سیاحتی علاقوں میں زمین پر تنازعات میں شدت


جب بھی مقامی طور پر کوئی تنازعہ سر اٹھاتا ہے تو عمومی طور پر ایک جملہ ہر عام و خاص سے سننے کو ملتا ہے کہ، ”قیادت نہیں رہی ) گھن نہ دھرائی ( اس لئے کوئی فیصلہ نہیں ہو پا رہا یا کوئی فیصلہ کرنے والا نہیں“ ۔ ہمارے ہاں اس جملے کو کئی بار سننے کا موقع ملتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی لاحقہ لگاتے ہیں کہ ماضی ”کتنا شاندار تھا“ جب جرگہ ہوتا تھا اور ایک یا چند بڑوں کی باتوں کو سب مانتے تھے۔ ماضی کتنا شاندار تھا جملہ بھلا لگتا ہے کہ اس میں ان ساری تاریخی، سماجی، معاشی اور سیاسی امور کی پرکھ سے جان بچ جاتی ہے جو ”ماضی کتنا شاندار تھا“ اور حال کتنا بے حال ہے کے بیچ وقوع پذیر ہوئے ہیں۔

ماضی کے صرف واقعات اور شخصیات کو یاد رکھا جاتا ہے۔ ایسی تاریخ ہمیں پڑھائی جاتی ہے اس لئے تاریخ کی سماجی و معاشی پہلو سے پہلوتہی ایک عمومی رویہ بن جاتا ہے۔ یوں ہم ماضی اور حل کے بیچ صدیوں بلکہ ہزاروں سالوں پر محیط سماجی، سیاسی، معاشی اور فکری سفر کو بھول جاتے ہیں۔

ہمارے اس علاقے یعنی سوات کے داردی پٹی ) توروالی و گاؤری ( علاقوں میں قدیم زمانے میں کوئی جرگہ نظام ہوا کرتا تھا جیسے پشتون معاشرے میں ہوا کرتا تھا۔ اس وقت سیاسی، سماجی اور سیاسی حالات پیچیدہ نہیں تھے اور کسی گاؤں کو ایک نمبردار بھی قابو کر سکتا تھا۔ لوگوں کو کسی اور ذریعے تک رسائی حاصل نہیں تھی اور جب باقاعدہ ریاست قائم ہوئی تو بھی یہی نمبردار ریاست کا نمائندہ ٹھرا اور اسی کے ذریعے مقامی لوگوں کی ریاستی مشینری تک رسائی ہوا کرتی تھی لہذا کوئی متبادل قیادت اور ذرائع نہ ہونے کی وجہ سے لوگ اسی ایک یا چند نمبرداروں کے قابو میں ہوتے تھے۔

یوں کسی جرگہ میں وہ لوگ کسی بات کا فیصلہ کرتے تو سب کو ماننا پڑتا۔ اس وقت کسی گاؤں میں آبادی بھی بہت محدود ہوتی تھی اور سب کا روزگار، ثقافت، معیشت ایک جیسے ہوتی تھیں اس لئے ان کا رتبہ بھی ایک جیسا ہوتا تاہم نسلی اونچ نیچ بہت پائی جاتی تھی چونکہ وہ قدیم رسومات سے چلتی ارہی تھی۔ کوئی سماجی، سیاسی یا معاشی مقابلہ نہیں ہوتا تھا۔ جس کے پاس زمین زیادہ ہوتی، ساتھ جوان ) ڈاک گھن/تیار خور ( زیادہ ہوتے وہی معتبر ٹہرتا۔

علاقہ بند تھا یعنی باقی دنیا کے نزدیک غیر اہم اور بے کشش و وحشی۔ سڑکیں نہیں تھیں۔ راستے پتھروں کے تھے۔ باہر سے کسی کی نظر نہیں پڑتی تھی۔ چراگاہوں سے محبت تھی اسی لئے اس وقت زیادہ تر رومانوی گیت چراگاہوں کے گرد گھومتے تھے۔ بڑی جنگیں چراگاہوں پر لڑی جاتی تھیں کیوں کہ ان سے معیشت کے بڑے وسائل مویشیوں کا واسطہ تھا۔ ان لڑائیوں کو آسانی سے قابو کیا جاسکتا تھا کہ آبادی کم اور لوگوں میں سیاسی و سماجی مقابلہ نہیں ہوتا تھا۔

اب کے مسئلوں کو اگر ہم اسی ماضی کے زاویے سے دیکھے تو یہ ہماری کم علمی ہی نہیں حماقت بھی ہوگی کیوں کہ اب علاقہ بند نہیں رہا۔ سڑکیں بند گئیں ہیں، معاش کے نئے ذریعے پیدا ہوئے ہیں اور اسی کے ساتھ نئے سماجی و سیاسی مقابلے شروع ہوچکے ہیں۔ علاقہ الگ تھلگ نہیں رہا ہے بلکہ نوجوان اور جوان باقی ماندہ دنیا شے جڑ گئے ہیں اگرچہ یہ اشتراک علمی و فکری سے زیادہ مادی ہے اور کئی حوالوں سے کمتری، نا واقفیت اور نقالی پر مبنی ہے تاہم لوگوں کو اب طاقت کے متبادل اور غیر مقامی ذرائع تک رسائی حاصل ہو چکی ہے۔ ایک ریاست کا نظام لاگو ہو چکا ہے اگرچہ بہت ہی ناقص اور نا اہل و بد عنوان ہے۔ اس علاقے میں سیاحت کے فروغ کے ساتھ ہی زمینوں کی قیمت بڑھ گئی اور ان پر تنازعات میں شدت آنے لگی ہے۔

جب سے علاقے میں سیاحت شروع ہوئی تو مقامی لوگوں نے زمینیں فروغ کرنا شروع کیں۔ اس عمل میں سڑک کنارے قیمتی زمینیں ہاتھ سے چلی گئیں تو نظریں ظاہر ہے دور پہاڑوں پر جم گئیں۔ جب قریب کی زمینیں بیچ کر کھا گئے تو عادت سی پڑ گئی اور یوں دور دور زمینوں کو فروخت کرنے کا وقت آ پہنچا۔ ایسے میں حکومتی نظریں بھی ان خوب صورت زمینوں پر جم گئیں اور ساتھ غیر مقامی سرمایہ کاروں کی بھی۔ بعض دوستوں کا دعوی ہے کہ اس سیاحت سے مقامی معیشت کو فروغ ملا ہے۔ ملا ہوگا لیکن آٹے میں نمک کے برابر۔ اگر واقعی کوئی متاثر کن اثر پڑ گیا ہوتا تو گزشتہ تین دہائیوں میں ہمارے علاقے سے موسمی و مستقل نقل مکانی میں کمی آجاتی مگر ایسا نہیں ہوا۔ بلکہ اس جدید معاشی مقابلے نے تو کئی لوگوں کو مستقل ہجرت کرنے پر مجبور کیا ہے اور اس نقل مکانی میں اضافہ ہوا ہے۔

کہتے ہیں نقدی یعنی روکڑا آج کل ہر رشتے، ہر قدر، ہر شخصی حمیت اور اخلاق سے بڑھ چکا ہے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو ہمیں بحرین کالام سڑک پر، کالام بازار و کالام اتروڑ اور مہوڈنڈ سڑکوں پر بھیک مانگتے یا کچھ چیزیں بیچتے بچے اور بچیاں نظر نہیں آتی ہوتیں۔ ان بچوں کو ابھی سے بھیک مانگنے پر مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ بسکٹ، بوتل یا ایسی دوسری چیزیں بیچنے کی آڑ میں بھیک ہی مانگتے ہیں۔ یہ چیزیں بیچتے بیچتے وہ اس پر آتے ہیں کہ اللہ کے نام پر کچھ دے دیں صاحب!

بات لمبی ہوتی گئی وہ یوں کہ مسائل اتنے سامنے ہیں کہ بس۔

پورے شمال میں چونکہ سیاحت کے حوالے سے مشہور ترین جگہ کالام اور اس کی وادیاں ہیں اس لئے زمین سے متعلق تنازعات یہاں زیادہ شدت سے سر اٹھاتے ہیں۔ دیسان ہو کہ کالام۔ اوشو جنگل، بن شئی ) شاہی گراؤنڈ ( ہو کہ مہوڈنڈ ہر سو یہ تنازعات سر اٹھاتے ہیں اور ان میں شدت آجاتی ہے۔

ان تنازعات کا حل ماضی میں نہیں بلکہ ہمیں حال میں رہ کر سوچنا ہوگا۔ ان تنازعات میں بزرگ بھی فریق بن گئے ہیں اور کئی جوشیلے نوجوان جنگجو بن کر اپنے ہی ہم نسل، ہم زبان اور ہم مکاں کے خلاف اپنی ”بہادری کے جوہر دکھانے پر تلے ہوئے ہیں کہ اس طرح وہ اپنے“ قبیلے ”میں“ اعلی مقام ”حاصل کر سکتے ہیں“ ۔ ایسے میں حل کیا ہے؟ مشکل سوال ہے۔ البتہ اس پر کام کرنا ناممکن نہیں۔ حالیہ دنوں میں توروال/بحرین کے دو گاؤں کے بیچ دو دہائیوں سے زیادہ عناد کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ ایک دوسرے کے سامنے مورچہ زن ہونے کے بعد آخر کار یہ دونوں فریق میز پر آ گئے اور اس ”دشمنی“ کو مذاکرات کے ذریعے ہی حل کر کے وہی سبق دہرایا کہ ہر تنازعے کا اخری اور پائدار حل ایک دوسرے کو سمجھنا اور ایک دوسرے سے مذاکرات کر کے ہی نکل سکتا ہے۔

حالیہ تنازعات میں اچھی بات یہی ہے کہ دونوں وادیوں کالام اور اتروڑ کے سب لوگ اس کی شدت میں شریک نہیں ہیں۔ لہذا یہی راہ بچ جاتی ہے کہ اس ”خاموش اکثریت“ کو سامنے آنا ہے اور دیگر علاقوں یعنی دیر کوہستان اور بحرین سے چنیدہ لوگوں کی مدد سے مذاکرات کروانے ہیں۔

ریاست کی بہت بڑی ذمہ داری بنتی ہے۔ اس کا کام صرف جنازے اٹھانا نہیں اور نہ ہی صرف موقعے پر پہنچ کر ”جنگ بندی“ کرانی ہے۔ ان اداروں کو چاہے کہ وہ ان فریقین کے بیچ مذاکرات کی سہولت کاری کرے اور ان تنازعات کا ایسا حل نکال لینا چاہے جہاں دونوں فریقین کو یہ باور ہو کہ وہ جیت گئے ہیں اور خوش ہیں۔ ایسے میں دونوں فریقین پر لازمی ہے کہ انہوں نے اپنی طرف سے مقرر کردہ حدود سے اور قانون سے پیچھے ہٹنا ہے تاکہ بیچ کا کوئی تیسرا راستہ نکل جائے۔

جوانوں کو ان تنازعات میں کودنا نہیں چاہے۔ خاص کر تعلیم یافتہ جوان ان تنازعات میں شریک نہ ہو اور اپنے اپنے ”قبیلے“ کی طرف سے ”بے غیرت“ والے طعنے برداشت کریں۔

ریاست کی ذمہ داری ہے کہ ان مسائل کے حل میں سہولت کار بنے اور قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے والوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹ لے۔ ریاست کے اداروں کی ذمہ داری سب سے زیادہ بنتی ہے کہ وہ فیصلہ کر لے کہ ان علاقوں کو ”یاغستان“ بنانا ہے یا پھر ایک جدید ریاست کے اندر علاقے تصور کرنا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments