چاند پر جائیدادیں: کیا دو پاکستانی شہری چاند پر جا کر اپنے پلاٹوں کی ملکیت لے پائیں گے؟

عمر دراز ننگیانہ - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، لاہور


جب پہلی بار زمین سے نکل کر انسان نے چاند پر قدم رکھا، زمین کے باسیوں کے لیے یہ ایک ناقابلِ یقین کارنامہ تھا۔ لیکن اب لگ بھگ پچاس برس بعد کم از کم دو پاکستانی شہری چاند پر زمین خرید چکے ہیں۔

لاہور کے ازرام علی نے مہتاب پر پانچ ایکڑ زمین گذشتہ برس خریدی تھی۔ حال ہی میں انھیں ملکیت کے کاغذات موصول ہوئے ہیں جس میں پلاٹ کی رجسٹری، اس کی سیٹلائٹ تصویر اور مخصوص جگہ کے بارے میں معلومات دی جاتی ہے۔

اس سے قبل راولپنڈی کے رہائشی صہیب احمد چاند کے اسی علاقے میں ایک ایکڑ خرید کر اپنی اہلیہ کو تحفے میں دے چکے تھے۔

ان دونوں کی زمین چاند کے علاقے ‘سی آف ویپرز’ میں واقع ہے۔ اس علاقے میں فی ایکڑ قیمت سب سے کم ہے لیکن بیچنے والوں کے مطابق ‘یہاں کی لوکیشن پرائم اور نظارے حیرت انگیز ہیں۔’

چاند کے زمین سے نظر آنے والے حصے کے تقریباً وسط کی طرف واقع لگ بھگ 40 کلومیٹر چوڑا گڑھا جسے کریٹر مینیلیئس کہتے ہیں ان کی جائیداد کے قریب ہے۔

سی آف ویپرز نامی جس علاقے میں ازرم علی اور صہیب احمد کی جائیدادیں واقع ہے وہاں سے 600 کلومیٹر جنوب مغرب کی طرف وہ مقام ہے جہاں سنہ 1969 میں پہلی مرتبہ انسان نے چاند پر قدم رکھا تھا۔ ان کے پلاٹس کے قریب ایک جھیل ‘ڈولورس’ اور پہاڑی سلسلہ ‘ہیمس’ بھی ہے، یعنی یہ بظاہر کسی ’پرائم لوکیشن‘ سے کم نہیں۔

ان تمام خصوصیات کے ساتھ چاند پر زمین کا یہ ٹکڑا ازرام علی کو زیادہ مہنگے داموں نہیں ملا۔ انھوں نے پانچ ایکڑ کے لیے محض 130 امریکی ڈالرز کے قریب رقم خرچ کی ہے۔ صہیب احمد کو تو ایک ایکڑ اس سے بھی کہیں کم قیمت پر ملا۔

تاہم صہیب احمد نے بی بی سی کو بتایا کہ جس علاقے میں ان کی زمین واقع ہے وہاں ‘اب ایک ایکڑ والے پلاٹ تمام تر فروخت ہو چکے ہیں۔ میں نے حال ہی میں کچھ لوگوں کے لیے ایک ایکڑ کے پلاٹ خریدنے کی کوشش کی مگر وہ دستیاب نہیں تھے۔’

ان دونوں کو جائیداد کے کاغذات کے ساتھ اپنی زمین کی تصاویر بھی بھیجی گئی تھیں۔ یہ سیٹلائیٹ سے لی گئی تصاویر ہیں جن میں ان کے پلاٹ کافی واضح طور پر دکھائی دیتے ہیں۔

ان کی زمین کی نشاندہی تصویر پر لکیریں لگا کر کی گئی ہے تاہم انھیں اس کا محلِ وقوع کاغذات کے اندر واضح طور پر بتا دیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی ان کے پلاٹ کا مخصوص نمبر بھی ان کے پاس موجود ہے۔

زمین بیچنے والے امریکی ادارے لونا سوسائٹی انٹرنیشنل نے انھیں بتایا تھا کہ ‘اس طرح انھیں اپنی زمین تلاش کرنے یا دیکھنے میں آسانی ہو گی چاہے وہ دوربین کے ذریعے اس کا نظارہ کریں یا پھر خود جا کر دیکھنا چاہیں۔’

ازرام اور صہیب چاند پر جا کر اپنے پلاٹ دیکھ پائیں گے؟

عام حالات میں تو اکثر لوگ پلاٹ خریدنے سے پہلے اس کا دیدار کرنا پسند کرتے ہیں۔ تاہم سوال یہ ہے کہ ازرام علی اور صہیب احمد چاند پر اپنی جائیداد دیکھنے اور اس کی ملکیت حاصل کرنے کے لیے کب چاند پر قدم رکھ پائیں گے؟

آخری مرتبہ انسان نے چاند پر قدم سنہ 1972 میں رکھا تھا جب امریکی خلا باز اپولو 17 نامی ایک مہم کے ذریعے وہاں پہنچے تھے۔ وہ ان 12 انسانوں میں شامل ہیں جو اب تک چاند کی سطح پر اتر چکے ہیں۔

اس کے بعد سے آج تک کوئی انسان واپس چاند پر نہیں جا پایا تاہم مستقبل میں کئی مہمات متوقع ہیں۔

اس کی کئی وجوہات میں سے ایک یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ انسانوں کو چاند پر لے کر جانے والے خلائی مشن پر آنے والا خرچ اس قدر زیادہ ہے کہ امریکہ جیسے ترقی یافتہ ممالک کی حکومتیں بھی اس کے لیے حامی بھرنے سے ہچکچاتی ہیں۔

تاہم چاند پر زمین کے مالک دونوں شہری پُرامید ہیں۔ صہیب احمد سے زیادہ ان کی اہلیہ چاند پر جانے کی خواہش رکھتی ہیں۔ ‘ہم کوشش بھی کر رہے ہیں کہ نجی طور پر خلا میں جانے والے کسی پروگرام کا حصہ بن جائیں تا کہ ہم بھی چاند ہر جا سکیں۔’

ازرام علی سمجھتے ہیں کہ ‘ناممکن تو کچھ بھی نہیں۔ ہو سکتا ہے کبھی موقع مل جائے۔ اگر ضرورت پڑی تو پانچ میں سے چار ایکڑ بیچ دوں گا تا کہ خلائی سفر کے اخراجات اٹھا سکوں۔’

’زمین پر زیادہ پیسوں کی پیشکش ملی تھی‘

ازرام علی خود بیریسٹر ہیں اور انگلینڈ میں تعلیم حاصل کر چکے ہیں۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ مستقبل قریب میں ایسا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا کہ انسان چاند پر واپس پہنچ پائے گا۔

آئندہ چند برسوں میں اگر ایسا ممکن ہو بھی پاتا ہے، قسمت ان کا ساتھ دیتی ہے اور وہ کسی مہم کا حصہ بن جاتے ہیں تو بھی اس کے خرچ کے لیے انھیں لاکھوں ڈالرز کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ 130 ڈالرز میں خریدی گئی زمین کو بیچ کر وہ کتنے پیسے بچا سکتے ہیں؟

ازرام علی کے مطابق حال ہی میں انھیں ویب سائٹ پر ان کی زمین کی 20 سے 30 ڈالرز اضافی قیمت کی آفر مل رہی تھی۔ صہیب احمد کو تاہم ان کے ایک ایکڑ کے لیے کافی زیادہ پیسوں کی پیشکش ہو چکی ہے لیکن وہ انھوں نے ٹھکرا دی تھی۔

‘متحدہ عرب امارات میں رہنے والے کوئی پاکستانی شہری تھے انھوں نے ہمیں ایک ہزار امریکی ڈالرز کے عوض اپنی زمین انھیں بیچنے کی پیشکش کی تھی۔ انھیں نایاب چیزیں جمع کرنے کا شوق تھا۔ لیکن میری اہلیہ نے کہا کہ وہ نہیں بیچیں گی۔‘

یہ بھی پڑھیے

امریکی خلائی اجارہ داری کو خطرہ ہے؟

سورج اور چاند گرہن: گرہن کیا ہوتا ہے اور اس کی کتنی اقسام ہیں؟

نظام شمسی کے سب سے بڑے چاند کی آج تک کی سب سے قریبی تصویر

امریکہ کے بعد چین چاند پر جھنڈا لگانے والا دوسرا ملک

ازرام علی نے اپنے چار ایکڑ جس قیمت پر بیچنے کے ارادے کا اظہار کیا وہ لاکھوں ڈالرز ہی میں ہے۔ محمد صہیب کو بھی امید ہے کہ ایسا ہونے جا رہا ہے۔ ان کے پلاٹوں کی قیمت کئی گنا بڑھ جائے گی۔

ازرام علی سمجھتے ہیں کہ ‘آئندہ چند برسوں میں چاند پر پلاٹوں کی خرید و فروخت عین اسی طرز پر ہو گی جس پر ان دنوں کرپٹو کرنسی کا کاروبار ہو رہا ہے۔ کرپٹو میں بھی پیسے کا وجود نہیں ہوتا۔ آپ اسے چھو نہیں سکتے۔ یہ سب ڈیجیٹل ہے۔ اسی طرح چاند پر پلاٹ بھی نمبروں کی مدد سے خریدے جائیں گے اور پھر آگے مہنگے بیچے جائیں گے۔ اسی طرح اس کے حصص میں اُتار اور چڑھاؤ ہو گا۔‘

اگر ایسا ہوتا ہے تو ازرام اور صہیب سمجھتے ہیں ان کی جائیدادوں کی مالیت دنوں میں کہیں سے کہیں پہنچ سکتی ہے۔ ازرام نے بتایا کہ یہی وجہ ہے کہ اب تک 60 لاکھ کے قریب افراد چاند پر پلاٹ خرید چکے ہیں۔

اس حوالے سے تاحال حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا ہے۔ تاہم چاند پر پلاٹ فروخت کرنے والے امریکی ادارے لونا سوسائٹی انٹرنیشنل کے مطابق پلاٹوں کی فروخت سے جمع ہونے والی رقم سے وہ ‘انسان کو واپس چاند پر لے جانے کے مشن کو تکمیل کر پہنچانا چاہتے ہیں۔‘

ان کے منصوبے کے مطابق مختلف مراحل میں انسان کو چاند پر اتارنے کے بعد وہاں تعمیرات کی جائیں گی۔ ان میں تحقیقاتی مراکز کے علاوہ سیاحوں کے لیے رہائش کا بندوبست بھی شامل ہے۔

‘چاند کی آب و ہوا میں پائی جانے والی ہیلیئم گیس کو ایندھن کے طور پر استعمال کیا جائے اور اس کی سطح سے نکلنے والی معدنیات سے اینٹیں تیار کی جائیں گی جن کی مدد سے یہ تعمیرات ممکن ہو پائیں گی۔‘

ان کا مقصد یہ ہے کہ نا صرف سائنسدانوں کے لیے چاند پر مستقل تحقیقاتی مہمات کا بندوبست ہو پائے بلکہ آہستہ آہستہ انسان کو بھی چاند پر آباد کیا جائے چاہے اس کی ابتدا چھوٹی سی سیاحوں کی آبادی ہی سے کیوں نہ ہو۔

لونا سوسائٹی انٹرنیشنل کو لگتا ہے کہ جلد وہ اتنے پیسے جمع کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے کہ ان کی مدد سے وہ انسان کو چاند پر لے جانے والی نجی کمپنیوں کو فنڈ فراہم کر پائیں گے۔ تاہم انھوں نے ازرام اور صہیب کو واضح طور پر بتا رکھا ہے کہ جب وہ وقت آئے گا تو ‘اس خلائی سفر کا خرچ انھیں خود برداشت کرنا ہو گا۔’

’ہمیں کوئی جلدی نہیں‘

زمین پر جائیداد کی خرید و فروخت میں ایک فراڈ جو عمومی طور پر سامنے آتا ہے اس میں ایک شخص کا پلاٹ کئی ہاتھوں میں بیچ دیا جاتا ہے۔ یوں اس کے کئی دعویدار ہو جاتے ہیں اور ملکیت کسی کو بھی نہیں مل پاتی۔

کل کو اگر ازرام علی اور صہیب احمد اور ان کی اہلیہ چاند پر پہنچتے ہیں تو کیا وہ با آسانی اپنی جائیداد کی ملکیت حاصل کر پائیں گے؟ ازرام علی کہتے ہیں انھوں نے ان تمام پہلوؤں کا جائزہ لینے کے بعد ہی پلاٹ خریدے تھے۔

لونا سوسائٹی انٹرنیشنل کے مطابق اقوامِ متحدہ اور امریکی حکومت کی جانب سے انھیں چاند پر پلاٹ بیچنے کا اختیار دیا گیا۔ دونوں پاکستانیوں کی جائیدادیں لونر سیٹلمنٹ انیشیئیٹو کے تحت انٹرنیشنل لونر لینڈز رجسٹری کے پاس رجسٹر ہو چکی ہیں۔

اس انیشیئٹو یا معاہدے کی رو سے دنیا کے تمام ممالک برنی کنونشن نامی ایک معاہدے کے ذریعے یہ طے کر چکے ہیں کہ چاند پر زمین کسی ایک ملک یا حکومت کی ملکیت نہیں ہو گی تاہم انفرادی طور پر کسی بھی قوم کا فرد چاند پر جائیداد خرید سکتا ہے۔

اسی طرح انٹرنیشنل لونر لینڈز رجسٹری کے حقوق محفوظ ہیں اور اس کی سالانہ اشاعت امریکی کانگرس کی لائیبریری سمیت برطانیہ، جاپان، روس اور اقوامِ متحدہ کی لائبریریوں میں رکھی جاتی ہے۔

ازرام علی اور صہیب احمد کے مطابق وہ اچھی طرح اس بات کی چھان بین کر چکے ہیں کہ پلاٹوں کی خرید و فروخت میں کوئی فراڈ نہیں ہے۔ اب انتظار محض اس بات کا ہے کہ نجی خلائی کمپنیاں چاند کی طرف انسانوں کو لے جانے کا آغاز کب کرتے ہیں۔

یاد رہے کہ امریکی حکومت نے یہ اعلان کر رکھا ہے کہ وہ سنہ 2024 تک انسان کو چاند پر واپس لے جانے کے منصوبے کو مکمل کرنے کا اراداہ رکھتے ہیں۔ ساتھ ہی سپیس ایکس نامی نجی کمپنی سمیت چند دیگر کمپنیاں بھی خلا کی سیاحت کے پروگراموں پر کام کر رہی ہیں۔

دنیا کے چند امیر اور مخیر افراد چاند کی طرف اس ممکنہ سیاحتی سفر کے کیے بکنگ بھی کروا چکے ہیں۔ ازرام علی اور صہیب احمد کو بھی امید ہے کہ وہ بھی ایسے پروگراموں کا حصہ بن پائیں گے۔ یہ نہیں معلوم کے اس کے لیے انھیں کتنا انتظار کرنا پڑے گا لیکن ازرام اور صہیب کو ’کوئی جلدی نہیں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32497 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp