کرونا کی چوتھی لہر، ایک بار پھر جوتے اور پیاز کا کھیل


وفاقی وزیر جناب اسد عمر کے اس انتباہی بیان نے کہ کرونا کی چوتھی لہر جلد ہی ہمیں اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے، ایک بار پھر ہماری سانسوں کو اوپر نیچے کر دیا ہے۔ اس بیان کے بعد کرونا سے نمٹنے کی ہماری حکمت عملی پر بھی ایک بار پھر سوالات اٹھا دیے ہیں۔ پاکستان خوش قسمتی سے ان ممالک میں شامل ہے جہاں اس وبا سے تباہی کی شرح دنیا کے دوسرے ممالک کی نسبت کم ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس میں بھی اللہ کی ہم پر کوئی خاص ہی مہربانی ہے نہ کہ ہماری شاندار حکمت عملی۔ حکومت وقت اگر چہ اس کا کریڈٹ لے رہی ہے، لیکن ہمارے خیال میں تو ”یہ سب تمہارا کرم ہے آقا کہ بات اب تک بنی ہوئی ہے“ والا معاملہ ہے۔ ہمارا طرز عمل تو سو جوتے اور سو پیاز والا ہے۔

کرونا کی پہلی لہر کے دوران ہماری حکومت کی آنکھ اگرچہ کافی دیر سے کھلی تھی، لیکن پھر بھی کسی حد تک معاملات قابو میں رہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ حکومت کی طرف سے کی گئی ضروری سختی کی وجہ سے لوگوں میں احساس ذمہ داری کی بجائے ایک خوف کی کیفیت پیدا ہو گئی تھی۔ ایسی وباؤں کے دوران اگر لوگوں میں احساس ذمہ داری باقی نہ رہے تو خوف پیدا کرنا بہت ضروری ہے۔ لوگ اس خوف کے تحت گھروں میں دبکے رہے اور معاملات قابو میں رہے۔ ہمارے وزیراعظم مکمل لاک ڈاؤن کے خلاف تھے۔ انہوں نے ذمہ دار اداروں کی مکمل لاک ڈاؤن کی شدید خواہش کے باوجود جزوی اور مکمل لاک ڈاؤن کی ایک درمیانی صورت حال کو قبول کیا تھا۔

اس کی وجہ سے وبا کی صورت حال میں یقیناً بہتری آئی۔ دوسری اور تیسری لہر کے دوران بھی تقریباً یہی کیفیت رہی کہ نقصانات کی شرح پڑوسی اور کچھ دوسرے ممالک کی نسبت کم رہی۔ ذاتی نقصانات البتہ بہت ہوئے۔ خود ہمارے بڑے بھائی اور ”ہم سب“ کے لکھاری ڈاکٹر احمد فاروق مشہدی بھی اس کا شکار ہو کر اللہ کے حضور حاضر ہو گئے۔ ہمارے ہاں کی نسبتاً بہتر صورت حال کا ذکر عالمی سطح پر بھی ہوا اور بعض جگہوں پر ہمیں بطور مثال بھی پیش کیا گیا۔ اگر چہ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ باقی کی زندگی میں اب ہمیں کرونا کے ساتھ ہی جینا ہے، لیکن پھر بھی ہر لہر میں ہم اس کا جو شکار ہو رہے ہیں، اس کی ایک وجہ ہے۔

ہمارے خیال میں ہمارے ہاں جب صورت حال بہتری کی طرف گامزن ہوتی ہے، ہمیں ادارے، بازار، شادی ہال، ہوٹل وغیرہ کھولنے کی غیر ضروری جلدی پڑ جاتی ہے۔ لوگ تو پہلے ہی بے پروائی کا مظاہرہ کر رہے ہوتے ہیں۔ حکومتی ڈھیل ملتے ہی لوگ ضرورت سے زیادہ آزاد ہو جاتے ہیں۔ اس کا نتیجہ پھر وہی نکلتا ہے جو نکلنا چاہیے کہ جاتی جاتی وبا پھر لوٹ آتی ہے۔ حکومت پھر خبردار کرنا شروع کر دیتی ہے۔ لوگ اس معاملے میں مزید بہرے ہو جاتے ہیں۔

ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکالنے کی بجائے وہ بات کان میں گھسنے ہی نہیں دیتے۔ بیماری پھر زور پکڑتی ہے تو حکومت کو وہ سب کچھ پھر بند کرنا پڑ جاتا ہے جو غیر ضروری عجلت میں پہلے کھولا گیا تھا۔ اس طرح سو جوتے اور سو پیاز کھانے کا عمل جاری رہتا ہے۔ حکومت نے اب ایک بار پھر 9 جولائی سے 15 جولائی تک مزید سختی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کی وجہ کرونا مریضوں کی تعداد میں اچانک اضافہ بتایا جا رہا ہے۔ اب کی بار ”بھارتی کرونا“ کا نام لیا جا رہا ہے۔

ہمارے خیال میں اچانک نرمی اور پھر اچانک سختی کا یہ کھیل ہی ہمارے لئے نقصان کا باعث بنتا ہے۔ ہم کچھ اپنے اقدامات اور زیادہ تر اللہ تعالیٰ کی غیبی مدد کے سبب وبا کا ”ہاتھی“ نکالنے کے قریب پہنچتے ہیں بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ صرف دم ہی باقی ہوتی ہے تو اچانک نرمی کا اعلان کر کے جاتے ہاتھی کو پھر واپس کھینچ لیتے ہیں۔ اس کے لئے ٹھوس طرز عمل کی ضرورت ہے۔ اب کی بار کوشش کریں کہ پورے کا پورا ہاتھی نکل جائے اور پیاز اور جوتے کا یہ کھیل ختم ہو۔

بار بار ہاتھی کے گھسنے سے فصل برباد ہو جاتی ہے۔ حالیہ دنوں میں یہ اچھی خبر بھی سننے کو ملی کہ معمول کی زندگی کی طرف لوٹتے ممالک میں پاکستان دنیا میں چوتھے نمبر پر ہے۔ اس اچھی خبر کے پیچھے بھی ہماری بے پروائیوں کا عمل دخل نظر آ رہا ہے۔ اس درجہ بندی کا تعین کرتے وقت بازاروں میں معمول کی خریداری، سفر وغیرہ کو پیش نظر رکھا گیا ہے۔ اس کام میں تو ہم ماہر ہیں۔ اب جو صورت حال نظر آ رہی ہے یا حکومت وقت پیش کر رہی ہے، اس درجہ بندی میں بھی ہم بہت پیچھے جانے والے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments