’ارشاد نامہ‘ کا پوسٹ مارٹم (مکمل کالم)


کچھ عرصہ پہلے مجھے فون پر ایک پیغام موصول ہوا جس میں لکھا تھا کہ آپ کا پتہ درکار ہے، اپنی کتاب ارسال کرنی ہے، عاجز، ارشاد حسن خان (سابق چیف جسٹس آف پاکستان )۔ ریٹائرمنٹ کے بعد چونکہ ہر بندہ ہی عاجز ہو جاتا ہے اِس لیے مجھے زیادہ حیرت نہیں ہوئی۔ چند دنوں بعد مجھے اُن کی کتاب ’ارشاد نامہ ‘ موصول ہو گئی، جج صاحب نے کمال شفقت سے اپنے دستخطوںکے ساتھ ’اِس عاجز ‘ کو بھیجی تھی۔ کچھ ہفتوں تک مجھے کتاب دیکھنے کا موقع نہیں ملا کیونکہ اس سے پہلے بھی کئی کتابیں ’پائپ لائن ‘ میں تھیں جنہیں پڑھنا ضروری تھا۔ اور سچی بات تو یہ ہے کہ ان میں سے بعض کتابیں ایسی تھیں جنہیں پائپ لائن میں ہی رکھتا تو اچھا تھا۔ ’ارشاد نامہ ‘ کی باری اِس ہفتے آئی اور میں نے ایک ہی نشست میں پوری کتاب پڑھ لی۔ کتاب پڑھنے کے بعد مجھ پر تین باتیں آشکار ہوئیں۔

پہلی یہ کہ ارشاد حسن خان ایک فرشتے کا نام ہے، عام انسانوں کی کوئی خرابی یا برائی اُ ن میں نہیں پائی جاتی، پوری عمر انہوں نے کوئی غلط کام نہیں کیا، اور اگر کوئی غلط کام اُن سے سرزرد ہوا بھی تو اُس میں اُن کا کوئی قصور نہیں تھا، حالات ہی ایسے تھے کہ وہ بے بس تھے، بس یوں سمجھیں کہ جج صاحب ’ وہ ظالم تھا میں مجبور تھی ‘ والی صورتحال میں پھنسے تھے لہذا اُنہیں کسی معاملے میں مورد الزام ٹھہرانا نا انصافی ہوگی۔ دوسری بات، وہ ایک سیلف میڈ انسان ہیں، انہیں اِس بات پر فخر ہے کہ ایک یتیم سائیکل سوار بچہ محض(بقول اُن کے ) اپنی لیاقت، ایمانداری اور قابلیت کی بنیاد پر پاکستان کا چیف جسٹس اور قائم مقام صدر بنا۔ انہوں نے لکھا ہے کہ ایک شخص نے اُن کے بارے میں یہ پیش گوئی اُس وقت ہی کر دی تھی جب وہ بی اے کے بعد نوکری کی درخواست ہاتھ میں لیے اکاؤنٹنٹ جنرل کے دفتر پہنچے تھے، اکاؤنٹنٹ جنرل نے اُن کی نوکری کی درخواست رد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”ینگ مین، میں تمہارے ماتھے پر چمکتا ہوا تاج دیکھ رہا ہوں، تم کلرک بننے کے لیے پیدا نہیں ہوئے ہو۔ تم زندگی میں اعلیٰ مقام حاصل کرنے کے لیے پیدا ہوئے ہو۔ میں تمہارا کیرئیر خراب نہیں کرنا چاہتا ….تم ترقی کرو گے۔ تمہاری روشن اور فراخ پیشانی اِس بات کی غماز ہے۔ “ظاہر ہے کہ مستقبل کے چیف جسٹس نے اِن میں سے کسی بات کی تردید نہیں کی۔ تیسری بات، اِس کتاب کی شان نزول دراصل 12اکتوبر 1999کے مارشل کو جواز فراہم کرنے والا فیصلہ اور اُس پر ہونے والی تنقید ہے۔ ارشاد حسن خان نے بطور چیف جسٹس نہ صرف مارشل لا کو قانونی تحفظ دیا بلکہ جنرل مشرف کو آئین میں ترمیم کرنے کی اجازت بھی دے دی۔ جج صاحب نے کتاب میں جگہ جگہ اِس بات کی وضاحت کی ہے کہ اُن پر کی جانے والی تنقید بلا جواز ہے، ایک جگہ لکھتے ہیں کہ یہ ایک تاریخ ساز فیصلہ تھا ”جسے مفاد پرستوں اور خوف خدا سے عاری لوگوں نے متنازع بنا دیا، تمام پہلوؤں کو واضح کرنے کے لیے آٹو بائیو گرافی کا سہارا لیا گیا ہے۔ “ اپنے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے ارشاد حسن خان نے یہ دلیل دی ہے کہ مدعی کے وکلا نے خود تسلیم کیا تھا کہ 12اکتوبر کا اقدام واپس نہیں ہو سکتا اور نیز یہ کہ تمام جماعتیں پرویز مشرف کے سات نکاتی ایجنڈے سے متفق تھیں لہذا اب سوال صرف اتنا رہ گیا تھا کہ انتخابات کروانے کے لیے کتنا وقت دیا جائے سو عدالت عظمی ٰ نے ’حکومت ‘ کو تین سال کا وقت دیا۔ دوسری دلیل عالی قدر نے یہ دی کہ خود پرویز مشرف کو اپنے جاری کردہ پی سی او کے تحت آئین میں ترمیم کرنے کا اختیار حاصل تھا اور یہی بات عدالت کے سامنے چیلنج کی گئی تھی لہذا یہ کہنا بے حد نا انصافی ہے کہ پرویز مشرف نے تو آئین میں ترمیم کا اختیار ہی نہیں مانگا تھا اور عدالت نے یہ اختیار دے دیا۔ جج صاحب نے تقریباً دہائی دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ہم نے تو اِس اختیار کے ساتھ اِس قدر کڑی شرائط عائد کردیں کہ چیف ایگزیکٹو کے لیے آئین میں ترمیم کرنا عملاً نا ممکن ہو گیا۔

بے شک جج صاحب نے نے ازراہ مہربانی مجھے اپنی کتاب ارسال کی ہے اور مشرقی آداب اور مروت کا تقاضا ہے کہ میں اِس کتا ب کی فقط تعریف ہی میں کچھ لکھوں۔ لیکن اگر میں جج صاحب کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق چلوں (یہ اصول انہوں نے اسی کتاب میں لکھے ہیں ) تو مجھے سچ لکھنا چاہیے اور اِس بات کی پروا نہیں کرنی چاہیے کہ یہ سچ کتنا کڑوا ہے۔ سچ یہ ہے کہ جج صاحب نے یہ کتاب دراصل ضمیر کی خلش کے ہاتھو ں مجبور ہو کر لکھی ہے، ہر انسان کو اچھی طرح علم ہوتا ہے کہ وہ اپنی زندگی میں کہاں غلط تھا اور کہاں صحیح، جج صاحب کو بھی اِس بات کا پتا ہے کہ اُن کا 12اکتوبر کے اقدام کو جواز فراہم کرنے والا فیصلہ دراصل بد نام زمانہ نظریہ ضرورت کو دوبارہ زندہ کرنے والا فیصلہ تھا۔ جو دلائل انہوں نے اِس فیصلے کے حق میں دیئے، معذرت کے ساتھ، وہ تمام کے تما م نہایت بودے ہیں۔ مثلاً آئین میں ترمیم والی بات کو ہی لے لیں، پرویز مشرف نے اِس فیصلے کے بعد آئین میں 37ترامیم کیں، یعنی جس کا م کے لیے پارلیمان میں منتخب حکومت کو دو تہائی اکثریت درکار ہوتی ہے وہ کام ایک شخص نے یک جنبش قلم 37مرتبہ کیا اور جج صاحب فرماتے ہیں کہ ہم آئین میں ترمیم کے اختیار کو اپنے تاریخی فیصلے کے ذریعے عملاً ختم کر دیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ آپ اُس وقت بھی چیف جسٹس تھے جب یہ ترامیم ہو رہی تھیں کیا آپ نے اپنے فیصلے کی اِس کھلم کھلا خلاف ورزی پر کوئی نوٹس لیا؟ جواب ہے نہیں۔ اور بعد ازاں آپ کو چیف الیکشن کمشنر بھی مقرر کر دیا گیا جس کی وجہ ایک دودھ پیتا بچہ بھی بتا سکتا ہے۔ رہی یہ دلیل کہ جج صاحب نے 12اکتوبر کے اقدام کو قانونی اِس لیے قرار دیا کہ مدعی کے وکیل نے تسلیم کیا تھا کہ یہ اقدام واپس نہیں ہو سکتا تو اِس کا جواب یہ ہے کہ بطور چیف جسٹس آپ کی ذمہ داری آئین کے مطابق فیصلہ کرنے کی تھی جس کا آپ نے حلف اٹھایا ہوا تھا نہ کہ یہ دیکھنے کی آپ کے فیصلے پر کس حد تک عملدرآمد ہوتا ہے۔ اگر یہی فیصلہ کرنا تھا تو یہ کوئی چپڑاسی بھی کر سکتا تھا اِس کے لیے عدالت عظمیٰ کے جج کی پگڑی باندھنے کی کیا ضرورت تھی۔ اور جہاں تک جج صاحب کی اِس دلیل کا تعلق ہے کہ پرویز مشرف کے سات نکات سے تو مدعی کے وکیل نے بھی اتفاق کر لیا تھا، اس بارے اتنا کہنا کافی ہے کہ اگر کوئی کہے کہ ملک میں ترقی ہونی چاہیے تو اِس سے اتفاق ہی کیا جائے گا مگر اِس کا مطلب یہ نہیں ہوگا کہ وہ آئین شکنی کے کام کو بھی درست مان رہا ہے۔ جسٹس صاحب نے ایک منطق یہ بھی بیان کی کہ چونکہ انتخابات کروانے کے لیے نئی انتخابی فہرستیں بنانے کا کام جلد مکمل نہیں ہو سکتا تھا اور خدشہ تھا کہ کئی لاکھ ووٹر حق رائے دہی سے محروم نہ ہو جائیں اِس لیے بھی پرویز مشرف کو تین سا ل کا وقت دیا گیا۔ بندہ پوچھے جن لاکھوں ووٹوں پر شب خون مارا گیا تھا اُس کا حساب تو آپ نے لیا نہیں اور جو ابھی پیدا نہیں ہوئے اُن کی فکر لاحق ہو گئی۔ واہ کیا کہنے !

ارشاد حسن خان صاحب نے یقیناً اپنی زندگی کا سفر قدرے تنگدستی کے عالم میں شروع کیا اور کامیابی کی منازل طے کرتے ہوئے وہ با م عروج پر پہنچے مگر اِس کا یہ مطلب نہیں کہ آئین شکنی کو تحفظ دینے کے اُن کے فیصلے کو درست مان لیا جائے، یہ فیصلہ اُن کے ضمیر پر ہمیشہ چابک برساتا رہے گا۔

کالم کی دُم : جو احباب مجھے اپنی کتابیں اِس نیت سے بھیجتے ہیں کہ میں اُن پر ’سب اچھا ‘ قسم کا تبصرہ کروں گا، اُن کی خدمت میں عرض ہے کہ وہ اپنی ذمہ داری پر مجھے کتاب ارسال کریں، بندہ کسی بھی قسم کی ضمانت دینے سے قاصر ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 495 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments