مسافر ٹرین کی ڈائری۔۔۔ ۲



یہ کمبخت ہماری سیٹ کہاں ہے؟ اچانک ایک بزرگ سی آواز نے مجھے ارد گرد حالات کی جانب متوجہ کیا، ٹکٹ چیکر بھی ساتھ تھا، تلاش کرتے سیٹ نمبر دیکھتے آگے بڑھ گئے، اسی چکر میں ہماری ٹکٹ بھی چیک ہو گئی، میرے لئے سکون سے جہاں مرضی بیٹھ جائیں پر مجھے میری اس سیٹ سے نہ اٹھائیں جہاں میں بیٹھا سورج کو دیکھنے میں کھویا ہوا تھا، جو ڈھلنے کے بالکل قریب تھا، آسمان پر آدھی کھلی آنکھ کی طرح دنیا کا نظارہ کر رہا تھا، ایسا لگ رہا تھا ابھی پلک جھپکائے گا اور ڈوب جائے گا، گاڑی بہت سارے گمنام اور ویران ریلوے اسٹیشنوں کو ایک پل میں پیچھے چھوڑتی جا رہی تھی، لکڑیوں کے تختوں پر کچھ الٹے سیدھے نام لکھے ہوئے تھے، خاموشی ہر طرف چھائی ہوئی تھی، وہاں رکنا شاید مقدر میں نہ تھا، رک جاتے تو کچھ پل ہمیں بھی احساس ہو جاتا کہ ویران، گمنام اور خاموش اجڑے ہوئے گاؤں آخر کیسے دکھتے ہیں۔

دوبارہ موبائل کی مدہم پڑتی سکرین کی طرف دیکھا جہاں ابھی بھی ایک کتاب کھلی ہوئی تھی، اکثر کتاب ہاتھ میں ہو تب بھی انسان کہیں اور کھویا رہتا ہے، ترکی کے ریلوے اسٹیشن پر گاڑی نے پڑاؤ کیا، اور یہ وہی ریلوے اسٹیشن ہے جس کا میں کھوئے ہوئے خیالوں میں انتظار کر رہا تھا، یہ ریلوے اسٹیشن ایک الگ نظارہ پیش کر رہا تھا، پتھروں کا کام نمایاں تھا، پہاڑوں کی گود میں یہ چھوٹا سا پلیٹ فارم عجیب سی خاموشی میں ڈوبا ہوا نظر آ رہا تھا، جو اس قدر شور مچا رہی تھی کہ پتھر تھرتھرا رہے تھے، پتھروں کی آواز اور ان پر چلنے کی آواز کانوں میں رس گھول رہی تھی، پرانی طرز پر اسٹیشن کی تعمیر کی گئی تھی، درختوں کی ہریالی اور موسم کی رنگینیاں نمایاں تھیں، بہت کم تعداد میں لوگ چہل قدمی کرتے ہوئے پر فضا مقام کی خوبصورتی سے لطف اندوز ہو رہے تھے، قدرت کے بھی کیا کیا رنگ ہیں، چھوٹا سا پلیٹ فارم ہونے کی وجہ سے گاڑی آہستہ آہستہ قدموں سے آگے بڑھی اور تیز ہونے لگی، اور اتنی ہی تیزی سے میری سانسیں تیز ہو رہی تھیں، یہاں کچھ تو خاص تھا، دل کی دھڑکن گاڑی کی رفتار کی طرح تیز ہو رہی تھی۔

کون سا علاقہ ہے؟ ، ضلع جہلم ہے لیکن یہ قصہ نما قدرتی خوبصورتی سے مالا مال جگہ کون سی ہے، ڈیجیٹل دور میں یہ کہاں کا مشکل کام ہے، لکھنے والے لکھتے ہیں کہ اسٹیشن کا نام تو اصل میں ”ترقی“ تھا، وقت نے بدلتے بدلتے ترکی بنا دیا، ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اسٹیشن پر استعمال ہونے والا پتھر ترکی سے لایا گیا اور مجھے لگتا ہے کہ ت کے اوپر پیش نہیں زبر ہے، کیونکہ انگریزی میں اسے ”Tarki“ لکھا گیا تھا، اور یہ اسٹیشن ایک پہاڑ کے دامن میں واقع ہے، چاروں طرف سے پیچھے گزر جانے والے اسٹیشن کو خوبصورتی نے گھیر رکھا تھا، آب جہلم شہر کا موسم اور بھی دلفریب ہو رہا تھا، کھڑکی سے باہر دیکھا یوں لگ رہا تھا کہ میں ہوائی جہاز کا سفر کر رہا ہوں، آسمان یوں ٹرین کے ساتھ جڑا ہوا محسوس ہو رہا تھا، کیونکہ ایک طرف پہاڑی سلسلہ ٹرین کے ساتھ ساتھ چل رہا تھا تو دوسری طرف گہری ڈھلوان جس سے ٹرین اور بھی خوبصورت لگ رہی تھی، پٹری کے ساتھ ہی شیر شاہ سوری نے وہ سڑک بھی تعمیر کرائی تھی، جسے جی ٹی روڈ کہا جاتا ہے، ریل گاڑی یہاں سے تقریباً گول دائرے میں سے گزرتی ہے، جس کو میں اپنے موبائل کیمرے میں محفوظ کر رہا تھا، کیونکہ میں درمیان میں تھا، اس لئے ٹرین کے دونوں سرے ایک وقت میں نظر آ رہے تھے۔

اسے موڑ ترکی کہا جاتا ہے، قصبہ ترکی کے سامنے نیلی کے پہاڑ موجود ہیں، ان کو نیلی کے پہاڑ اس لئے کہا جاتا ہے کیونکہ ان پہاڑوں کی غاروں اور چٹانوں میں پانی جمع ہونے کی وجہ سے پانی کا رنگ نیلا ہو جاتا ہے، منزل اگر طے نہ کرنی ہوتی تو یہاں اترنا میرے لئے نہایت ہی ضروری ہو جاتا، خوبصورتی کا یہ کرشمہ جو ایک ہی ٹکٹ میں اچھا موسم بھی دے رہا ہے، خطرناک پہاڑیاں بھی دے رہا ہو اور ساتھ ریلوے کا ٹریک میسر ہو کیسے ٹھکرایا جا سکتا ہے، رات کا وقت قریب ہوتا جا رہا تھا، بوگی میں رش اتنا نہیں تھا، جس کی وجہ سے لوگ دور دور بیٹھے اپنی اپنی سوچوں میں گم تھے، مسافر بھی کئی طرح کے ہوتے ہیں، ایک میرے سامنے بیٹھا جھنگ کا مسافر تھا، سلام دعا کے بعد ایسی چپ لگی کہ ڈومیلی آنے کو ہے اور یہ ابھی تک خاموش اسی جگہ ساکن بیٹھا الجھے ہوئے خیالوں میں کھویا ہوا ہے، ایک دوسری جانب بنی کھڑی کے ساتھ بیٹھا باہر ہی طرف ٹکٹکی باندھ کر ماحول کو دیکھ رہا تھا، اور تیسرا ابھی سے برتھ پر چڑھ گیا تھا۔

سورج کا آخری دیدار کرنا بھی کسی اذیت سے کم نہیں ہوتا، دن نہیں ڈھلتا انسان کے اندر کی کیفیات بھی ڈھل جاتی ہیں، ڈومیلی ریلوے اسٹیشن ہماری ٹرین کا منتظر کھڑا تھا، یہ وادی جہلم کا ایک قدیم تاریخی قصبہ ہے، ڈومیلی ریلوے سٹیشن کی خوبصورتی کا سب سے بڑا راز قدرتی مناظر تھے، اس کے علاوہ پڑھنے میں یہی آ رہا تھا کہ یہاں پر دو خوبصورت گہرے نیلے رنگ کے پانی کے تالاب بھی موجود ہیں، لیکن پھر وہی بدقسمتی کہ آنکھوں سے اوجھل یہ سب مناظر مجھے تجسس میں مبتلا کر رہے تھے۔

یہ ایک خاص قصبہ بھی جہلم کو بیان کرنے کے لئے کافی ہے، لیکن قصبے کب سے شہروں کو زبان دینے لگے، میں سیٹ سے اٹھا سوچا کہ جتنا ہو سکتا ہے وہ تو دیکھ لوں، دروازے کی طرف جاتے ہوئے، میری نظر واش روم پر پڑی، اچانک مجھے اس کے متعلق ایک چٹکلہ یاد آ گیا، جس کی وجہ سے انگریز نے ٹرینوں میں واش روم کی سہولت مہیا کی تھی،

چندرا سین نامی مسافر نے انگریزی زبان میں ریلوے کے ڈویژونل افسر کے نام لکھا تھا، اسی کی زبانی آپ کی خدمت میں حاضر ہے، میری انگریزی زیادہ تر ایسے مواقع پر مجھے دھوکہ دے جاتی ہے، اس لئے ہم اردو میں ترجمہ کر دیتے ہیں تاکہ آپ کو مسئلہ پیش نہ آئے،


جناب ڈویژنل ریلوے افسر

میں ریل پہ سفر کر رہا تھا۔ بسیار خوراکی کے سبب میرے پیٹ میں شدید مروڑ اٹھنے لگے۔ ریل احمد پور سٹیشن پر رکی تو میں حاجت کے لیے اتر گیا۔ ابھی حاجت روائی جاری تھی کہ ناس پیٹے گارڈ نے سیٹی بجا دی۔ سیٹی سن کر میں سٹپٹا گیا اور اس عالم میں دڑکی لگائی کہ ایک ہاتھ میں لوٹا پکڑا تھا اور دوسرے ہاتھ سے لنگوٹ تھاما ہوا تھا۔ ریل کو جا لینے کی تگ و دو میں دھڑام سے پلیٹ فارم پر گر پڑا۔ وہ گیا لوٹا اور یہ گئی دھوتی۔ سٹیشن پر موجود کیا خواتین اور کیا حضرات سبھی نے میرے کھلی پچھاڑی کے خوب خوب نظارے کیے۔ یوں دیکھتے ہی دیکھتے ہاتھ سے عزت بھی گئی اور ریل بھی گئی۔

محترم! میرے اس ہمہ جہت نقصان کا ذمہ دار وہ ناہنجار گارڈ ہے جس نے بے وقت سیٹی بجا کر مجھے ہڑبڑاہٹ میں مبتلا کر دیا۔ بھلا یہ بھی کوئی بات ہوئی کہ ایک مسافر کو حاجت درپیش ہو اور گارڈ کو اپنی سیٹی کی پڑی ہو۔ میری آپ سے درخواست ہے کہ اس گارڈ پر تگڑے سے تگڑا جرمانہ عائد کریں۔ اگر نہیں، تو پھر میں واقعے سے متعلق تگڑی خبریں اخبارات کو ارسال کرنے لگا ہوں۔ والسلام

فضل الرحمن قاضی اپنی کتاب ”روداد ریل کی ہے“ میں لکھتے ہیں کہ اوتھل کا یہ خط دہلی میں واقع ریلوے کے عجائب گھر میں آج بھی محفوظ ہے، یہ وہ تاریخی خط ہے جس کے نتیجے میں انگریز نے ہندوستان میں پہلی بار ریل کے اندر واش روم کی سہولت دینے کا حکم جاری کیا۔

ٹرین کے دروازے میں کھڑا سورج کو مکمل غروب ہوتے دیکھ رہا تھا کہ ٹرین نے بھی دوبارہ آگے بڑھنے کا امکان ظاہر کیا، آہستہ آہستہ آگے بڑھی اور میں ابھی بھی وہیں دروازے میں کھڑا تھا، صرف یہ ثابت کرنے کے لئے کہ میں بہادر ہوں، حالانکہ یہ کوئی اتنا مشکل کام نہیں تھا، دور سے مشکل لگتا ہے لیکن قریب سے بالکل بھی آسان نہیں ہے، واپس سیٹ تک پہنچا، اندھیرا چھا چکا تھا، رات کی لالی آسمان کے اوپر پھیل رہی تھی، آب اگلا سفر تاریکی میں کاٹنا تھا جو کہ ایک لحاظ سے اچھی بات بھی اور ایک لحاظ سے اچھی بات بالکل بھی نہیں تھی، روشنی ویسے بھی آنکھوں میں چبھتی ہے، انسان خود سے دور رہتا ہے، خود سے نظریں نہیں ملا سکتا، محاسبہ کرنا ہو تو دشواری ہوتی ہے، اداکاری جو کرنی ہوتی ہے، دنیاوی انسان بننے کے لئے بہت کچھ کرنا پڑتا ہے، اس معاملے پر میں رات کو زیادہ اہمیت دیتا ہوں، جیسا بھی ہو انسان اندھیری چھائی ہوئی کالی رات میں جب سوچتا ہے، تو اسے اپنی ہر خطا یاد آ جاتی ہے، محاسبہ کرنا آ جاتا ہے، خود پر ترس نہیں آتا، چہرہ اداکاری نہیں کرتا، کیونکہ اسے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کم عقل بھی ہے اور جلد باز بھی ہے، اندھیرے کی وجہ سے کالا گجراں کے اسٹیشن پر سگنل ہرے رنگ کی روشنی والی لالٹین سے دیا گیا۔

یہ ایک خوبصورت لمحہ تھا، کیونکہ یہ روایات دنیا میں ختم ہو چکی ہیں، ہم ابھی تک سنبھال کر رکھے ہوئے ہیں، لال ٹین تو آب ویسے بھی ختم ہو چکی ہے، یہ تو بس شاید آب ریلوے کے پاس ہی ہو یا پھر ناسٹلجیا کے مریض کے پاس ہو گی، جہاں تھوڑی بہت آبادی تھی وہاں روشنیاں جل رہی تھی، جنگلوں سے گزرتے ہوئے ڈر کا احساس تھوڑا زیادہ ہو جاتا تھا، رات کی تاریکی میں ٹرین کا سفر ہو اور پھر اسرار الحق مجاز کی نظم ”رات اور ریل“ کو میں بھول جاؤں یہ کیسے ممکن ہے،

چند جملے حاضر ہیں
”اک دلہن اپنی ادا سے آپ شرماتی ہوئی
رات کی تاریکیوں میں جھلملاتی کانپتی
پٹڑیوں پر دور تک سیماب جھلکاتی ہوئی
جیسے آدھی رات کو نکلی ہو اک شاہی برات ”

آب یہ شاہی بارات جہلم شہر کے اندر داخل ہو رہی تھی، جس شہر کو شہیدوں کی سرزمین کہا جاتا ہے، کہا جاتا ہے، کہ جہلم کے قبرستان شہیدوں سے بھرے پڑے ہیں۔

ٹرین آپ جہلم کے ریلوے اسٹیشن پر رک چکی تھی، اور میں اس سفر میں پہلے بار کسی اسٹیشن پر چہل قدمی کی غرض سے اتر رہا تھا (جاری ہے )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments