب کو شدید نقصان پہنچا۔ ’ہماری ساری ثقافت بُری طرح متاثر ہوئی۔ غمی و خوشی میں شریک ہونا، شام کو حجروں میں بیٹھنا اور مساجد میں ایک دوسرے کے ساتھ اجتماعات، یہ سب تقریباً ختم ہو چکے تھے۔‘

’اسی لیے لوگ یہ کہتے تھے کہ یہ ہمارے کلچر پر حملہ تھا۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp