طلاق: تھوک نہیں خوردہ


سب سے پہلے کام کی باتیں :

طلاق یا طلاقیں دے کر بعد میں رجوع کے سلسلے میں پریشان ہونے سے بہتر ہے کہ ایسے اقدام سے پہلے ہی مفتیان عظام اور علمائے کرام سے رجوع فرما لیں۔ کہ مستند ہے ان کا فرمایا ہوا!

اگر کوئی بھی دو میاں بیوی طلاق کے سلسلے میں انتہائی سنجیدہ ہیں اور ہر طرح کے غور فکر اور مصالحت و مشاورت کے بعد بھی طلاق کو ہی اپنی ازدواجی زندگی کی الجھنوں اور تلخیوں کا مداوا سمجھتے ہیں، تو ہم انہیں یہ مشورہ دے رہے ہیں کہ، بس اتنا کریں کے تین طلاقوں کے بجائے ایک طلاق سے کام چلا لیں کہ اس طریقہ سے بھی دونوں نہ صرف ایک دوسرے سے خلاصی حاصل کر لیں گے، بلکہ مقررہ مدت یا شرائط پر اپنی اپنی پسند کی دوسری شادی بھی کر سکیں گے اور اپنے فیصلے کے غلط ہونے کے احساس پر مقررہ وقت میں رجوع بھی کر سکیں گے یا حلالہ جیسی پیچیدگیوں کے بغیر دوبارہ نکاح کی گنجائش بھی رہ جائے گی۔

جی ہاں خواتین و حضرات، یہ حقیقت ہے کہ تین طلاقوں کے مقابلے میں ایک طلاق کم موذی اور ناخوشگوار ہے۔ طلاق کی مختلف قسمیں ہیں، رجعی، بائن اور مغلظہ؛ رجعی طلاق وہ ہوتی ہے جس میں دوران عدت رجوع ممکن ہوتا ہے اور بائن وہ ہوتی ہے جس سے نکاح ٹوٹ جاتا ہے اور رجوع ممکن نہیں رہتا۔ البتہ تجدید نکاح جائز ہے اور جب طلاقوں کا عدد تین تک پہنچ جائے تو اسے طلاق مغلظہ کہتے ہیں۔ اس قسم کی طلاق کے بعد حلالہ کے سوا تجدید نکاح حرام ہے۔

پہلی رجعی طلاق کے چلتے دوسری رجعی طلاق دی جا سکتی ہے۔ لیکن اگر کسی وجہ سے عدت کی مدت کے دوران دوسری طلاق نہیں دی جا سکے تو پہلی طلاق بائن ہو جائے گی اور نکاح ختم ہو جائے گا۔ اب دوسری یا تیسری طلاق موثر نہیں ہوگی البتہ مطلقہ (طلاق شدہ) جوڑا بغیر حلالے کے تجدید نکاح اور تجدید مہر کر سکتا ہے۔ جس کے بعد ان کے پاس صرف ایک رجعی طلاق کی گنجائش رہ جائے گی۔

پہلی یا دوسری رجعی طلاقوں کی عدت (تین مہینے یا تین ماہواریوں ) کے اندر اندر ازدواجی تعلقات قولا یا فعلا قائم کر سکتے ہیں۔ البتہ عدت کے گزرنے کے بعد تجدید نکاح اور تجدید مہر کی گنجائش رہتی ہے۔

البتہ اگر ایسی صورتحال ہو کہ نکاح کے باوجود میاں بیوی نے بوجوہ ازدواجی تعلقات قائم نہیں کیے تو ایک طلاق رجعی بھی طلاق بائن قرار ہوگی، یعنی اس قسم کی طلاق فوراً واقع ہو جائے گی۔ اور اس میں عدت کی کوئی ضرورت نہیں۔ البتہ مطلقہ جوڑا اب نہ صرف اپنی مرضی سے شادیاں کر سکتا ہے بلکہ باہمی رضامندی سے دوبارہ بغیر حلالہ جیسی پیچیدگی کی بغیر بھی تجدید حق مہر کے ساتھ تجدید نکاح کر سکتا ہے۔

حلالہ کے حوالے سے اہم بات یہ ہے کہ یہ منصوبے کے طور نہیں کیا جا سکتا، البتہ قدرتی حالات کے سبب بیوگی یا طلاق کی صورت میں ہی حلالہ قابل قبول اور جائز ہوگا۔

طلاق بارے یہ تمام مواد مطالعے کی بنیاد پر مطالعے پر اکسانے کے لیے لکھا گیا ہے۔ البتہ ہم ایک بار پھر فریقین کو بہ اصرار یہ مشورہ دیں گے اس قسم کے عمل سے پہلے مکرر کسی اچھے مفتی یا قاضی سے بھی صلاح مشورہ کر لیں تو یہ بہرحال زیادہ بہتر رہے گا۔ (واللہ اعلم بالصواب)

اور اب ادھر ادھر کی باتیں۔ صاحبو ہم نہ تو مفتی ہیں نہ ہی وکیل اور نہ ہی شادی و طلاق کا دفتر چلاتے ہیں، اصل میں بل گیٹس کی طلاق اور بعد ازاں عامر خان صاحب کی طلاق اور قبل ازیں خان صاحب کی طلاقوں کے سبب ہمیں خدشہ ہے کہ ہماری قوم جو کہ مثبت معاملات میں تو نہیں البتہ بقول وزیراعظم جناب عمران خان صاحب کے ہالی ووڈ، بالی ووڈ بشمول امریکا و یورپ کی تقلید کر رہی ہے۔ سو کہیں اس قسم کی شخصیات کے عمل سے متاثر ہو کر اسی قسم کی حرکات پر نہ اتر آئے لہٰذا ہم نے چاہا کہ لوگوں کو ہوشیار کر دیں کہ برادران اسلام، طلاق کا صرف ”تھری ان ون“ والا پیکیج ہی نہیں ”سنگل“ ہونے کے لیے ”سنگل طلاق“ والا اور تیر بہدف پیکیج بھی دستیاب ہے۔

اور یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستانی قوم عام طور پر ارزانی کہ چکر میں بہت سی چیزیں ضرورت سے زیادہ حتی کہ تھوک تک میں خرید لیتی ہے، اور عام طور پر فاضل خریداری ضائع ہو جاتی ہے۔ اسی طرح جب بیچنے پر آتی ہے تو کوشش کرتی ہے گاہک کو ایک کے بجائے تین تین ٹکا دے اور شاید اسی دکاندارانہ نفسیات کی بنا پر طلاق دیتے وقت بھی بہت سے لوگ بہت سے اور فوری فائدے کی کوشش میں ایک کے بجائے بیوی کو بیک وقت تین طلاقیں تھما دیتے ہیں۔ اور وہ بھی ہوش و حواس کے دعویٰ کے ساتھ۔ اور یہ ایسی صورت حال ہے کہ عام طور کئیوں کی زندگی ضائع ہو جاتی ہے۔

تو صاحبان یہ ضروری نہیں کہ آپ ہر چیز ضرورت سے زیادہ خریدیں بیچیں اور اپنی جان چھڑانے کے لیے کسی کو بھی تھوک کے بھاؤ پکڑا دیں۔ اگر آپ کا کام کسی قسم کی ایک ہی چیز سے چل جاتا ہے تو ایسے چیز نہ تو تین خریدیں اور نہ ہی تین بیچیں یا تین ٹکائیں!

ہماری ناقص معلومات کے مطابق، طلاق کا اصول دنیا کی اکثر تہذیبوں اور مذاہب میں نہیں اور اس قسم کا قانون یہودیت اور اسلام جیسے چند ایک مذاہب میں ہی ہے۔ اسلام نکاح کو ایک بلند تر مقام دینے کے باوجود اسے آسمانی یا ناقابل تنسیخ قرار نہیں دیتا۔

تین طلاقیں اور کھڑے کھڑے تین طلاقیں عام طور پر اس لیے دے دی جاتی ہیں کہ، بہت سے لوگوں کو طلاق کے طریقہ کار کے بارے میں پتہ نہیں۔ یہ صاحبان فلمی /ڈرامائی انداز میں طلاق دیتے ہیں اور ان کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ نکاح کی طرح طلاقیں بھی بیک وقت تین دینا ضروری ہیں ورنہ شاید واقع نہیں ہوتی۔

ایسا بالکل نہیں! ایک طلاق بھی تین طلاقوں جتنی ہی موثر اور پائدار ہے۔ البتہ اس صورت میں اصلاح احوال کی کافی گنجائش باقی رہتی ہے۔ جب کہ تین طلاقوں کی صورت میں معاملات تھوڑے پیچیدہ ہو جاتے ہیں خاص طور پر فقہ حنفی میں۔ جب کہ اہل حدیث میں بھی ناپسندیدگی کے باوجود تین طلاقوں کو ایک ہی مانا جاتا ہے۔

واضح رہے کہ پاکستان کے قانون میں بھی تین طلاقیں ممنوع اور ایک کے برابر تسلیم کی گئیں ہیں۔

طلاقیں اگرچہ عام طور غصہ میں دی جاتی ہیں جو کہ حرام ہے لیکن بعض اوقات طلاقیں مذاق میں بھی دی گئیں ہیں اور کئی بار کچھ اور دلچسپ صورتحال بھی پیدا ہوجاتی ہے کہ جس میں طلاق ہو سکتی ہے۔

مثال کے طور ایک واقعہ اس طرح کا بھی ہے کہ ایک صاحب کی بیوی بہت بڑ بولی تھیں، اور کچھ اس طرح کے دعوے کرتی رہتی تھیں کہ وہ سب کچھ کر سکتی ہیں۔ ایک بار یہ خاتون اپنے میاں کے ساتھ کھجوریں کھا رہی تھیں کہ عادتا کوئی بڑا بول بول گئیں، جس پر میاں صاحب اتنے برہم ہوئے کہ اپنے اور بیوی کے سامنے جمع گٹھلیوں کے ڈھیر کو آپس میں گڈمڈ کر دیا اور غصہ سے بیوی سے کہا، ”تو سب کچھ کر سکتی ہے تو ذرا اس ڈھیر میں سے اپنی اور میری کھائی ہوئی کھجوروں کی گٹھلیوں کو تو الگ کر دکھا! ورنہ تجھے تین طلاقیں ہیں۔“

بیوی کے تو اوسان خطا ہو گئے۔ اور لگی منتیں کرنے کہ، ”یہ کیسے کر سکتی ہوں۔ یہ تو ناممکن ہے۔“

اب میاں صاحب کو بھی ہوش آیا کہ مردانگی کے مظاہرے کے شوق میں کیا کر بیٹھے ہیں سو دوڑے مفتی صاحبان کے پاس۔ تقریباً ہر ایک مفتی اور عالم نے یہی کہا، ”میاں تمہاری بیوی تم پر حرام ہو گئی۔“ لیکن ایک مفتی صاحب جو علم کے ساتھ عقل بھی رکھتے تھے انہوں نے کہا کہ، ”میں تمھارے مسئلے کا حل نکال سکتا ہوں لیکن تم دونوں کو عہد کرنا پڑے گا کہ دوبارہ اس قسم کی حماقت نہ کرو گے۔“

میاں بیوی نے عہد کیا، تو مفتی صاحب نے بیوی سے کہا، ”آپ کا مسئلہ اپنی اور میاں کی کھائی کھجوروں کی گٹھلیوں کو الگ کرنا ہی ہے تو اس کا حل یہ ہے،“ یہ کہ کر انہوں نے بیوی کی ساری گٹھلیاں پکڑائیں اور میاں صاحب سے پوچھا، ”تمھاری شرط یہی ہے نا کہ تمھاری بیوی تمھاری اور اپنی کھائی ہوئی کھجوروں کی گٹھلیاں الگ الگ کر دے؟“

میاں اقرار کیا۔
مفتی صاحب نے ان کی بیوی سے کہا، ”اب تم یہ گٹھلیاں ایک ایک اور الگ الگ کر کے دور دور پھینکتی جاؤ۔“
بیوی نے مفتی صاحب کی ہدایت پر ساری گٹھلیاں دور دور اور الگ الگ پھینک دیں۔

اب مفتی صاحب نے فرمایا، ”یہ لو، چوں کہ تم دونوں کی کھائی ہوئی کھجوروں کی گٹھلیاں الگ الگ ہو گئیں۔ سو اب تم دونوں ساتھ رہ سکتے ہو۔“

آخر میں عرض کہ ہو سکتا ہے کہ بعض سنجیدہ طبع حضرات کو طلاق کے معاملے میں ہمارا فکاہیہ انداز پسند نہ آیا ہو لیکن صاحبو جب متعدد خواتین حضرات شادی جیسے معاملات کو سنجیدگی سے نہیں برت رہے تو ہم طلاق بارے اور کیا انداز اختیار کریں؟

حوالہ جات /تفاصیل:
الف۔ فتویٰ نمبر : 143803200018
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن
ب۔ فتویٰ نمبر : 144007200138
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن
https://www.banuri.edu.pk/
ج۔ طلاق شرعی رہنمائی
(2/2+1/2)
ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 5 ‏، جلد: 96 ‏، جمادی الثانیہ 1433 ہجری مطابق مئی 2012 ء
د۔ ایک مجلس کی تین طلاقوں کا شرعی حکم کتاب و سنت کی روشنی میں
https://forum.mohaddis.com


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments