پہلے قربانی کی جاتی تھی اب قربانی دکھائی جاتی ہے


میرے آفس کے راستے میں دو الیکٹرونکس مارکیٹ آتی ہیں اور دونوں شہر کراچی کی بڑی مارکیٹ میں شمار کی جاتی ہے۔ آج جب میں آفس آ رہا تھا تو میری نظر ان مارکیٹ پر پڑی۔ فریج اور ڈیپ فریزر کی بہت بڑی کلیکشن ہر دکان پر موجود تھی بلکہ باہر روڈ تک بہت بڑی تعداد میں فریج ہی فریج موجود تھے۔

چلتی بائیک پہ ایک اور منظر سڑک پر دیکھا جہاں ڈالے والی سوزوکی گاڑی اپنی اپنی منزلوں کی جانب رواں دواں تھی۔ کچھ میں جانور موجود تھے اور کچھ میں فریج۔ اس منظر میں بھرپور ربط نظر آ رہا تھا، گویا جانور اور فریج کا بہت گہرا تعلق ہو۔ ویسے اس منظر کا حقیقی اندازہ آپ کو عید کے بعد بھرے ڈیپ فریزر سے بخوبی ہو جائے گا۔

خیر بات یہ ہے کہ بڑی عید اور چھوٹی عید میں شاپنگ ایک لازمی جزو ہے۔ مگر چھوٹی عید میں چھوٹی چھوٹی شاپنگ ہوتی ہے اور بڑی عید میں بڑی بڑی شاپنگ۔

چھوٹی عید میں کپڑوں کی شاپنگ ہوتی ہے اور گھر کے لئے ضروری اشیاء لی جاتی ہے، اور بڑی عید میں جانوروں کی اور اس کا گوشت رکھنے کے لئے ڈیپ فریزر کی خریداری ہوتی ہے۔

یقیناً فریج بھی ایک ضرورت ہے مگر کچھ لوگ بالخصوص اسی عید کے موسم میں فریج کی خریداری کرتے ہیں تاکہ 2، 4 مہینے تک قربانی کے گوشت کے پکوانوں سے لطف اندوز ہوتے رہیں۔

مجھے یاد ہے آج سے پندرہ بیس سال پہلے قربانی ہوتی تھی مگر اب مقابلہ ہوتا ہے۔ قربانی کے جانور کے معاملے میں باقاعدہ مقابلہ ہوتا ہے، پڑوسیوں میں مقابلہ، رشتے داروں میں مقابلہ، محلے داروں میں مقابلہ۔ بلکہ عجیب سی بات بتاتا ہوں کہ میری جو میری آنکھوں دیکھی ہے۔ ایک فیملی ہے ہماری جاننے والی، مالی طور پر کافی مستحکم ہیں۔ اس فیملی میں دو بھائی ایک دوسرے پر جان چھڑکتے ہیں۔

ابھی کچھ دن پہلے بڑے بھائی کی بیوی بچے بڑا جانور اپنے ابا سے ضد کروا کر لے آئے، تو چھوٹے بھائی کے بیوی بچوں نے بھی ٹھان لی کہ وہ بھی اس سے بڑا جانور لے کر آئیں گے اور اگلے ہی دن اس سے بڑا جانور آ گیا۔ اب خاندان ہی نہیں علاقے بھر میں بھی مشہور ہو گیا ہے کہ یہ بڑے بھائی کا جانور ہے اور یہ چھوٹے بھائی کا، ورنہ آج سے چند سال پہلے تک یہ تمام بھائی ایک ساتھ مل کر قربانی کرتے تھے۔ یہ ایک گھر کی کہانی نہیں یہ اب اکثر گھروں کی کہانی ہے۔

کہانی تو بہت پھیلی ہے۔ شہر کے بہت بڑے بڑے سیٹھ ہیں جن کے گھر بڑے بڑے جانور آتے ہیں بلکہ کروڑوں کے جانور آتے ہیں مگر جب معلومات اکٹھی کی تو معلوم چلا کہ ان میں سے ایک سیٹھ کو مارکیٹ میں بہت سا پیسہ دینا ہے جو ان پر باقی ہے بلکہ مارکیٹ ہی نہیں اپنے ماتحت ملازموں کو کئی مہینوں کی سیلری بھی دینی ہے مگر وہ اس بارے میں بالکل ٹینشن لیس ہیں، کیونکہ وہ ٹھہرا طاقتور آدمی، اب کون ان کے منہ کو آئے؟

لیکن عین قربانی والے دن یہ ہی حضرت کلف والا کرتا پہن کر قربانی کرنے کو آئیں گے اور بڑے ٹھاٹ سے دعائیں وصول کرتے دیکھیں جائیں گے مگر دوسری جانب ان کی وجہ سے بہت سے لوگوں کے دل اداس ہوں گے جن کا ادراک ان جیسے لوگوں کو کبھی نہیں ہو سکتا ۔

قربانی کا موسم تو آ گیا مگر قربانی کے اصل معنی سے ہم اب تک محروم ہیں۔ نہ جانے کتنوں کا حق ہم مار چکیں ہیں اور کتنوں کا حق مارنے کے در پہ ہیں لیکن قربانی کے نام پر لاکھوں روپے خرچ کرتے وقت وہ لوگ ذہن سے نکل جاتے ہیں جن کا حق ہم جیسوں نے کھایا ہوتا ہے۔

نہ جانے کتنوں کی عیدیں برباد کر کے یہ لوگ عید ایسے مناتے ہیں کہ گویا ہم سے بڑا کوئی متقی و پرہیز گار نہیں ہے۔ آج کے دور میں قربانی کا مقصد بھی قربان ہو گیا اور بس دکھاوے اور شوشہ سے بدل گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments