یادوں کے دریچے۔ محمد یسین میر، میرا دوست میرا بھائی۔


پچھلے سال دو جنوری کی رات انتہائی لمبی اور سرد تھی۔ بمشکل ایک بجے مجھے نیند آئی۔ گہری نیند کا ابھی ایک گھنٹہ ہی ہوا ہو گا کہ موبائل کی گھنٹی بجی۔ میں ہڑبڑا کر اٹھ گیا۔ لاہور سے بچپن کے دوست وسیم کا فون تھا۔ او بھائی! کیا مصیبت آ گئی جو اس وقت جگا دیا۔ میں نے پوچھا۔ خلاف معمول اس کا لہجہ سنجیدہ تھا۔ یار! یسین کا انتقال ہو گیا ہے۔ کیا کہہ رہے ہو بھائی، ابھی تین دن پہلے تو میری اس سے بات ہوئی ہے۔ وہ ٹھیک ٹھاک تھا۔

میری آواز رندھ گئی۔ میں نے گھڑی دیکھی جس پر رات کے تین بجے تھے۔ میری ہمت نہیں ہوئی کہ بھابھی کو فون کر کے تصدیق کروں۔ برمنگھم میں اپنے بیٹے کو فون کیا کہ پتہ کرو کیا ہوا ہے۔ بیٹے نے چند منٹ بعد تصدیق کی کہ واقعی ان کا آج شام کو ہسپتال میں انتقال ہو گیا ہے اور کل ظہر کی نماز سے پہلے جنازہ ہے۔ پھر صبح تک نیند نہیں آئی۔ رہ رہ کر ماضی کی باتیں فلم کی طرح ذہن کے پردہ سکرین پر چلتی رہیں۔ سکول کی باتیں، کالج کے قصے، انگلینڈ کے واقعات اور ملاقاتیں یاد آ آ کر آنکھیں بھگوتی رہیں۔

صبح گاؤں میں واقع ان کے گھر گیا۔ اس کا چھوٹا بھائی شاہد میرے گلے لگ کر بہت رویا۔ وہ گھر میں سب سے چھوٹا اور بھائی کا بہت لاڈلہ تھا۔ انکل بشیر سے ملنے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی۔ وہ صاحب فراش ہونے کی وجہ سے بیڈ پر تھے۔ میں باہر ہی بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر بعد شاہد آیا اور کہا کو ابو آپ کا پوچھ رہے تھے۔ میں ان کے کمرے میں داخل ہوا، جیسے ہی انہوں نے مجھے دیکھا، وہ ہمت کھو بیٹھے اور مجھے گلے لگا کر بے اختیار رو دیے۔ کافی دیر مجھے سینے سے لپٹائے رکھا۔ میں جو ان کی ہمت بندھانے کا حوصلہ لے کر آیا تھا، خود ہی حوصلہ کھو بیٹھا۔ ان کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر کتنی دیر میں ان کے پاس گم سم بیٹھا رہا۔

1972 ء میں، میں نویں کلاس میں تھا۔ حسب معمول جماعت میں اپنے مخصوص ڈیسک پر بیٹھنے لگا تو وہاں پہلے ہی ایک خوبصورت اور شرمیلا سا لمبا تڑنگا لڑکا بیٹھا تھا۔ میں نے اپنا بستہ ڈیسک پر رکھا اور اس سے پوچھا، یہاں کیوں بیٹھے ہو؟ اس نے جواب دیا کہ آج ہی اس کا داخلہ ہوا ہے اور جگہ خالی دیکھ کر بیٹھ گیا۔ یہ میرا یسین میر سے پہلا تعارف تھا جو پہلے دن ہی دوستی میں تبدیل ہو گیا۔ جب مزید باتیں ہوئیں تو پتہ چلا کہ ہمارے والدین کی بھی آپس میں اچھی سلام دعا تھی۔

اس کے بعد ہم اکثر سکول میں اکٹھے نظر آنے لگے۔ دو سال بڑی جلدی گزر گئے۔ میٹرک کے بعد ہم نے اکٹھے ہی گورنمنٹ کالج میرپور میں داخلہ لیا۔ ہم دونوں کے والدین ہمیں ڈاکٹر بنانا چاہتے تھے۔ کالج میں ہمارے ہی سکول کا ساتھی وسیم امجد بھی ہمارے ساتھ شامل ہو گیا۔ اب ہم تینوں کالج میں اکٹھے نظر آتے۔ کلاس روم میں بھی ہم اکٹھے ہی بیٹھا کرتے۔ اکٹھے فلمیں دیکھنے جاتے۔

یسین اپنے بہن بھائیوں میں سب سے بڑا تھا اور میں اپنے گھر میں سب سے چھوٹا تھا۔ کالج میں فارغ وقت میں ہم لان میں بیٹھ جاتے۔ وہ اپنے گھر کی چھوٹی چھوٹی باتیں مجھ سے کرتا تھا۔ وہ چار پانچ بہن بھائی تھے جبکہ میں گھر میں اکیلا تھا۔ میرا کوئی بھائی نہیں تھا اس لئے میں اسے اپنا بڑا بھائی سمجھنے لگا تھا۔ وہ بھی مجھے اپنے ہی خاندان کا فرد سمجھتا تھا۔ کالج میں دو سال کلاس میں اکٹھے رہنا۔ اکٹھے پریکٹیکل کرنا۔ کالج سے فارغ وقت میں کبھی کلیال ہوٹل میں بیٹھنا جس کا بل ہمیشہ وہی ادا کرتا تھا۔ اکٹھے فلمیں دیکھنا ہمارا معمول رہا۔

کالج سے واپسی پر ہم بس میں اکثر اکٹھے سفر کرتے تھے۔ دو سال گزرنے کا پتہ ہی نہیں چلا۔ ایف ایس سی کا رزلٹ آیا تو ہمارے نمبر بہت ہی کم آئے جس کی وجہ سے میڈیکل کالج میں داخلہ نا ممکن تھا۔ یسین نے گھر والوں کے دباؤ پر ایف ایس سی کا امتحان دوبارہ تیاری کر کے دینے کا فیصلہ کیا اور ساتھ ہی بی ایس سی میں داخلہ بھی لے لیا۔ امتحان کی تیاری کے لئے وہ کالج کے ہوسٹل میں منتقل ہو گیا۔ میں نے اور وسیم نے بی اے میں داخلہ لے لیا۔

ہم بے فکرے تھے اس لئے کچھ دیر کے لئے ہماری راہیں جدا ہوئیں، لیکن پھر بھی کبھی کبھی ہم اس کے ہوسٹل چلے جاتے۔ حالانکہ ہوسٹل کے انچارج پروفیسر راجہ آزاد صاحب بہت سخت تھے۔ ان سے اکثر ہمیں ڈانٹ بھی پڑتی۔ ایف ایس سی میں دوبارہ اس کے نمبر کم آئے تو اس نے پھر بی ایس سی پر پوری توجہ مرکوز کر لی۔ اب اکثر کالج میں خالی پیریڈ میں ہم اکٹھے ہو جاتے۔

ایف ایس سی کے دوران ہی اس کی منگنی انگلینڈ میں ہو گئی تھی۔ اس نے برطانوی منگیتر ویزہ کے لئے اپنا کیس بھی برطانوی ایمبیسی میں جمع کروا دیا تھا۔ ہم ہر مہینے اس کی طرف سے ایمبیسی کو ویزہ کے لئے ایک خط لکھ کر بھیجتے تھے۔ گریجویشن کے امتحان سے ایک ماہ پہلے میرے والد محترم کا انتقال ہوا، جس سے میں اکیلا رہ گیا تو وہ ایک ہفتہ وہ میرے پاس رہا۔ میری بڑی ہمت بندھائی۔ ہمارے گریجویشن کے امتحان ختم ہونے کے ایک ماہ بعد اس کا برطانیہ کا ویزہ لگ گیا اور وہ انگلینڈ چلا گیا۔ اس کے بعد چھ سات سال تک اس سے رابطہ منقطع رہا۔

اس دوران مجھے بینک میں ملازمت ملی، میری شادی ہو گئی۔ چھ سال بعد وہ ایک دن اچانک میری برانچ میں آیا۔ اس اچانک ملاقات سے ہم دونوں ہی بہت خوش ہوئے۔ دوسرے دن وہ گھر آیا، میری بیوی بچوں سے ملا اور پھر ہمارا رابطہ دوبارہ بحال ہو گیا۔ جب بھی اس کا کوئی رشتہ دار پاکستان آتا وہ میرے اور میرے بچوں کے لئے کپڑے اور تحائف بھیجنا نہ بھولتا۔ سال دو سال بعد جب بھی اس کا پاکستان آنا ہوتا، ہم دونوں اکٹھے ہوتے، ڈھیروں باتیں کرتے۔ وسیم سے ملنے کا پروگرام بناتے، اس کو کبھی پشاور اور کبھی لاہور جا کر ملتے۔ بھابھی اور اس کے بچے بھی جب کبھی پاکستان آتے ہمارے پاس ضرور آتے۔

دو ہزار چار میں، میں پہلی دفعہ برطانیہ گیا تو مجھے ملنے لیڈز سے ڈربی آیا اور مجھے اپنے ساتھ اپنے گھر لے گیا۔ ایک ہفتہ اس نے اپنے کام سے چھٹی لے رکھی تھی۔ ہم دونوں نے پورے یارکشائر کی سیر کی۔ ہل کا فش میوزیم۔ پرانے شہر یارک کی پرانی گلیاں، پرانا چرچ، بغیر پلر والا رسوں کا پل اور بہت سی دوسری جگہیں ہم نے دیکھ ڈالیں۔ اس کی پسندیدہ برجلنگٹن بیچ پر ڈرنے کے باوجود میں نے اس کے ساتھ شپ کی سواری کی، جو اسے بہت پسند تھی۔ آخری دن میرے اور میرے بچوں کے لئے اتنے زیادہ تحائف لینے سے منع کیا تو مجھ سے ناراض ہو گیا اور زبردستی بیگ میرے سامان میں رکھ دیا۔

اگلے سال میرے بیٹے کا انگلینڈ کی لیڈز یونیورسٹی میں ایڈمشن ہوا تو سپانسر سے لے کر فیس ادا کرنے اور وہاں اپنے فلیٹ میں اس کی رہائش کے سارے مراحل مکمل کر کے بیٹے کو اپنے پاس رکھا۔ اسے کہا کہ اگر کوئی مسئلہ ہوا تو مجھے بتانا، ابو کو پاکستان فون مت کرنا۔ جب موبائل فون سروس شروع ہوئی تو پھر ہر ہفتے شام کو ہماری بات چیت ہوتی۔ وہ بڑے دھیمے لہجے میں بات کرتا اور گھر کی چھوٹی چھوٹی باتیں بھی مجھ سے کرنا اس کا معمول تھا۔

کچھ فیملی معاملات اور بڑے بیٹے کے گھر چھوڑ جانے پر اسے بہت گہرا صدمہ پہنچا تھا جس سے وہ شوگر کا مریض ہوا۔ اس کی آنکھوں کی بینائی متاثر ہوئی۔ بڑے بیٹے سے اس کی بڑی امیدیں وابستہ تھیں جس کا اکثر وہ مجھ سے اظہار بھی کیا کرتا تھا۔ میں نے اسے بہت تسلی دی لیکن یہ بات اس کے ذہن سے نہیں نکلتی تھی۔ پاکستان میں گھر بنانے میں، بھائیوں اور بہنوں کی شادیاں کرنے اور انہیں سیٹل کرنے میں اس نے بہت کام کیا۔ آخری ایک دو سال چھوڑ کر ساری زندگی اس نے بہت محنت کی۔ عام لوگوں کی طرح کبھی سوشل سیکورٹی کا سہارا نہیں لیا۔

ایک دفعہ میں اس سے ملنے اس کے پاس گیا تو ہم ساری رات ڈرائینگ روم میں بیٹھے باتیں کرتے رہے۔ بھابھی کہیں صبح کی نماز پڑھنے نیچے اتریں تو ہمیں جاگتا دیکھ کر یسین سے بہت خفا ہوئیں کہ گھر آئے مہمان کو سونے نہیں دیا۔ پھر ایک دن پتہ چلا شوگر کی وجہ سے پاؤں میں گینگرین ہو گئی ہے۔ بعد میں ڈاکٹروں نے اس کا متاثرہ پاؤں کاٹ دیا۔ میں نے فون پر اسے تسلی دی اور پرہیز کرنے کو کہا۔ اس دفعہ وہ مجھے فکر مند دکھائی دیا کیونکہ وہ اب چلنے پھرنے میں تکلیف محسوس کرنے لگا تھا۔

اگلے سال میں اس سے ملنے گیا تو یہ جان کر مجھے شاک لگا کہ شوگر کی وجہ سے اس کے گردے کام کرنا چھوڑ رہے تھے اور ڈاکٹر نے اسے ڈائیلاسز کے لئے تیار رہنے کو کہہ رہے تھے۔ اس سے اگلے تین ماہ بعد اس نے باقاعدہ ڈائیلاسز کرانا شروع کر دیا تھا۔ وہ ہفتے میں دو دفعہ اکیلے ہسپتال جاتا اور ڈائیلاسز کرا کے گھر آ جاتا۔ ڈائیلاسر کرواتے ہوئے اکثر اس کا فون آ جاتا اور وہ مجھ سے باتیں کرتا۔ میں اپنی ساری مصروفیات ترک کر کے اس کا فون سنتا۔

اسی دوران وہ دو دفعہ والدین سے ملنے پاکستان آیا تو میرے دفتر کے سامنے واقع ریاست ہسپتال میں اس کے ڈائیلاسز کا بندوبست ہوا۔ میں اکثر فارغ ہوتا تو اس کے پاس جا کر بیٹھ جاتا اور ہم گھنٹوں پرانی یادیں تازہ کرتے۔ میں جب بھی انگلینڈ گیا، کہیں اور جاؤں یا نہ جاؤں لیکن اس سے ملنے اس کے پاس لازمی جانا ہوتا تھا۔ میرے انگلینڈ میں موجود بچوں کو بھی بڑا حوصلہ ہوتا تھا کہ ان کا یہاں خیال رکھنے کے لئے انکل یسین موجود ہیں۔ دو سال پہلے اس کا کڈنی ٹرانسپلانٹ ہوا تو بہت خوش تھا کہ اب ڈائیلاسز سے جان چھوٹے گی۔ ہسپتال میں بھابھی اور بچوں نے اس کی خدمت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔

2017 ء میں میں اور وسیم اس کے گھر میں ایک عرصہ بعد اکٹھے ہوئے۔ سارا دن ہم تینوں نے کالج اور سکول کی پرانی یادیں تازہ کرتے گزارہ۔ اس دن وہ مجھے بہت خوش دکھائی دیا۔ نومبر 2019 ء میں جب میں اس سے ملنے گیا تو مجھے پہلی بار اس کا زرد اور مرجھایا ہوا چہرہ دیکھ کر بہت رنج اور افسوس ہوا۔ میری آنکھوں کے سامنے اس یسین میر کی تصویر آ گئی جو کبھی چھ فٹ تین انچ قد، گورے رنگ کا سمارٹ اور ہینڈسم خوبرو کشمیری جوان تھا۔ مجھے پتہ نہیں تھا کہ یہ میری اس سے آخری ملاقات ہے۔ میں نومبر میں واپس پاکستان آ گیا تھا۔ دو جنوری 2020 ء کو لیڈز کے ہسپتال میں اس کا انتقال ہو گیا۔ اللہ اسے کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments