معاشرہ اور ریاست عینی بلیدی کے بچوں کو جوابدہ ہے!


چودہ سو سال پہلے انقلاب آیا اور لڑکیوں کو وقت پیدائش زندہ دفن کرنے سے روک دیا گیا۔ سوال یہ ہے کیا واقعی لڑکیوں کی زندگی بچا لی گئی؟
نظر یہ آتا ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہوا۔ محض معاشرے نے کچھ برسوں کی مہلت حاصل کر لی یہ سوچتے ہوئے کہ سب ہی عورتوں کو دفن کردینے سے مفت کی لونڈیوں کے بنا کاروبار زندگی کیسے چلے گا؟

بیس بائیس برس کی عمر میں لال جوڑا پہنا کر زندہ درگور کیا جانا، اس پیغام کے ساتھ کہ واپس آنے کا مت سوچنا چاہے تم روزانہ جیو اور روزانہ مرو، یہ زندہ دفن کرنا نہیں تو اور کیا ہے؟
عینی بلیدی کی موت معاشرے کے تمام مردوں کے منہ پر ایک زور دار طمانچہ ہے، ان کی نام نہاد مردانگی کے لئے ایک زناٹے دار تھپڑ!

ایک اور بیٹی مر گئی لیکن شاید اچھا ہی ہوا کہ روز روز کے مرنے سے جان چھوٹی۔ پچھلے دس برس میں وہ پل پل مر ہی تو رہی تھی، درد اور اذیت کے کے اس پل صراط سے گزرتے ہوئے جو ایک مرد نے چھت مہیا کرنے کے بدلے میں ترتیب دیا تھا۔

کیا وہ اس وقت اذیت سے نہیں گزری ہوگی جب شوہر نے اس کا ہاتھ توڑا ہو گا؟ اور اس بے بسی کا اندازہ کیجیے جب پیدا کرنے والوں نے اپنی چھت کے نیچے پناہ نہیں دی ہو گی۔ عالم میں کیسی تنہائی ہو گی جب اسے یہ کہہ کے واپس جانے پہ مجبور کیا گیا ہو گا کہ بیٹی برداشت کر، مرد تو ایسا ہی ہوتا ہے۔

اور وہ وقت جب اس ظالم انسان نے اسے آگ میں جلانے کی کوشش کی ہو گی اور وہ کسی ڈری سہمی چڑیا کی طرح مدد کی تلاش میں ادھر ادھر دوڑی ہو گی۔ اکثر نے یہ کہہ کے منہ موڑ لیا ہو گیا کہ یہ تو میاں بیوی کا گھریلو مسئلہ ہے۔

اور وہ لمحہ جب اس نے عینی کے پاؤں میں فائر کیا ہو گا اور اس نے موت کو اپنے سامنے کھڑا دیکھ کے سوچا ہو گا، میں کس کو پکاروں مدد کے لئے؟ اس بھری دنیا میں جاؤں تو کہاں جاؤں؟

وہ تمام گھڑیاں جب وہ پٹتی تھی، زخمی ہوتی تھی اور اس کی چیخ پکار کسی ہمسائے کے دل کو موم نہیں کرتی تھی۔ قرب و جوار سے کوئی ہاتھ تھامنے نہیں آتا تھا، کوئی ظالم کو روکنے کے لئے آگے نہیں بڑھتا تھا۔ یہی سوچتے ہوئے کہ پھر کیا ہوا، کچھ گالیاں اور تھپڑ ہی تو ہیں، ہر عورت کی قسمت میں ہوتے ہیں۔

کون کہتا ہے کہ عینی دو دن پہلے قتل ہوئی؟

کیا عینی کا جسم آہستہ آہستہ مردہ نہ ہوا ہو گا جب جب اس شقی القلب نے اپنے جنون کے ہاتھوں اسے مضروب کیا ہو گا؟ جب وہ درد سے روئی ہو گی، جب اسے کہیں پناہ نہیں ملی ہو گی؟ جب اسے اسی شقی القلب کے ساتھ رہنے پہ مجبور ہونا پڑا ہو گا؟ دس برسوں میں ان گنت بار کٹے پھٹے ہونٹ، ٹوٹے دانت، مضروب چہرہ، سوجی ہوئی آنکھیں، جسم پہ جا بجا نیل! کیا آپ اسے زندگی گردانتے ہیں؟

سو حقیقت تو یہی ہے کہ ان دس برسوں میں وہ بار بار موت کے گھاٹ اتاری گئی اور بار بار زندہ ہوئی اس امید میں کہ شاید یہ سلسلہ رک جائے اور شاید بچوں کی خاطر کسی کو رحم آ جائے۔ لیکن عورت پہ رحم؟ کیسی خام خیالی ہے نا۔

ایک عورت ہونے کے ناتے ہم یہ سوال پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ عینی بلیدی کا قاتل آخر ہے کون؟
شوہر؟ جس نے اپنی طاقت اور اختیار کا مظاہرہ دس برس تک بلا جھجک کیا اور اس کو روکنے والا کوئی نہیں تھا۔
والدین؟ جنہوں نے بیٹی کو بیاہنے کے بعد یہ سوچا کہ فرض پورا ہو گیا اب وہ جانے اور اس کا شوہر؟
بھائی؟ جنہوں نے بہن کی طرف سے آنکھیں بند کر رکھی تھیں اور ان کے خیال میں چنڈال بہن ہی کی کوئی غلطی ہو گی سو اس جنجال کو سر پہ لینے سے فائدہ؟

سسرال؟ جنہوں نے اپنے اپنے کھوٹے سکے کی تشدد پسندی کے باوجود اسے کسی کی بیٹی سے بیاہا اور پھر آنکھیں بند کر لیں۔ بیٹا یا بھائی اگر پرائی عورت کو پیٹتا ہے تو کیا ہوا بھئی، غصے کا کچھ تیز ہے، اب کیا کریں؟ بہو کا کام ہے، برداشت کرنا، سبھی عورتیں برداشت کرتی ہیں۔

ریاستی ادارے؟ جو عورت پہ ہونے والے تشدد کو اس کا گھریلو مسئلہ سمجھتے ہیں اور اگر کوئی مدد کے لئے بلائے تو کہتے ہیں، بی بی، شوہر نے قتل تو نہیں کر دیا نا۔

دوست، احباب، ہمسائے؟ جو عورت کا ساتھ دینے کی بجائے اسے یہ سمجھاتے ہیں کہ گھر بسانے کے لئے عورت کے جسم و روح کی قربانی لازم ہے اور یہ بھینٹ لے کر ہی شوہر نامی دیوتا اسے گھر میں بسا سکتا ہے۔

معاشرہ؟ جس کی بدصورت اقدار مرد کو حاکم بنا کر یہ حق سونپتی ہیں کہ عورت تمہاری ملکیت ہے، منہ کھولے تو منہ توڑ دو، حق مانگنے کے لئے ہاتھ پھیلائے تو ہاتھ توڑ دو، زبان چلائے تو کاٹ دو، رائے کا اظہار کرے تو آگ میں جلا کر راکھ کر دو۔ عورت ہو کر اتنی ہمت؟ ذات کی کوڑھ اور شہتیر سے مقابلہ؟

ہم سمجھتے ہیں کہ عینی کے قتل میں وہ سب شامل ہیں جنہوں نے عینی کی التجاؤں پہ کان نہیں دھرا، اس کو ایک متشدد کے رحم وکرم پہ رہنے دیا اور اس خیال سے سب اپنے آپ کو بہلاتے رہے کہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔

عینی شاید سخت جان نہیں تھی تبھی سب ٹھیک ہونے سے پہلے ہی بچوں سے منہ موڑ کر اگلے جہان کو چل دی۔ لیکن ان بے شمار عورتوں کے بارے میں سوچیے جو یہی تشدد سہتے سہتے بوڑھی ہو جاتی ہیں، جسم ٹوٹ پھوٹ جاتا ہے لیکن سانس کی ڈوری نہیں ٹوٹتی۔ شاید قاتل سانس اکھڑنے سے پہلے ہاتھ روک لیتا ہے اور معاشرے کے ناخدا کہتے ہیں، دیکھا سب کچھ ٹھیک ہو گیا نا۔

لیکن کیا یہ سب واقعی زندہ ہوتی ہیں یا ایک مردہ جسم و روح کے ساتھ اپنے سانس پورے کرتے ہوئے زندگی کی گاڑی گھسیٹ رہی ہوتی ہیں۔

ہمارے پاس ایک اور سوال بھی ہے، کیا کیجئے، یہ بری عادت برسوں سے پال رکھی ہے کہ جواب ملے نہ ملے، سوال پوچھے جاتے ہیں۔

تاریخ میں بے شمار مظالم کی داستانیں رقم ہیں اور ان پہ آنسو بہانے اور اپنی قربانی دینے کا عزم رکھنے والوں کا خیال یہی ہے نا کہ کاش ہم موجود ہوتے اور ظالم کے سامنے سینہ سپر ہو جاتے۔ یہی غم ہے نا کہ ظلم ہوا اور بے جا ہوا۔

عینی کے بچوں کے لئے ماں کا قتل کیا کسی کربلا سے کم ہے؟ عینی کو اذیتیں دے کر مارنے والا کیا یزید اور شمر سے مختلف ہے؟

اگر ظلم کی بساط وہی ہے تو مہرے بھی وہی ہیں۔ عینی کو قتل ہونے سے نہ بچانے والے بھی مختلف نہیں کہ رگوں میں کوفیوں کا لہو گردش کرتا ہے، ظلم ہوتے دیکھ کر منہ پھیر لینے کی فطرت موجود ہے ابھی۔ قاتل کا گریبان پکڑنا انہوں نے سیکھا ہی نہیں۔

شاید پورے معاشرے کی نس نس میں اسی خود غرضی کا زہر اترا ہے اسی لئے تو فضا میں چند عورتوں کی صدائے احتجاج کے سوا کسی کی آواز نہیں۔ کسی کی آنکھ عینی کے لئے نم نہیں، کوئی جلوس نہیں، ہیش ٹیگ نہیں، انصاف کا تقاضا نہیں، مجرم کو بدترین سزا دینے کی صدا نہیں۔

موت کا سا سکوت ہے کیونکہ اس حمام میں سب ننگے ہیں۔ کون ہے جس کے دامن پہ عورت پہ کیے کسی نہ کسی تشدد کا داغ نہیں؟ جسمانی نہ سہی، ذہنی، جذباتی اور مالی ہی سہی جسے کوئی تشدد ہی نہیں سمجھتا۔

عینی کی موت پہ گریبان میں منہ ڈالیے اور پوچھیے اپنے آپ سے کہ کیا آپ عورت کو اپنی ملکیت سمجھنے کے تصور اور اس کو اپنے رویے سے ہنکا کر حکومت کرنے کو ابھی بھی درست سمجھتے ہیں؟

یہ ہمارا نہیں عینی کے بچوں کا ریاست اور معاشرے سے سوال ہے اور ڈریے اس وقت سے جب بچے اس سوال کا جواب اوپر والے کی عدالت میں آپ سے طلب کریں۔

( اعلی تعلیم یافتہ عینی بلیدی چار بچوں کی ماں تھیں اور کچھ دن پہلے شوہر کے ہاتھوں حیدر آباد میں قتل ہو گئیں )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments