ملائیشیا میں پاکستانیوں کی حالت زار


ملائیشیا پاکستان میں بہت مقبول ہے۔ اس کی مقبولیت کی وجہ پاکستان کے وزیراعظم عمران خان ہیں۔ انہوں نے اپنی ہر تقریر میں ملائیشیا کو اتنا بڑھا چڑھا کر بیان کیا اب ہر پاکستانی جو پاکستان میں رہتا ہے۔ وہ اس کی مثالیں دیتا ہے۔ لیکن جو لوگ یہاں موجود ہیں۔ وہ اپنے کانوں کو ہاتھ لگاتے ہیں۔ وہ یہاں کے حالات سے سخت نالاں ہیں۔ Covid 19 کے بعد غیر ملکیوں کے حالات مزید بد تر ہو گئے ہیں۔ یہاں کی حکومت نے پہلا لاک ڈاؤن جس کو یہاں MCO کہاجاتا ہے ۔ Movement Control order 18 مارچ 2020 بروز بدھ نافذ کیا۔ جو سات جون 2021 بروز پیر کو ختم ہوا۔ اس MCO کے دوران کچھ نرمی بھی رہی۔ لوگوں کے کچھ معمولات زندگی بھی چلتے رہے۔ یہاں کی حکومت نے غیرملکیوں کے ورک پرمٹ میں 25 فیصد رعایت بھی دی۔ لیکن موجودہ MCO جو کہ 28 مئی 2021 کو لگایا گیا اور تا حال جاری ہے۔ اس میں سخت احکامات جاری کیے گئے اگرچہ احکامات سب کے لیے ہیں۔ لیکن جو مقامی لوگ ہیں وہ اپنی گاڑیوں میں ادھر ادھر سفر کرتے رہتے ہیں۔

اپنے اپنے رشتہ داروں سے ملنے کے لیے وہ جا سکتے ہیں مقامی لوگ چھوٹے موٹے کام بھی کر رہے ہیں۔ جیسے ٹیکسی سروس جس کو یہاں Grab کا نام دیا گیا ہے۔ اسی طرح آن لائن سٹور کا کام یا پھر فوڈ ہوم ڈلیوری کا کام۔ اسی طرح مقامی لوگوں کو گورنمنٹ کی طرف سے بھی کافی رعایت ملی ہیں۔ ان کو کھانے پینے کے لئے بھی سہولیات میسر ہیں۔ اس MCO کے دوران سب سے زیادہ متاثر غیر ملکی ورکر ہوئے ہیں۔ جو ایک ایک کمرے کے اندر بیس لوگ رہتے ہیں ان کے لیے اپنے فلیٹ سے باہر نکلنا ناممکن بنا دیا گیا ہے۔

یہاں کے وزیراعظم جناب محی الدین یاسین نے اعلان کیا ہے کہ جب تک روزانہ کی بنیاد پر چار ہزار سے کم کیس نہیں ہوتے لاک ڈاؤن نہیں کھلے گا۔ جب کہ اتنی سختی کرنے کے باوجود گزشتہ کل یعنی 14 جولائی 2021 کو l 11 ہزار 600 کیس ریکارڈ کیے گئے۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے اتنی سختی کرنے کے باوجود یہاں پر کرونا کیوں پھیل رہا ہے۔ جبکہ 18 مارچ 2020 سے یہاں کی حکومت نے ہر طرح کی انٹری بند کی ہوئی ہے یعنی یہاں کوئی وزٹر، پرمٹ والا یہاں تک کہ کوئی کاروباری شخص بھی نہیں آ سکتا۔

لیکن اس کے باوجود کرونا بڑی تیزی سے پھیل رہا ہے۔ ملائیشیا کا سارا نظام غیر ملکیوں کے سہارے چلتا ہے۔ یہاں پر پاکستان بھارت نیپال سری لنکا بنگلہ دیش فلپائن اور انڈونیشیا کے لاکھوں کی تعداد میں ورکر موجود ہیں۔ موجودہ لاک ڈاؤن نے ان غیر ملکی ورکرز کی کمر توڑ دی ہے۔ مجھے بے شمار پاکستانیوں نے اپنی حالت زار کے بارے میں آگاہ کیا۔ یہاں تک کہ لوگ خودکشی کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ امیگریشن دفاتر بند کر دیے گئے ہیں۔

جن لوگوں نے اپنے اپنے ورک پرمٹ ری نیو کروانے تھے وہ سب غیر قانونی ہو چکے ہیں۔ لوگوں کے پاس کھانے کے لیے کچھ نہیں وہ ورک پرمٹ کیسے ری نیو کروائیں گے۔ حکومت کو چاہیے تھا امیگریشن دفاتر کھلے رکھتے اور غیر ملکیوں کو ورک پرمٹ میں چھوٹ دیتے۔ لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا البتہ کوالالمپور ائرپورٹ پر امیگریشن نے تھرڈ فلور پر ایک کاؤنٹر ضرور بنا دیا ہے۔ جس کے ذریعے جو بھی غیرملکی واپس جانا چاہتا ہے وہ بڑی آسانی کے ساتھ صرف 500 رنگٹ ادا کر کے واپس جا سکتا ہے۔

اس کے پاس کنفرم ٹکٹ ہونا ضروری ہے اور اس نے Covid ٹیسٹ کروایا ہو۔ یہاں کا سفارتخانہ بھی خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہا ہے۔ پاکستانیوں کی تو صرف وہ پاکستانی مخیر حضرات جو عرصہ دراز سے یہاں کاروبار کر رہے ہیں۔ وہ کھانے پینے کی اشیاء پاکستانیوں کو فراہم کر رہے ہیں۔ یہاں پر پاکستانیوں کو سب سے بڑا مسئلہ جو درپیش ہے۔ وہ دو یا تین ماہ کام کرانے کے بعد تنخواہ کا نہ ملنا ہے۔ یہاں تنخواہ ایک مہینہ پندرہ دن کے بعد ملتی ہے۔

جب تنخواہ کا دن آتا ہے تو کہہ دیا جاتا ہے۔ کچھ دن انتظار کریں تنخواہ مل جائے گی۔ ایسے کرتے کرتے دو سے تین ماہ گزر جاتے ہیں اور پھر مجبور اور بے بس غیر ملکی ورکر وہاں سے بھاگنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ ایسے حالات میں کچھ برائے نام ادارے بنے ہوئے ہیں لیکن وہاں پر بھی ہوتا کچھ نہیں۔ ابھی حال ہی میں یہاں کی حکومت نے ایک آن لائن لیبر کورٹ ایپ متعارف کروائی ہے۔ دیکھنا یہ ہے آنے والے دنوں میں اس کے کیا اثرات نکلتے ہیں۔

اس وقت پاکستانی اور دیگر غیر ملکی ورکر سخت اذیت کا شکار ہیں ان کے پاس اپنے پیاروں سے بات کرنے کے لیے پیسے تک نہیں ہیں۔ جبکہ لاک ڈاؤن ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ دیکھنا یہ ہے آنے والے دنوں میں یہاں کی حکومت غیر ملکیوں کے لیے کیا اقدامات کرتی ہے۔ لیکن تاحال لاک ڈاؤن کے دوران بھی سخت پکڑ دھکڑ جاری ہے۔ ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے یہاں کی حکومت غیر ملکیوں کو ہی وائرس سمجھتی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے اگر غیر ملکی چلے گئے تو یہاں کام کون کرے گا۔

آخر میں یہاں پر رہنے والے تمام پاکستانیوں نے وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان سے اپیل کی ہے۔ وہ یہاں کے سفارتخانے کا قبلہ درست کریں اور ہزاروں کی تعداد میں پاکستانی جیلوں میں پڑے ہوئے ہیں ان کی واپسی کے اقدامات کریں۔ اس کے علاوہ جو پاکستانی ہیں ان سب کو قانونی کرانے میں یعنی ورک پرمٹ لگوانے میں سفارت خانے کو اقدامات جاری کریں یقیناً کسی بھی گورنمنٹ کے لیے صرف غیر ملکیوں کا زرمبادلہ اکٹھا کرنا کام نہیں ہوتا بلکہ اوورسیز پاکستانیوں کو ان کے جائز حقوق دینا بھی حکومت وقت کا اولین فرض ہوتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments