کراچی کی بارش اور سائیڈ افیکٹس


بارش تو باعث رحمت ہوتی ہے لیکن کیا کریں ہم کراچی والے جن کے نصیب ہی سیاہی سے لکھ دیے گئے ہیں، جیسے ہی بارش کا پہلا چھینٹا پڑتا ہے ایک افراتفری کا منظر دیکھنے میں آتا ہے، کوئی پانی چڑھانے کی موٹر چلانے بھاگتا ہے کوئی چھت پر پرنالے کھولنے چڑھ جاتا ہے، کسی کو باہر کھڑی گاڑی یا بائیک کو ڈھانپنے کا خیال آتا ہے، سب سے زیادہ خطرہ تو گٹر اوور فلو ہونے کا ہوتا ہے، کہیں نالیوں سے کچرا نکالا جاتا ہے کہ پانی کی روانی متاثر نہ ہو۔

فلیٹس میں رہنے والوں کی مشکل الگ، بجلی تو بارش شروع ہوتے ہی چلی جاتی ہے اب لفٹ بند اسٹینڈ بائی جنریٹر ہے تو اچھا ہے ورنہ باہر کی سہانی بارش بھی گھر کے اندر کی تلخیاں ختم نہیں کر پاتی بلکہ اس وقت خاتون خانہ کی جان مشکل میں آ جاتی ہے وہ ون مین آرمی بنی ہر طرح کے امور سر انجام دیتی ہے، ماسیاں بھی بارش کی نذر ہو جاتی ہیں اور یہ بے چاریاں بجلی اور پانی سے جنگ لڑتے ہوئے کھانے پینے کا انتظام کرتی ہیں۔

پچھلے سال کی بارش کے تلخ تجربات تو کراچی والے بھولے نہیں سب کو ایک ہی صف میں کھڑا کر دیا تھا۔ کیا ڈیفینس کیا، اورنگی سب پانی میں ڈوب رہے تھے اور حکومت کی شان میں قصیدہ گو تھے۔ کراچی کا نصیب ہی ایسا ہے کس کس بات کا رونا رویا جائے، سڑک بن کر تیار ہوتی ہی ہے کہ سیوریج والوں کو کام یاد آ جاتا ہے اور سڑک کی کھدائی شروع کبھی پی ٹی سی ایل والے سڑک کھودنا شروع کر دیتے ہیں۔ اسی طرح سارا سال اداروں کی آنکھ مچولی چلتی رہتی ہے بس تکلیف اٹھاتے ہیں تو کراچی کے شہری ایسے میں بارش ہو جائے تو ناگہانی آفت سے کم نہیں اب سڑک پر کھڑے پانی میں یہ پتہ ہی نہیں چلتا کہاں گڑھا ہے اور کہاں سڑک یہ تو بحر ظلمات میں اترنے کے بعد ہی پتا چلتا ہے۔

کراچی کے نظام کو گھنٹہ بھر کی موسلادھار بارش باآسانی تلپٹ کر دیتی ہے اور یہاں کے شہری پتھر کے زمانے میں پہنچ جاتے ہیں جب نہ بجلی تھی نہ گیس نہ ذرائع آمدورفت حالانکہ کراچی میں لوگ روزگار کے سلسلے میں روزانہ بیس سے پچیس میل کا فاصلہ طے کرتے ہیں لیکن بارش کی بدولت یہی راستہ مشکل ترین ہوجاتا ہے۔ ہم نے لاہور اسلام آباد کی بارشیں بھی دیکھی ہیں موسلا دھار بارش کے بعد تھوڑے سے وقت میں ہی پانی سڑکوں سے غائب ہوجاتا ہے اور ایک خوشگوار تاثر قائم ہوتا ہے کبھی کبھار ہی ناگہانی صورتحال پیدا ہوتی ہو لیکن کراچی جیسا حال کسی میگا سٹی کا نہیں ہوتا۔

کراچی جو پورے پاکستان کی شہ رگ جہاں کروڑوں کی زکوة خیرات نکلتی ہے، جہاں انسان بھوکا تو اٹھتا ہے لیکن بھوکا سوتا نہیں، رمضان المبارک میں سر راہ افطار کا انتظام، گرمی میں ٹھنڈے پانی کے کولر جگہ جگہ پیاس بجھانے کے لیے رکھے ہوتے ہیں، جہاں مٹی بھی بیچ کر لوگ امیر ہو جاتے ہیں اس کراچی کا نصیب کہ گھنٹے بھر کی بارش میں شہر کا سارا نظام بیٹھ جاتا ہے۔ کبھی سنا ہے کسی سے کہ ساون کے موسم سے ڈر لگتا ہے واقعی کراچی والے ڈرتے ہیں ساون کی جھڑی سے۔ ساون کا موسم جو ہر جوان دل میں ایک امنگ جگا دیتا ہے بلکہ بوڑھے بھی ساون کے موسم میں گنگنانے لگتے ہیں۔ کراچی والوں کے نصیب میں کہاں ساون کے پکوان، جھولوں کی پینگیں، یہاں تو بیٹی بھی گنگناتی ہے تو یہ بول

اماں میرے باوا کو بھیجو ری
بجلی نہیں کہ ساون آیا

یہ ہے کراچی کا ساون اس کا قصور وار کسے ٹھہرائیں کیونکہ دوسرے دن کا اخبار چیخ چیخ کر کہہ رہا ہوتا ہے کہ یہ صوبائی حکومت کا کیا دھرا ہے اور صوبائی حکومت مرکزی حکومت کو قصور ٹھہراتی ہے، اربوں روپوں کے فنڈ جانے کہاں بارش کے پانی میں بہہ جاتے ہیں۔ بارش کے بعد پھر سے زندگی رواں دواں ہو جاتی ہے، لوگ دوبارہ سے کام کاج میں لگ جاتے ہیں چاہے بسوں کی چھتوں پر بیٹھ کر جانا پڑے، چاہے چنگچی رکشوں پر حیرت نہ کریں یہ یہاں کی موڈرن ٹرانسپورٹ ہے۔

زندہ دلان کراچی بارش کی تباہ کاریاں بھلا کر پھر سے تعمیر وطن میں لگ جاتے ہیں یہ ہیں کراچی والے جو ہر قوم ہر نسل سے تعلق رکھتے ہیں جنھیں کوئی اپنانے کو تیار نہیں ہر جماعت کو اپنا ووٹ بینک عزیز ہے اور ان ووٹوں سے وہ کراچی کے ان داتا بننا چاہتے ہیں۔ اب بتائیے کراچی کے شہری بارش نہ ہونے کی دعا نہ مانگیں تو کیا کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments