قربانی کا مقصد


ہم سب لوگ اپنے بچپن سے ہر سال عید الضحٰی کے تہوار کو پورے اسلامی جوش و جذبہ سے مناتے آ رہے ہیں اور یہ قربانی کا سلسلہ کیسے شروع ہوا اس کے بارے میں بھی اپنے بڑوں سے سنتے رہے ہیں کہ یہ سنت ابراہیمی ہے جس کی پیروی ہر سال مسلمان ماہ ذی الحج کی 10، 11 اور 12 کو اللہ کے نام پر جانور کی قربانی کر کے کرتے ہیں۔

خواب نبوت کا چالیسواں حصہ ہوتا ہے بارہا دیکھے جانے والے خواب کی تکمیل کے لیے حضرت ابراہیمؑ نے اللہ کی اطاعت اور خوشنودی کی خاطر اپنے محبوب بیٹے حضرت اسماعیلؑ کی قربانی دینے کے لیے زمین پر لٹایا تھا۔ حضرت ابراہیمؑ اللہ کی رضا کی خاطر دنیا میں عزیز ترین بیٹے کو ذبح کرنے ہی لگے تھے کہ اللہ نے ان کی اطاعت و فرمانبرداری سے خوش ہو کر قربانی کے لیے حضرت اسماعیلؑ کی جگہ جنت سے دنبہ بھیج دیا اور حضرت ابراہیمؑ کو اپنا دوست (خلیل اللہ) کے لقب سے نوازا۔

انسانی تاریخ میں قربانی کی ایسی اعلیٰ ترین مثال چراغ لے کر ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی۔

عیدالاضحیٰ پر قربانی کرنا صرف سنت ابراہیمی کی یاد تازہ کرنا اور جانور کو قربان کرنے سے منسوب نہیں ہے بلکہ قربانی کا اصل معنی تو یہ ہے کہ اللہ کی ذات کی خاطر انسان اپنی سب سے قیمتی چیز کو قربان کرے۔ حضرت ابراہیم کے قصے سے بھی ہمیں یہی سبق ملتا ہے کہ حضرت ابراہیم اللہ کی رضا کی خاطر اپنے سب سے محبوب بیٹے حضرت اسماعیل کو قربان کرنے چلے تھے ان کی یہ ادا اللہ رب العزت کو بہت پسند آئی اور اللہ نے بطور فدیہ جنت سے دنبے کو حضرت اسماعیل کی جگہ بھیج دیا۔

یہ قربانی ہماری اطاعت اور ہماری آمادگی کو ظاہر کرتی ہے کہ ہم حکم خدا پر اپنی محبوب شے کو بھی قربان کرنے سے ذرا بھی دریغ نہیں کریں گے۔ یہ ہمارا وعدہ ہے کہ ہم اپنی آرزوؤں، خواہشوں، مقاصد اور ہماری دنیاوی آزادی کی قربانی دیتے ہوئے احکامات الہی پر چلیں گے۔ یعنی دیانتداری اور نیکی و حق کی راہ پر چلیں گے۔

قربانی کا مقصد یہ ہے کہ اللہ اس کے سامنے جھکنے کی ہماری خواہش سے راضی ہو جائے۔ اللہ تعالٰی قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے کہ نہ خون اور نہ ہی گوشت اس تک پہنچتا ہے، اس کے نزدیک صرف مومنوں کی نیک نیتی قابل قبول ہے۔

قربانی کا اصل مقصد حاصل کرنے کے لیے ہمیں سب سے پہلے تو قربانی کے فلسفے کو سمجھنا چاہیے۔ یہ عید غریبوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کا درس دیتی ہے۔ ہمارے آس پاس کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جو قربانی کی استطاعت نہیں رکھتے بلکہ بعض لوگ تو اتنے غریب ہوتے ہیں کہ صرف بکرا عید کے موقع پر گوشت پکاتے ہیں۔ ہمیں ایسے لوگوں کے گھر سب سے پہلے گوشت بھیجنا چاہیے۔ یہی لوگ سب سے زیادہ مستحق ہوتے ہیں۔

آج نفسا نفسی کے دور میں ایک طرف گوشت کھانے کے لیے ترسے ہوئے لوگوں کے پیٹ خالی رہتے ہیں تو دوسری جانب لوگوں کے ڈیپ۔ فریزر بھرے ہوتے ہیں۔ قربانی تو یہ پیغام لے کر آتی ہے کہ ہم اپنے رشتہ داروں اور پڑوسیوں کی ضرورتوں کو بھی اتنا ہی مقدم جانیں جتنا کہ اپنی ضرورتوں کو سمجھتے ہیں۔

آج کا انسان قربانی کا مقصد اور قربانی کے واقعے کو بھول چکا ہے ‏۔ اصل قربانی تو باپ بیٹے کی گفتگو تھی، دنبہ کی قربانی تو اس کا فدیہ تھا، افسوس ہمیں دنبہ یاد رہا گفتگو یاد نہ رہی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments