انڈیا کی سکیلیٹن لیک: ہمالیائی جھیل جہاں موجود سینکڑوں انسانی ڈھانچے آج بھی ایک معمہ بنے ہوئے ہیں

نیلما ولانگی - بی بی سی ٹریول


سورج ابھی پہاڑی کے اس منجمد حصے کے اوپر چمکنا شروع نہیں ہوا تھا جہاں میں برف کی طرح جمی ہوئی ندی پر صبح کے وقت پہنچنے کے بعد ذرا آرام کر رہی تھی۔

میں انڈیا کے ہمالیہ کے پہاڑوں پر 4800 میٹر کی بلندی پر سردی سے اتنی بری طرح نڈھال تھی اور مجھ میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ میں اپنے قریب پڑے ہوئے انسانی ڈھانچوں کی پرواہ کر سکوں جو روپ کند نامی جھیل میں جمے ہوئے تھے۔

سنہ 2009 میں جب میں ٹریک پر گئی تو سمجھا جا رہا تھا کہ ’سکیلیٹن لیک‘ یعنی ’ڈھانچوں کی جھیل‘ کا معمہ حل ہو چکا تھا اور روپ کند ٹریک انڈیا میں ٹریکنگ کی نوزائیدہ صنعت کی سمت بدلنے والا تھا۔

تاہم، ایک دہائی سے بھی زیادہ عرصہ گذرنے کے بعد، نہ صرف یہ چھوٹی جھیل اپنی ہی شہرت کی نذر ہو گئی بلکہ ماضی کو سمجھنے کی سائنس کی انقلابی ترقی کے باوجود یہ اب بھی الجھن کا شکار ہے کہ ان ڈھانچوں کی اصل حقیقت کیا تھی۔

سنہ 1942 میں محکمہ جنگلات کے ایک انڈین اہلکار ایچ کے مادھوال کو روپ کند جھیل اور اس کے آس پاس سینکڑوں انسانی ڈھانچے ملے۔ انھوں نے اس عجیب و غریب دریافت کے متعلق اطلاع دی۔

یہ ایک پراسرار جھیل ہے جہاں 300 سے 800 افراد اپنے المناک انجام کو پہنچے اور منجمد ہمالیہ ان انسانی باقیات کو سنبھال کر رکھے ہوئے ہے۔ 1950 کی دہائی کے آخر میں اس ڈراؤنی پہاڑی دریافت کے متعلق اعلان کیا گیا، جس کے بعد اس میں دلچسپی بڑھ گئی، کئی تحقیقات شروع کی گئیں جن میں سے کچھ تو آج تک جاری ہیں۔

یہ سب صرف ان بیشتر ٹریکنگ کے مداحوں کے لیے ثانوی حیثیت رکھتا تھا جنھوں نے میری طرح پچھلی دہائی میں روپ کند کے ساتھ ٹریک کیا تھا، اور جن کو خاص طور پر وہاں کے بے مثال مناظر، متنوع لینڈ سکیپ اور مشکلات سے بھرپور راستے اپنی طرف مائل کرتے تھے۔

اتراکھنڈ ریاست کے آبادی والے علاقوں سے پانچ دن کے فاصلے پر موجود اس 50 کلو میٹر سے زیادہ کے ٹریک کو مکمل کرنے میں تقریباً ایک ہفتہ لگتا ہے۔ وہاں پہنچتے ہوئے کچھ ہمالیائی گاؤں آتے ہیں جو روایتی مکانوں کے جھرمٹ کے علاوہ کچھ نہیں ہیں۔

غیر حقیقی دھند اور کائی سے ڈھکے ہوئے بلوط کے جنگلات سے گذرتے ہوئے یہ راستہ وسیع پیمانے پر جنگلی پھولوں سے لدی ہوئی پہاڑی چراگاہوں کے ساتھ گھومتا ہے، جسے مقامی طور پر بگیال کہتے ہیں۔

یہ سب کچھ ہمالیہ کی 3300 میٹر کی اونچائی کے اوپر واقع ہے۔ جلد ہی ہمالیہ کی بلند و بالا چوٹیاں نظر آنے لگتی ہیں اور اگلے ایک دو دنوں تک افق پر غالب رہتی ہیں۔ ٹریکنگ کا سب سے اونچا مقام جونار گلی ہے جو کہ پانچ ہزار میٹر کی بلندی پر واقع ہے۔

یہ ایک چھری کی نوک کی طرح کی ناہموار چوٹی ہے جہاں سے ہمالیہ اور برفانی لینڈ سکیپ کا 360 زاویے کا نظارہ ملتا ہے۔

روپ کند اس رج یا چوٹی سے 200 میٹر نیچے ہے۔ جونار گلی کو جانے والے خطرناک عمودی راستے کے متعلق ٹریکرز میں ایک لطیفہ مشہور ہے کہ ایک بھی قدم غلط پڑنے سے جھیل میں موجود ہڈیوں کے انبار میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔

’سکیلیٹن لیک‘ کی دریافت کے تقریباً 80 سال بعد ہونے والے انکشافات کے بعد یہ سادہ سا لطیفہ کوئی اتنا غلط بھی نہیں لگتا۔

ابتدائی طور پر تو یہ سمجھا گیا کہ یہ ڈھانچے شاہراہ ریشم پر وبائی مرض یا دوسرے عناصر کے سامنے آنے کی وجہ سے ہلاک ہونے والے جاپانی فوجیوں یا تبتی تاجروں کے تھے۔

بعد میں 2004 میں فورینزک تجزیے کے بعد یہ بتایا گیا کہ نوویں صدی میں مردوں اور عورتوں پر مشتمل انڈین زائرین کا ایک گروہ، جس کی مدد علاقے کے مقامی قلی کر رہے تھے، روپ کند میں شدید ژالہ باری کی زد میں آ گیا تھا۔ انھوں نے یہ نتیجہ کھوپڑیوں پر پائے گئے زخموں کے نشانات سے اخذ کیا تھا۔

خیال ہے کہ وہ 12 سال میں ایک مرتبہ ہونے والی ہندو یاترا ’نندا دیوی راج جٹ یاترا‘ پر نکلے ہوئے تھے اور یہ قدیم روایت آج تک برقرار ہے۔ روپ کند اس خوبصورت پیدل سفر کی آخری منزل ہم کند کے راستے پر واقع ہے۔

یہ بھی پڑھیئے

کینیڈا کے گلابی ریت والے ساحل کا راز کیا ہے؟

افریقہ میں ’جہنم کا دروازہ‘ جس کے متعلق کئی پراسرار کہانیاں مشہور ہیں

ترکی کا پراسرار ’جہنم کا دروازہ‘ جس کی اصلیت سائنس نے واضح کی

میلبرن میں جھیل کا رنگ گلابی ہوگیا

پونے کے دکن کالج میں آثار قدیمہ کی پروفیسر وینا مشریف تریپاٹھی 2004 کی تحقیقات کا حصہ تھیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ٹیم نے بھی یہی نتیجہ اخذ کیا تھا کہ وہ لوگ یاتری ہی تھے کیونکہ اس جگہ اسلحے کے کوئی نشانات نہیں ملے تھے جس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ موت کی وجہ حملہ نہیں تھا اور نہ ہی وہ کوئی فوجی تھے۔

تحقیق کے دوران انھیں موسیقی کے آلات کے ٹکڑے بھی ملے اور نندا دیوی راج جاٹ یاترا پر جانے والے یاتریوں کی پرانی لوک کہانیاں بھی موجود تھیں۔ مشریف تریپاٹھی کہتی ہیں کہ ڈی این اے کے تجزیے سے اس مفروضے کو مزید تقویت ملتی ہے کیونکہ اس میں مرد اور خواتین پر مشتمل گروپ کا پتہ چلتا ہے جس میں مختلف عمروں کے لوگ موجود تھے۔

جب میں نے روپ کند کا سفر کیا تو مجھے ہڈیوں کی موجودگی کی ایک عجیب سی وجہ بھی بتائی گئی۔ ہمیں ناراض دیوی دیوتاؤں، گستاخ یاتریوں اور رقاصوں کے تصوراتی قصے بھی سنائے گئے۔ ہر کیمپ سائٹ، ہر تالاب اور راستے میں موجود بہت سے دوسرے نشانات نت نئی لوک کہانیوں سے مزین تھے۔ حیرت انگیز فطرت اور افسانوی داستانوں کے اس مرکب نے اس غیر صحت مند روپ کند کو ایک پُرجوش تجسس میں بدل دیا تھا۔

اس لیے یہ حیرت کی بات نہیں ہے کہ روپ کند نے نادانستہ طور پر ہندوستانی ٹریکنگ کے منظر کو تیزی سے کمرشل ہونے پر مجبور کر دیا تھا۔

سنہ 2009 میں بنگلورو میں مقیم ایک کمپنی نے روپ کند میں سستا گروپ ٹریک شروع کیا جسے آن لائن بک کیا جا سکتا تھا۔

انڈیا میں آئی ٹی کے عروج کے سبب ڈسپوزایبل انکم یعنی ذاتی استعمال کے بعد خرچ کے لیے دستیاب آمدنی میں اضافہ ہوا جو ہندوستانی ہمالیہ کی نئی قابلِ رسائی ڈھلانوں تک پہنچنے میں معاون ثابت ہوا، جو کہ اس وقت تک زیادہ تر محض سخت جان ’الپائن ٹائپ‘ لوگوں نے ہی دیکھی تھیں۔

صاف ظاہر ہے کہ جس کی توقع کی جا رہی تھی وہی ہوا۔

انڈین ٹریکرز اس مشکل اور انتہائی ذہنی اطمینان دینے والے روپ کند ٹریک پر عبور حاصل کرنے کے لیے جوق در جوق آتے گئے۔ اس کی کامیابی کے بعد اسی طرح کی کمپنیاں پورے ملک میں پھیل گئیں جس سے ہمالیہ کے طول و عرض میں مزید پہاڑی راستے مقبول ہوئے، جنھیں بعد میں سوشل میڈیا کے ذریعہ اور بھی عروج ملا۔

بدقسمتی سے،اس کمرشلائزیشن کا منفی پہلو ہمالیہ میں ماحولیاتی تباہی تھا۔ آج اسی روپ کند ٹریک پر جس نے انڈینز کو پہاڑوں کی ڈھلوانوں پر ایسے پہنچایا جس کی ماضی میں کوئی نظیر نہیں تھی، جانا منع ہے کیونکہ حکومت نے اس ماحولیاتی طور پر انتہائی نازک ’بگیالوں‘ میں کیمپ لگانے پر پابندی لگا دی ہے۔

میرے وہاں جانے کے ایک سال بعد 2010 میں، پہلا قدیم انسانی جینوم ترتیب دیا گیا، جس سے تیزی سے انقلاب آیا کہ ہم اپنے ماضی کا مطالعہ کیسے کرتے ہیں۔

دیکھتے ہی دیکھتے روپ کند کا اسرار ایک مرتبہ پھر زندہ ہو گیا۔ کولکتہ کے اینتھروپولوجیکل سروے آف انڈیا میں سٹور کیے گئے انسانی ڈھانچوں کی باقیات سے حاصل کردہ 38 ہڈیوں کے نمونے جینومک اور بائیو مولیکیولر تجزیوں کے لیے دنیا بھر میں 16 لیبارٹریوں میں بھیجے گئے۔

سنہ 2019 میں شائع ہونے والے پانچ سالہ طویل مطالعے کے نتائج نے دنیا کو حیران کر دیا۔

نئی تحقیق میں پتا چلا ہے کہ 38 ڈھانچوں کا تعلق تین جینیاتی طور پر الگ الگ گروہوں سے تھا اور وہ ایک ہزار سال کے دوران متعدد واقعات میں جھیل میں جمع ہوئے تھے۔

وہاں ایک جنوبی ایشیائی گروہ تھا جس کی ہڈیاں ایک اندازے کے مطابق متعدد واقعات میں ساتویں اور دسویں صدی کے درمیان جمع ہوئی تھیں۔

تحقیقاتی ٹیم کو بحیرہ روم کے مشرقی حصے سے تعلق رکھنے والے افراد کے ایک نئے گروہ کا بھی پتہ چلا جس کا تعلق جزیرہ کریٹ سے تھا، اور جو 19 ویں صدی میں کسی ایک حادثے کے دوران ہلاک ہوا تھا۔

اور ایک نمونہ جنوب مشرقی ایشیائی افراد کا بھی تھا، اور ان کا تعلق بھی انیسویں صدی سے تھا۔

اس غیر معمولی دریافت سے حیران ہونے کے بعد ٹیم نے ان کا غذائی تجزیہ بھی کیا تاکہ دیکھا جا سکے کہ یہ ڈی این اے تجزیہ کے نتائج کی توثیق بھی کرتا ہے یا نہیں، اور اس نے اسے ثابت کیا۔

میکس پلانک انسٹیٹیوٹ فار دی سائنس آف ہیومن ہسٹری کی آیوشی نائک کہتی ہیں کہ ’روپ کند جیسی جگہ پر جہاں سیاق و سباق پریشان کن ہے اور مکمل طور پر کھدائی کے امکانات بہت کم ہیں، قدیم ڈی این اے کے ذریعے ہمیں ان افراد کے جینیاتی نسب کے بارے میں براہ راست معلومات حاصل ہو سکتی ہیں۔‘

روپ کند جھیل سے ملنے والا نیا ثبوت جو غیر انڈین نسل کے گروہوں کی موجودگی کی طرف اشارہ کرتا تھا بہت حیران کن تھا، کیونکہ ایسا کوئی تاریخی ثبوت موجود نہیں ہے جس سے یہ پتہ چلے کہ وہ لوگ کون تھے اور ہمالیہ کے اس دور دراز علاقے میں کیا کر رہے تھے۔

نائک کہتی ہیں کہ ’ابھی بھی ان افراد کے گروہ کے بارے میں سوالات باقی ہیں جن کا نسب موجودہ دور کے مشرقی بحیرہ روم کے افراد سے زیادہ ملتا ہے کہ وہ کن وجوہات کی بنا پر روپ کند کے دورے پر آئے تھے اور کیا وہ یورپی سیاح تھے یا ایسے مقامی افراد تھے جن کے آبا ؤ اجداد کا تعلق مشرقی بحیرہ روم سے تھا، اور کیا علاقے میں مزید کوئی ایسی جگہیں بھی جہاں اس قسم کی انسانی باقیات موجود ہیں۔‘

جب میں آج اپنا روپ کند کا سفر یاد کرتی ہوں تو میرا دماغ اس راستے کے اسرار کی پیچیدگی اور اس کی بھاری میراث کا ادراک کرتے ہوئے کنفیوز ہو جاتا ہے جس پر ہم بے پروائی سے چلتے رہے تھے۔

اچھے دنوں میں ان کی مدہوش کر دینے والی خوبصورتی کے باوجود جب برے دن آتے ہیں تو یہ کٹھن اور اونچے ہمالیہ کے پہاڑ بڑے مہلک ثابت ہو سکتے ہیں۔ پچھلی ایک دہائی کے دوران کئی افراد روپ کند پر پہنچنے کی جستجو میں اپنی جانوں سے ہاتھ دھو چکے ہیں۔

لیکن ان سب کے محرکات کیا تھے، بشمول اس غیر متوقع مشرقی بحیرہ روم کے گروہ کے، جو صدیوں پہلے اس جھیل پر وقت سے پہلے اپنے انجام کو پہنچا تھا؟

میں اس پر بھی حیران ہوں کہ وہ سب کیسے مرے تھے۔ کیا ان میں سے کچھ جونار گلی کے کنارے سے گر گئے تھے جیسا کہ ہم مذاق میں کہتے تھے۔ کیا ان میں سے کچھ موسم کی وجہ سے ہلاک ہوئے تھے جیسا کہ ہمیں اندیشہ تھا؟ کیا ان میں سے کچھ لوگ پہاڑوں پر اونچائی کی وجہ سے سانس لینے میں دشواری کی بیماری کی وجہ سے مرے تھے، جو کہ اس بلندی پر بہت عام ہے؟

یہ ناممکن ہے کہ لوگوں کے متعدد مخصوص گروہ روپ کند میں مختلف واقعات کے دوران ایک ہزار سال سے زیادہ عرصے میں ژالہ باری سے ہلاک ہوئے ہوںے۔ مگر اس کے باوجود ابھی تک ہمارے پاس فی الحال یہی واحد ثبوت ہے۔

مشریف ترپاٹھی کہتی ہیں کہ ’ژالہ باری سے لگنے والی چوٹ کی شاید ہی چھ سے سات کھوپڑیاں موجود ہیں۔ میرے مطابق، یہ راز ابھی پوری طرح حل نہیں ہوا ہے۔ ہمارے پاس جوابات سے زیادہ سوالات ہیں۔‘

یہ جگہ انتہائی پریشان اور غیر محفوظ ہے۔ پچھلے کئی سالوں میں ٹریکرز ڈھانچوں کو ادھر سے ادھر کرتے رہے ہیں اور یہاں تک کہ کئی ایک تو انھیں یادگار کے طور پر اپنے ساتھ گھروں کو ہی لے گئے، اس لیے سائنس میں ممکنہ ترقی کے باوجود مستقبل میں اس کا بالکل درست جواب حاصل کرنے میں مشکلات پیدا ہو گئی ہیں۔

سنہ 2019 کے مطالعے کی غیر معمولی آگاہی نے کافی ہنگامہ کھڑا کر دیا تھا، لیکن زیادہ اہم طلب بات یہ ہے کہ اگر سینکڑوں لاشوں میں سے صرف 38 نمونوں کے تجزیے نے اس طرح کا طوفان برپا کر دیا تھا تو اس منجمد قبر میں اور کتنے راز پنہاں ہوں گے؟

جیسے ہم حیرت اور اضطراب سے اپنے سروں کو کھرچ رہے ہیں تو اس کے ساتھ ساتھ جھیل میں موجود ڈھانچے مزید الجھتے جا رہے ہیں۔ روپ کند میں ہلاک ہونے والوں کا معمہ ابھی زندہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32296 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp