افغانستان کا ممکنہ منظر نامہ


آج کل چہار سو افغانستان میں طالبان کی فتوحات کا چرچا ہے۔ ہر طبقہ طالبان کی فتح اور شکست کو اپنے اپنے انداز میں پیش کرنے کی کوششوں میں مصروف نظر آتا ہے۔ مذہبی طبقے کو دیکھا جائے تو وہاں خوشیوں کے شادیانے بجائے جا رہے ہیں۔ دوسری طرف سیکولر طبقات بے چین اور کسی حد تک خوفزدہ نظر آتے ہیں۔ افغانستان کے تیزی سے تبدیل ہوتے منظر نامے نے سب سے زیادہ سوالات پشتون قوم پرستوں کے مستقبل پر کھڑے کر دیے ہیں۔ پشتون قوم پرست اگرچہ پاکستان کی حد تک کافی مضبوط ہیں اور بھرپور عوامی حمایت رکھتے ہیں۔ تاہم، اگر افغانستان پر طالبان کا قبضہ مستحکم ہوجاتا ہے تو پھر پاکستان کے پختون بیلٹ میں مذہبی عناصر کے نفوذ اور قوم پرستوں کے سکڑاؤں کو روکنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہوگا۔ ایسے میں یہ ضروری ہوجاتا ہے کہ افغانستان کے منظرنامے کا حقیقت سے قریب جائزہ لینے کی کوشش کی جائے۔

اگر ہم امریکہ کی پالیسی پر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ جس عجلت سے افغانستان سے نکلا ہے۔ انخلا میں اتنی عجلت دکھانے کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ امریکہ کے پاس افغان طالبان کو کنٹرول کرنے کے لیے دوسرا منصوبہ بھی ضرور موجود ہوگا۔ شنید ہے کہ امریکہ بے لگام فوجی اخراجات کم کرنے کے لیے ایک جانب افغانستان سے اپنی افواج کو نکال رہا ہے تو دوسری جانب وہ کوئی کفایت شعار منصوبہ ضرور اپنائے گا، تاکہ خطے میں امریکہ کی اجارہ داری قائم رہے۔

امریکہ افغانستان سے برق رفتار انخلا کے ذریعے دو مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے۔ ایک مقصد تو امریکہ اپنی معیشت کو، جس کی کمر جنگ کے خوفناک حد تک بڑھے ہوئے اخراجات سے دہری ہو چکی ہے، فوجی اخراجات میں کمی کر کے بحال کرنا چاہتا ہے۔ دوسرا بڑا مفاد امریکی فوجیوں کی ہلاکتوں سے بچنا ہے۔ اب تک افغان جنگ میں 2300 سے زائد امریکی فوجی ہلاک جبکہ 20، 660 سے زائد زخمی ہوچکے ہیں۔ افغانستان میں ہلاک اور زخمی ہونے والے ان امریکی فوجیوں کے اہل خانہ آئے دن مظاہرے کر رہے ہوتے ہیں، جو کہ امریکی حکومت کے لیے درد سر بن چکے ہیں۔ اس طرح افغانستان سے فوجی انخلا کے ذریعے امریکی صدر جو بائیڈن یہ دو بڑے مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب ہوں گے۔

دوسری طرف امریکہ کی جارحانہ اور سامراجی پالیسی کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں یہ یقین کرنے میں بڑا تامل ہے کہ ایک ایسا خطہ جہاں چین اور روس جیسے امریکہ کے روایتی حریف موجود ہوں۔ وہاں امریکہ کیسے اپنے دونوں حریفوں کے لیے کبھی میدان کھلا چھوڑ سکتا ہے؟ ہم سمجھتے ہیں کہ امریکہ چین اور روس کو قابو میں رکھنے کے لیے لازمی طور پر کوئی ایسا منصوبہ سامنے لائے گا، جس کے ذریعے وہ افغان طالبان پر دباؤ برقرار رکھنے کے ساتھ ساتھ پاکستان، چین اور روس پر کو بھی کنٹرول کرسکے۔

جب امریکہ کے متبادل منصوبے کی کھوج لگائی جائے تو اس کا ممکنہ سراغ پاکستان، تاجکستان، ازبکستان اور دیگر ممالک سے فوجی اڈے مانگنے کے حوالے سے ملتا ہے۔ خیال ہے کہ امریکہ افغانستان سے باہر اپنے فوجی اڈے قائم کر کے اس وقت تک انتظار کرے گا جب تک کہ افغانستان سے آخری امریکی فوجی نہیں نکل جاتا۔ جب کوئی بھی امریکی افغان سرزمین پر نہیں رہے گا تو اس کے بعد امریکہ افغانستان پر فضائی بمباری کے ذریعے کابل کی اشرف غنی حکومت اور افغانستان کے طالبان مختلف گروہوں کو بعینہ ویسی ہی مدد فراہم کرے گا، جیسی روس شام کے اندر بشارالاسد کا اقتدار قائم رکھنے کے لیے کر رہا ہے۔

اگر ایسا ممکن ہوجاتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ طالبان کو منیر نیازی کے اس شعر کے مصداق ”اک اور دریا کا سامنا تھا منیرؔ مجھ کو: میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا“ ایک اور لمبی جنگ کا سامنا ہوگا اور افغانستان میں یہ خانہ جنگی اس وقت تک جاری رہے گی۔ جب تک کہ افغانستان میں امریکی مفادات کی حفاظت کی گارنٹی نہیں دے دی جاتی۔ اس طرح امریکہ اپنے تمام مقامی اتحادیوں کی حفاظت کو بھی ممکن بنائے گا۔ اگر یہ صورتحال بن جاتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ پاکستان کے لیے بھی مشکلات کا دور ابھی ختم نہیں ہونے والا اور طالبان اور مذہبی عناصر کی جانب سے فتح کے ڈھول بھی قبل از وقت ثابت ہوں گے۔

البتہ اس تمام منظرنامے میں حقیقت کا رنگ بھرنے کے لیے یہ سوال بڑی اہمیت کا حامل ہے کہ امریکہ کو خطے میں کون سے ممالک اور کن بنیادوں پر فوجی اڈے فراہم کرنے پر تیار ہوں گے؟ اگر پاکستان کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ یہ ہے کہ پاکستان کسی بھی صورت امریکہ کو اڈے فراہم نہیں کرے گا۔ اس کی ایک بڑی وجہ تو یہ ہے کہ اس وقت پاکستان کے چین اور روس کے ساتھ تعلقات تاریخ کی بلند سطح پر ہیں۔ اگر امریکہ کو انکار کے عوض پاکستان کو کسی قسم کے معاشی نقصانات کا سامنا بھی کرنا پڑا تو یہ ممالک آگے بڑھ کر پاکستان کی مدد کریں گے۔

دوسری جانب امریکہ کو اڈوں کی فراہمی خود پاکستان کے اپنے مفاد میں بھی نہیں ہے۔ کیوں کہ جب امریکی کہیں بھی اپنے اڈے قائم کرتے ہیں تو پھر وہاں صرف فوجی اڈے قائم نہیں ہوتے بلکہ فوجی اڈوں کی سیکیورٹی کے نام پر امریکی ایک مضبوط انٹیلی جنس نیٹ ورک بھی قائم کرتے ہیں اور پاکستان کے اندر قائم ہونے والا ایسا کوئی بھی نیٹ ورک پاکستان کے لیے ناقابل برداشت ہوگا۔ کیوں کہ اس وقت پاکستان پہلے ہی بیرونی عناصر کی پشت پناہی سے چلنے والے بہت سے نیٹ ورکس کے خلاف نبرد آزما ہے۔

ایسے میں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کبھی نہیں چاہے گی کہ پاکستان کی سرزمین میں، عین اس کی ناک کے نیچے ایک ایسا نیٹ ورک تشکیل پاتا رہے کہ جس کے خلاف وہ کسی قسم کی کارروائی کرنے کی بھی مجاز نہ ہو۔ سابق آمر پرویز مشرف کے دور قائم ہوئے ایسے ہی نیٹ ورکس کو جنرل راحیل شریف نے بڑی جدوجہد کے بعد اکھاڑ پھینکا تھا۔ اب یقیناً ایسا خطرہ دوبارہ مول لینے کے لیے پاکستانی حکمران تیار نہیں ہو گے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان کے انکار کے بعد کون سے ممالک طالبان کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے امریکہ کو اپنے کاندھے فراہم کرتے ہیں؟

یہاں ایک سوال یہ بھی ابھرتا ہے کہ جب 2001 میں پرویز مشرف نے امریکہ کے تمام مطالبات تسلیم کر لیے تھے تو اب پاکستانی حکمران کیسے امریکی دباؤ کا سامنا کر پائیں گے؟ اس کے لیے محض اتنی سی عرض ہے کہ اب وقت بہت بدل چکا ہے۔ اب نہ امریکہ 2001 جتنا طاقتور ہے اور نا ہی پاکستان اتنا کمزور۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments