! رنگ برنگی عینکیں


عنوان کو دیکھ کے میلوں ٹھیلوں میں لکڑی کے سٹینڈ پے لگی عینکیں اگر یاد آ گئی ہیں تو میں معذرت چاہتا ہوں میری مراد یہاں ان عینکوں سے نہیں۔ یہاں رنگین عینکیں رے بین، گوچی یا پر اڈا کی بھی نہیں ہیں یہاں رنگ برنگی عینکیں مذہب، غرور، تعصب، انا اور بے شمار ملتی جلتی رویوں کی ہیں۔

پیدائش کے بعد سب سے پہلے جس عینک سے ہمیں دیکھا جاتا ہے وہ عمومی طور پر مذہب کی عینک ہے۔ اگر یہ عینک کسی مسلمان نے لگائی ہے تو آپ مسلمان اور اگر عینک کسی عیسائی یا غیر مسلم نے لگائی ہے تو آپ عیسائی یا غیر مسلم قرار پا جاتے ہیں۔ آپ کیا چاہتے ہیں اس سے سروکار تو ان کو ہو سکتا ہے جنہوں نے عینکیں نہ لگائی ہوں ۔ ہمارے ہاں بونس کے طور پر برادری کی عینک بھی لگائی جاتی ہے جس سے آپ کو دیکھنا شروع کر دیا جاتا ہے، چوہدریوں کے گھر کی عینک سے آپ بھی چھوٹے چوہدری، ارائیوں کی عینک سے آپ ارائیں اور اسی طرح اگر آپ برہمن عینک زدہ ہوں گے تو آپ بھی ننھے منے برہمن ہو سکتے ہیں ورنہ شودر تو کہیں نہیں گئے۔ چلیں یہ عینک تو ہمیشہ لگی رہے گی آپ اتارنا بھی چاہیں گے تو نہیں اتر سکتی، کوئی برہمن یا کوئی چوہدری اگر کل کلاں عینک اتار کر صرف انسان بن کر سوچنا چاہے گا تو بھی عینک نہیں اتر سکے گی اور آپ کی ہزار کوششیں بھی رنگ نہیں لا سکیں گیں۔

سکول اور کالج کی عینک لگانے کے لیے آپ کے مالی حالات کا جانچا جانا بہت ضروری ہے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اب مذہب اور ذات کی مفت اور قدرتی عینکوں کے ساتھ ساتھ کچھ عینکیں آپ کو خریدنی بھی پڑتی ہیں۔ یہ اسٹیٹس کو کی پہلی عینک ہے جو آپ کو آپ کے والدین پہناتے ہیں۔ اس میں رے بین کی عینک بھی ہو سکتی ہے اور عام دکان سے خریدی جانے والی عام سی دو نمبر عینک بھی، حالانکہ نظر دونوں عینکوں سے ایک جیسا ہی آتا ہے۔

ہم کہہ سکتے ہیں کہ مذہب اور اسٹیٹس کو کی عینکوں سے آپ باقی ماندہ عینکوں سے بھی مستفید ہو سکتے ہیں۔ آپ غرور کی عینک بالکل پہن سکتے ہیں اگر آپ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اور معاشرے میں اعلیٰ مقام پر فائز ہیں، یا پھر آپ یا آپ کے رشتہ دار، بھائی، کزن وغیرہ پولیس، جوڈیشری یا وکلاء کی برادری سے تعلق رکھتے ہوں۔ تعصب کی عینک ان سب میں سے ایسی عینک ہے جس کو پہن کے آپ چاہے انسان بھی نہ نظر آتے ہوں مگر اپنے آپ کو آپ شہزادہ گلفام سمجھ رہے ہوتے ہیں۔ یہ عینک بھی دوسری عینکوں کی طرح ایک بار لگ جائے تو اتارے بھی نہیں اترتی۔

اور اب آتے ہیں انا کی عینک کی طرف، یہ عینک بڑی دلچسپ ہے اس کو لگاتے ہی آپ اپنے آپ کو زمین سے کئی فٹ اوپر تیرتا ہوا محسوس کرتے ہیں۔ انا کی عینک عام طور پر (جان کی امان پاؤں تو عرض کروں ) علماء حضرات، روساء، شرفاء، کاروباری حضرات، بیگمات، اعلیٰ سوسائٹی کی شخصیات، سیاست دانوں (جب الیکشن سر پر نہ ہوں تو) ، یا وہ حضرات جن کی کوئی بھی نسل بیوروکریسی میں گزری ہو اور بالخصوص گورنمنٹ ملازمین پہنتے ہیں۔ اور قبر تک اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔ انا کی عینک سے عام انسان بونے بونے سے نظر آتے ہیں بلکہ (حصہ بقدر جثہ) بعض حضرات کو تو انسان انسان ہی نہیں لگتے۔

ان سب عینکوں کے لگانے والے آخر دم تک یہی سمجھتے ہیں کہ ہم ہمیشہ اسی طرح رہیں گے اور عینک کے شیشوں سے پرے کی دنیا آتی جاتی رہے گی۔ لیکن ایک آخری عینک بھی ہے جس عینک سے اللہ پاک سب انسانوں کو دیکھتے ہیں، جس عینک سے زمین و آسمان کی کوئی حرکت چھپی ہوئی نہیں۔ اس عینک کے پیچھے کی بینائی کی تاب ہم کہاں لا سکتے ہیں، جب اس عینک سے زیادتی کرنے والوں کو دیکھا جاتا ہے تو پل بھر میں لگامیں کھینچی جاتی ہیں تو باقی رنگ برنگی عینکیں ٹوٹ جاتی ہیں۔ کاش ہم سادہ شیشوں کی سادہ سی عینک سے دیکھنا شروع کر دیں اور انسانوں کورنگ، نسل، فرقہ اور مذہب کی تخصیص کیے بغیر صرف انسان سمجھیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments